ڈھاکہ سے ایک ایسی خبر آئی، دل خراش خبر کہ جس نے پاکستان کے حالات سے بیگانہ کر دیا۔اسلام آباد میں ٹنوں غلاظت اور کم و بیش ایک ارب کیوبک فٹ بدبو کے بھبکے چھوڑ کر رخصت ہونے والے دھرنے کا خیال رہا، نہ عمران خان کی شہر بہ شہر یلغار کا۔ اگرچہ دھرنے کا انتقال کوئی معمولی خبر نہیں تھی، وہ اب جگہ جگہ پھرے گا یعنی دربدر ہوگا۔ عزیز بھائی کامران شاہد کے بقول یہ دنیا کی تاریخ کا ناکام ترین دھرنا تھا۔ اس انجام کا تقاضا تھا کہ تفصیل سے اس کے اسباب و اثرات پر گفتگو کی جائے اور ڈاکٹر طاہر القادری کے کمالات کی دل کھول کر داد دی جائے، لیکن بنگلہ دیش سے جو خبر آئی تو پھر کسی شے کی خبر نہ رہی۔سب معاملات اور معمولات ہیچ ہو گئے۔93 سالہ پروفیسر غلام اعظم کو قید خانے سے رہائی یوں ملی کہ ان کی روح اس دنیا سے پرواز کر گئی۔پاکستان سے محبت کے جرم میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔بنگلہ دیش کے قیام کے بیالیس سال بعد انہیں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔وہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے امیر تھے، متحدہ پاکستان کے پرچم بردار تھے، اپنے ملک کے وفادار تھے، انہوں نے آخری حد تک رسمِ وفا کو نبھایا، لیکن جب بھارتی فوجوں کی معاونت سے بنگلہ دیش قائم ہو گیا اور پاکستان کے حکمرانوں نے بھی اسے تسلیم کر لیا تو وہ بنگلہ دیش کے شہری قرار پائے۔اس کے ساتھ وفا کا رشتہ قائم کر لیا، جس طرح کہ 14اگست 1947ء سے پہلے کے وہ انڈینز پاکستانی بن گئے تھے ،جو پاکستان کی حدود میں رہتے تھے یا ان کی طرف دھکیل دیئے گئے تھے، پروفیسر غلام اعظم نے بھی اپنا بنگلہ دیشی ہونا تسلیم کرلیا اور وہاں جانے کے لئے سرتوڑ کوشش کرنے لگے۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں قائم ہونے والی شیخ مجیب الرحمن کی حکومت نے جماعت اسلامی پر تو پابندی لگائی ہی، ان کی شہریت بھی منسوخ کر دی۔ ان پر بنگلہ دیش کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا، لیکن پروفیسر صاحب نے اسے تسلیم نہ کیا۔ وہ مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے تھے، اس سرزمین پر ان کا فطری حق تھا، جو سلب نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کو ان کی اپنی ہی فوج نے تہہ تیغ کر ڈالا، جنرل ضیاء الرحمن کی حکومت قائم ہوئی تو جماعت اسلامی کو رہائی ملی، اس پر سے پابندی ختم ہوگئی۔ پروفیسر غلام اعظم لندن سے پاکستانی پاسپورٹ پر ڈھاکہ پہنچے، وہاں کے بنگلہ دیشی سفارت خانے کو انہیں ویزا دینے کی اجازت دے دی گئی ۔اپنے شہر پہنچ کر انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ سے ناتہ توڑا اور اپنی شہریت کی بحالی کے لئے قانونی جدوجہد شروع کردی، بالآخر سپریم کورٹ نے ان کا حق ان کو لوٹا دیا۔
1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی عوامی لیگ کے بعد دوسری طاقت بن کر ابھری تھی، اس کے ووٹ بہت کم تھے، اس کا کوئی امیدوار بھی کامیاب نہیں ہو سکا تھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوامی لیگ کے بعد اُسی کا جھنڈا سب سے اونچا تھا۔ پروفیسر غلام اعظم کی قیادت میں جماعت نے اپنے سفر کا ایک بار پھر آغاز کیا۔ یہاں کا سماجی ڈھانچہ (مغربی) پاکستان سے بہت مختلف تھا، یہاں نہ پنجاب اور سندھ کے جاگیردار اور وڈیرے تھے، نہ بلوچستان کے سردار... اس لئے کارواں تیز قدم ہوتا گیا۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم ہوا تو جماعت اسلامی نے18 نشستیں جیت لیں، اس کے نمائندے کابینہ میں پہنچ گئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ عوامی لیگ کے ساتھ مصافحہ کیا، معانقہ ہو گیا، اس کے ساتھ مل کر انتخاب میں حصہ لیا گیا، لیکن جماعت کے حلقہ انتخاب نے اس کروٹ کو قلا بازی سمجھ کر رد کر دیا۔اس کے ہاتھ صرف دو نشستیں آ سکیں۔یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چلا ،لیکن اس سے یہ فائدہ البتہ ہوا کہ عوامی لیگ سے معمول کے تعلقات بحال سمجھے جانے لگے۔ جماعت اسلامی نشیب و فراز سے گزرتی، آگے بڑھتی رہی۔ بنگلہ دیش کی سیاست میں اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا۔ سیکولر سیاست کے خوگر اس پر ٹھٹک گئے۔ خطرے کی بو انہوں نے شدت سے سونگھ لی تھی۔
حسینہ واجد اور ان کی عوامی لیگ نے گزشتہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے جماعت اسلامی کا گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔گڑے مردے اکھاڑے گئے، واقعات گھڑے گئے، جھوٹے گواہ بنائے گئے اور 1971ء کے حادثات کو مقدمات کا موضوع بنا لیا گیا۔ دھڑا دھڑ گرفتاریاں ہوئیں اور سزائیں سنائی جانے لگیں۔جماعت کے ایک سابق رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کو جو پولیس کے ہاتھ نہیں آ سکے تھے، موت کی سزا سنائی گئی۔ایک ممتاز رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ جماعت کے نائب امیر دلاور حسین سعیدی کو بھی موت کی سزا سنا دی گئی، لیکن سپریم کورٹ نے اسے عمرقید میں تبدیل کر دیا۔امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی بھی اپنے متعدد ساتھیوں کے ساتھ مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔گزشتہ تین سال میں ملک بھر میں آگ لگی ہوئی ہے، حکومت کے خلاف مظاہروں میں متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو چکے اور سینکڑوں جیلوں میں ڈالے جا چکے ،لیکن جذبے ہیں کہ قابو میں نہیں آ رہے۔
جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ لینے کے حق سے محروم کی جا چکی، ڈھاکہ ہائی کورٹ کے نزدیک اس کا جرم یہ ہے کہ یہ اسلامی نظام کے لئے جدوجہد کررہی ہے، جس کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ جماعت کی تنظیم موجود ہے، لیکن انتخابی سیاست اس کے لئے ممنوع ہے۔اس فیصلے کے خلاف اس کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، دیکھیں اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوتا ہے۔
غلام اعظم بھرپور زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، لیکن ان کا نظریہ زندہ ہے اور توانا ہو رہا ہے۔گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں خالدہ ضیاء کی بی این پی اور جماعت اسلامی بڑی قوت بن کر ابھری ہیں۔ ان انتخابات میں شکست نے عوامی لیگ کا چین اڑا دیا ہے۔گزشتہ بلا مقابلہ عام انتخابات میں اس نے جو نام نہاد کامیابی حاصل کی تھی، اس کا بھرم اچھی طرح کھل چکا ہے۔ بلدیاتی اداروں کے انتخاب کے پہلے مرحلے میں وہ خاک چاٹنے پر مجبور ہے، آنے والے دن بھی اس کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں لائیں گے۔پروفیسر غلام اعظم کی روح اس کا تعاقب کرتی رہے گی۔ہمیں کوئی ماتم نہیں کرنا ،آہ و بکا کا کوئی طوفان نہیں اٹھانا۔ہمیں تو پروفیسر صاحب کے اہل خانہ کو، ان کے وارثوں کو (جو کہ ہم سب ہیں) مبارک باد دینا ہے کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کی سنت کو زندہ کردیا۔قید خانے میں جان دے کر اپنے حریفوں کی رسوائی کا سامان کر دیا۔کروڑوں بنگلہ دیشیوں اور پاکستانیوں کو نیا حوصلہ بخش دیا، سامان زیست فراہم کر دیا،نظریے کے لئے جان دینے کا سلیقہ تازہ کر دیا:
صفِ دشمناں کو خبر کرو، میرے چارہ گر کو نوید ہو
جو قرض رکھتے تھے جان پر، اسے آج ہم نے چکا دیا
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)