31اکتوبر کو کوالالمپور سے یہ دھماکہ خیز خبر آئی کہ امریکہ اور بھارت نے آئندہ دس سال کے لیے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع وہاں اکٹھے ہوئے اور دونوں کی مسکراتی تصویریں ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نمایاں ہوتی چلی گئیں۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیکسیتھ نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے اور علاقائی استحکام کے لیے اہم قرار دیا‘ جبکہ راج ناتھ سنگھ نے بغلیں بجاتے ہوئے اسے سٹریٹجک تعاون کی علامت کہہ کر پکارا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبر آئی کہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے حوالے سے بھارت پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں کو بھی چھ ماہ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے‘ تو تبصرہ نگار اسے نئی دہلی کی بڑی کامیابی قرار دینے لگے۔ سوشل میڈیا پر گرما گرم تجزیے شروع ہو گئے۔ اسے امریکہ کا ''یوٹرن‘‘ قرار دے کر پاکستانی حکومت کے لّتے لینے والے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ صدر ٹرمپ کی تعریف کرنے اور انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے پر ایک بار پھر تندو تیز الفاظ میں تنقید ہونے لگی۔ بھارتی حلقوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ امریکہ سے تلخ ہوتے تعلقات کو تھام لیا گیا ہے‘ صدر ٹرمپ کے کڑوے کسیلے جملے اپنا اثر کھو بیٹھے ہیں۔ چین کے خلاف دونوں ملک پھر ایک ہو گئے ہیں‘ ان کے درمیان اعتماد کا رشتہ مضبوط ہو گیا ہے۔ ''دفاعی ہم آہنگی‘ معمولات کے تبادلے اور تکنیکی تعاون‘‘ کا دس سالہ پروگرام دونوں ملکوں کو اس طرح جوڑے گا کہ شگاف تو کیا دراڑ بھی نظر نہیں آئے گی۔
یہ درست ہے کہ امریکہ اور بھارت دونوں آزاد ممالک ہیں‘ انہیں اپنی خارجہ پالیسی اور دفاع کی ترجیحات کا تعین کرنے کا حق اور اختیار حاصل ہے۔ اگر وہ ایک دوسرے سے ''بغل گیر‘‘ ہوتے ہیں تو کسی دوسرے کو اس پر اعتراض کا حق نہیں۔ دونوں کے دوطرفہ تعلقات کسی تیسرے فریق کی رضا مندی سے مشروط نہیں ہو سکتے لیکن یہ توقع بہرحال کی جا سکتی ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے میں استعمال نہیں ہوں گے۔ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے اتحادی رہے ہیں‘ انہوں نے سرد جنگ کے دوران ایک دوسرے کا ساتھ دیا‘ اور افغانستان میں سوویت فوجوں کے داخلے کے بعد تو یک جان ہو کر انہیں واپسی پر مجبور کیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے چین سے اپنے تعلقات پر آنچ نہیں آنے دی۔ گزشتہ آٹھ عشروں کے دوران چین کے ساتھ دوستی کو اپنی اولین ترجیحات میں رکھا‘ یہاں تک کہ امریکہ اور چین کے درمیان رابطہ کار کا فرض بھی ادا کیا‘ اور تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ اب بھی پاکستان چین کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ یہ دوستی جنوبی ایشیا میں توازن برقرار رکھنے میں نمایاں کردار ادا کر چکی ہے‘ اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ پاکستان نے امریکہ سے تعلقات کو بھی سنبھالے رکھا ہے اور حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران صدر ٹرمپ کی جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر ان کا شکر گزار رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف انہیں دو بار نوبل امن انعام کے لیے نامزد کر چکے ہیں۔ اس پس منظر میں بھارت امریکہ دفاعی معاہدے کی خبر نے ماحول میں سنسنی دوڑا دی۔
اس معاہدے کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے کرید پڑتال شروع کی تو معلوم ہوا کہ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ دس سال پہلے اس پر واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کیے گئے تھے۔ بارک اوباما امریکہ کے صدر تھے تو نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم۔ دفاعی تعاون کا جو معاہدہ دس سال پہلے طے پایا تھا‘ اب اس ہی کی تجدید کی گئی ہے۔ یہ تفصیل سامنے آتے ہی منظر بدل گیا‘ جو معاہدہ دس سال پہلے طے پایا تھا‘ اس کے جو اثرات اور نتائج مرتب ہونا تھے وہ ہو چکے‘ اب اسے مزید دس سال کے لیے توسیع دے دی گئی ہے تو کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا۔ دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کو یہ داد البتہ دی جانی چاہیے کہ انہوں نے نئے پن کا تاثر پیدا کر کے سنسنی پھیلا دی۔ اس طرح مودی حکومت کو اپنے عوام کے سامنے سینہ چوڑا کرنے کا موقع مل گیا۔
دس سالہ پرانے معاہدے کی تجدید پاکستان کے لیے پریشان کن یوں نہیں کہ ان دونوں کے درمیان جو تعاون جاری ہے‘ وہ اسے کسی طور متاثر نہیں کر سکا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس کے باوجود ہموار ہیں‘ صدر ٹرمپ کے رویے نے انہیں ایک نئی معنویت بخش دی ہے تو اس پر ان کا شکریہ واجب ہے۔ پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت نے جس فراست کے ساتھ خارجہ پالیسی کے محاذ پر پیش قدمی کی ہے‘ اس کی داد دی جانی چاہیے اور اسے جاری بھی رکھنا چاہیے۔ پاکستان اس وقت نئی بلندیوں پر ہے‘ اس نے جہاں اپنی دفاعی اہلیت اور صلاحیت کا لوہا منوایا ہے‘ وہاں سفارت کارانہ مہارت نے اس کے لیے نئے امکانات کشادہ کیے ہیں۔ ہمیں اپنا سفر اپنے انداز میں اور اپنی رفتار سے جاری رکھنا ہو گا۔
امریکہ اور بھارت کے دفاعی معاہدے کے ڈھول کا پول کھل چکا۔ اس سے پاکستان کو گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ گزشتہ دس سال کا جو دفاعی تعاون ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکا تو آئندہ دس سال میں کیا ہو سکے گا؟ بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی خواہش ایسی نہیں ہے کہ جو بآسانی پوری ہو سکے۔ بھارت کی فوجی صلاحیت کی قلعی کھل چکی ہے۔ پاکستان کے ساتھ چار روزہ جنگ میں اس کے ساتھ جو کچھ ہوا پوری دنیا اسے دیکھ چکی۔ پاکستان اور چین کے درمیان اعتماد کا رشتہ پھل پھول رہا ہے۔ امریکہ اور چین بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ دونوں صدور کی ملاقات کے دوران جو کچھ کہا گیا‘ اس نے امن کی امید کو بڑھاوا دیا ہے۔ امریکہ اور چین ایک دوسرے سے لڑ کر کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے‘ وہ تجارتی میدان میں کبڈی کھیل رہے ہیں تو ہمیں بھی اس میدان میں اپنے جوہر آزمانے چاہئیں۔ گھبرائے یا اِترائے بغیر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔ افغانستان کے ساتھ جاری مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے‘ اس کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ ترکیہ اور قطر کی ثالثی رنگ لا رہی ہے۔ پُرامن جنوبی ایشیا اس خطے ہی کی نہیں پوری دنیا کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہر حربہ آزمانا ہو گا اور ہر تدبیر اپنانی ہو گی۔
پاکستان کو اپنے دشمنوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان میں بیٹھے جو عناصر اسے اشتعال دلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ الجھنے کے بجائے انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں اور محبتوں کی اپنی ایک تاریخ ہے‘ دونوں ملکوں کے سنجیدہ عناصر کو ایک دوسرے کی اہمیت اور حیثیت کا بخوبی اندازہ ہے۔ دونوں کے تعلقات کو سنبھالنے کے لیے ترکیہ اور قطر جیسے قابلِ بھروسہ دوست ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ مضبوط کیے جانے چاہئیں تاکہ کابل میں بیٹھے شرارتی عناصر کو ناکام بنایا جا سکے۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان افغانستان سے کسی طور الجھنا نہیں چاہتا۔ افغانستان کو بھی اس حوالے سے اقدامات کرنا ہوں گے‘ ایک ایسا موثر میکانزم وضع کرنے میں تعاون کرنا ہو گا جو دہشت گردوں اور در اندازوں کی بروقت نشاندہی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچا سکے ؎
یقیں محکم‘ عمل پیہم‘ محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)