"MSC" (space) message & send to 7575

افغان،بھارت معاہدہ؟

غزہ میں جنگ بندی ہو چکی۔ حماس اور اسرائیل دونوں جشن منا رہے ہیں۔ دونوں طرف سے اظہارِ مسرت کیا جا رہا ہے اور اپنے اپنے دائروں میں اپنی اپنی فتوحات کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کس نے کیا حاصل کیا اور کہاں ناکامی ہوئی‘ ہمارے اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ جنگ بندی ہو چکی۔ کشت و خون رُک چکا۔ اب فریقین بات چیت کے ذریعے معاملات آگے بڑھائیں گے۔ امریکہ اور مسلم دنیا کے بڑے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ جو اسرائیل کی پشت پر پوری طاقت سے کھڑے تھے‘ اُسے ہلّہ شیری دے رہے تھے اور اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کرتے جا رہے تھے‘ اب درمیان میں ہیں اور یقین دلا رہے ہیں کہ فریقین کے ساتھ انصاف ہو گا۔ کسی کو کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنے دی جائے گی۔ فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں‘ بھوکوں اور پیاسوں کو خوراک فراہم ہونے لگی ہے۔امدادی ٹرک بلا روک ٹوک سوئے غزہ رواں ہیں۔ اُمید لگائی جا رہی ہے کہ بالآخر فلسطین کی ریاست قائم ہو گی‘ وہ ریاست جسے دنیا کے 150ممالک تسلیم کر چکے ہیں لیکن جسے اپنا جغرافیہ نہیں مل پا رہا۔
دو برس پہلے حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کر کے جس جنگ کا آغاز کیا تھا‘ اس کی ابتدا میں اسرائیل ''مظلوم‘‘ بن کر کھڑا تھا لیکن جو کارروائی اس نے کی‘ اس نے اسے دنیا بھر میں تنہا کر دیا۔ اگر اس کی جنگی کارروائی محدود ہوتی تو اس کے چہرے پر وہ کالک نہ ملی جاتی جس نے آج اس کا چہرہ ڈھانپ رکھا ہے‘ وہ ایک سیاہ دھبے کا نام بن کر رہ گیا ہے۔ ہزاروں پُرامن شہریوں کو قتل کر کے‘ خواتین اور بوڑھوں کو نشانہ بنا کر‘ صحافیوں‘ ڈاکٹروں اور امدادی کارکنوں پر گولیاں چلا کر‘ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو کھنڈر بنا کر اس نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا‘ اس نے اسے تاریخِ انسانی کے اندر قابلِ نفرت بنا دیا ہے۔ عالم اسلام کیا‘ یورپ اور امریکہ تک میں تھُو تھُو ہو رہی ہے۔ وہاں بسنے والے یہودیوں کی بھاری تعداد بھی اس پر نفرین بھیج رہی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں جو کچھ بھی کہتے اور کرتے رہے ہوں‘ اس وقت وہ امن کے ضامن بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کرا کر اپنے آپ کو محبوب و مقبول بنایا تھا‘ بعدازاں دوسرے ممالک کے درمیان بھی صلح جُو کا کردار ادا کیا اور اپنے آپ کو لائقِ تحسین بنا لیا۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ انہیں نوبل امن انعام پیش کیا جائے لیکن اس سال یہ پوری نہیں ہو سکی۔ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے جو کارنامے سرانجام دیے ہیں وہ آئندہ برس زیر غور آ سکیں گے۔ ان کو اگلے برس بھی نوبل امن انعام ملے یا نہ ملے‘ انہوں نے اگر امن کے راستے پر سفر جاری رکھا اور غزہ کی جنگ بندی کے بعد مسئلے کے پائیدار حل کی طرف متوجہ ہو گئے تو انہیں نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا کے ہر امن پسند کی طرف سے بنظرِ تحسین دیکھا جائے گا‘ یہ انعام ایسا ہو گا جس کے سامنے نوبل امن انعام ہیچ ہے۔
اہلِ پاکستان کے لیے غور و فکر بلکہ اضطراب کا مقام یہ ہے کہ جب حماس اور دنیا بھر کے امن پسند مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت پر مطمئن اور مسرور ہیں‘ پاکستان کے بعض مذہبی حلقے یہاں ہنگامہ برپا کرنے پر تُلے ہیں‘ اہلِ غزہ سے یکجہتی کے اظہار کے لیے دھما چوکڑی مچائی جا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حماس کے ردِعمل میں اپنے جذبات شریک کر کے یوم تشکر منایا جاتا لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ اس وقت پیدا کیا جا رہا ہے جب غزہ جنگ کے متاثرین بتاشے کھانے اور بانٹنے میں مصروف ہیں۔
یہ بھی نظروں کے سامنے ہے کہ ''معرکۂ حق‘‘ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات زور پکڑ رہے ہیں۔ افغانستان سے دراندازی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں تو یہ خبریں (افواہیں یا قیاس آرائیاں) بھی گردش کر رہی ہیں کہ افغانستان کے وزیر خارجہ نے بھارت پہنچ کر ''دفاعی معاہدہ‘‘ کر لیا ہے جس کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ قرار پائے گا‘ گویا پاک سعودی معاہدے کی نقل اتاری جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہماری اندرونی سیاست بھی کروٹیں بدل رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور سے استعفیٰ طلب کر کے جناب عمران خان نے سہیل آفریدی نام کے جس نوجوان کو ان کا جانشین مقرر کیا ہے‘ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کے بقول اسے وفاقی حکومت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہونا ہے۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ابہام میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پشاور پہنچ کر دو گھنٹے سے زائد میڈیا کا رکنوں سے خطاب کرتے ہوئے اور ان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ دہشت گردوں کو تحفظ یا سہولت فراہم کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ ان کا دو ٹوک پیغام تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف صف آرا ہو جاؤ‘ انہیں تنہا کر دو‘ بصورتِ دیگر تم ان کے ساتھی سمجھے جاؤ گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج تو اپنا فرض پوری قوت اور صلاحیت سے ادا کر رہی ہیں اور ان شاء اللہ کرتی بھی رہیں گی لیکن اہلِ سیاست اور اہلِ دانش پر بھی لازم ہے کہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بند ہو گئی ہے تو پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں یکسو اور یک آواز کیوں نہیں ہو سکتیں۔ اہلِ پاکستان اپنے سیاسی رہنماؤں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفادات یا شکایات سے اوپر اٹھ کر دفاعِ وطن کے لیے کمر بستہ ہوں۔ کوئی جیل کے اندر ہے تو بھی‘ جیل سے باہر ہے تو بھی۔ پاکستانیت کو بروئے کار آنا چاہیے کہ اسے قید نہیں کیا جا سکتا۔ افغان‘ بھارت معاہدے کی خبریں ہم سب کو آواز دے رہی ہیں:
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ڈاکٹر اشفاق احمد کا اعزاز
سیرت النبیﷺ پر بزبانِ انگریزی انتہائی منفرد کتاب کے مصنف ڈاکٹر اشفاق احمد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہیں امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کی تازہ درجہ بندی کے مطابق دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں میں شمار کیا گیا ہے۔ ان کے تحقیقی مقالے انتہائی مقبول ہیں جو انہیں کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ کی کئی ذیلی شاخوں میں ''ٹاپ ٹین‘‘ (Top Ten) میں جگہ دیتے ہیں۔ اس فہرست میں دنیا بھر سے دو لاکھ 30ہزار سے زائد سائنسدان شامل ہیں۔ یہ خبر ہر پاکستانی کیلئے مسرت کا باعث ہے۔ ڈاکٹر اشفاق کی شہرہ آفاق تصنیف کا ترجمہ ''بشرِ کامل‘‘ کے عنوان سے اردو میں شائع ہو چکا ہے۔ انتہائی منفرد انداز میں انہوں نے رسولِ اکرمﷺ کی شخصیت کے سو ایسے محاسن کی طرف توجہ دلائی ہے جن پر عمل کر کے ہم دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب ہر لائبریری بلکہ ہر گھر کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب امریکہ میں مقیم ہیں لیکن پاکستان کے علمی اور سائنسی حلقوں سے ان کا گہرا رابطہ ہے۔ حکومتِ پاکستان کو بھی ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کر کے ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں