جماعت اسلامی سے اختلاف کرنے والے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والے‘ اس کا راستہ روکنے والے‘ اس کی کامیابیوں کو اپنی ناکامیاں سمجھنے والے کم نہیں ہیں‘ لیکن اس حقیقت کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے۔ جنوبی ایشیا میں اس کے اثرو رسوخ کا کوئی مقابلہ یا موازنہ کسی دوسری جماعت سے ممکن نہیں۔ بنگلہ دیش‘ بھارت اور مقبوضہ کشمیر تک میں وہ اپنے نام کے ساتھ کام کی وجہ سے بھی ممتاز ہے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا کلمہ بلند کرنا‘ اسے مطلوب و محبوب ہے۔ بھارت میں اس کی سرگرمیاں دعوتی‘ سماجی اور علمی ہیں۔ بنگلہ دیش میں وہ انتخابی سیاست میں اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔ اس نے متحدہ پاکستان کو قائم رکھنے کی مقدور سے بڑھ کر کوشش کی‘ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اسے جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا‘ ان کا ہلکا سا تذکرہ بھی خون کے آنسو رُلا دیتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے دورِ اقتدار میں اس کے متعدد رہنماؤں کو پھانسیاں دی گئیں‘ عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ بہت سوں کو غائب کر دیا گیا‘ پروفیسر غلام اعظم پیرانہ سالی میں حوالۂ زنداں ہوئے اور جیل ہی میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کے بیٹے کو‘ جو فوج کے ایک اعلیٰ افسر تھے‘ اغوا کر کے کسی نامعلوم مقام پر قید رکھا گیا‘ برسوں بعد انہیں رہائی نصیب ہوئی تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ جماعت اسلامی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد اب پھر سرگرم عمل ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام اس کی طرف متوجہ ہیں۔ آنے والے انتخابات پر اس کے بڑھتے ہوئے اثرات پر دشمن لرزہ براندام ہیں۔ پاکستان میں بھی جماعت اسلامی کے اثرو رسوخ اور حالات کا رُخ موڑنے کی صلاحیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم اور سماجی خدمت کے حوالے سے اس کی کارکردگی مثالی ہے۔ اس کے زیر سایہ متعدد تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں اور الخدمت فاؤنڈیشن تو دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھا چکی ہے۔
اس لاہور شہر میں جہاں 84برس پہلے سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کی دعوت پر ایک سو سے بھی کم افراد نے جمع ہو کر جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی‘ وہیں اس کے حاضر امیر حافظ نعیم الرحمن کے سامنے کارکنوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ مینارِ پاکستان کے سائے تلے وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ حالات کا تجزیہ پیش کر رہے تھے‘ واضح کر رہے تھے پاکستان 25کروڑ عوام کا ملک ہے۔ اسے کسی فردِ واحد یا ادارے کا غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکنان کا یہ اجتماعِ عام ''بدل دو نظام‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگا رہا تھا۔ سٹیج پر ملک بھر سے آئے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وہ سب لوگ جنہوں نے اپنی جوانیاں جدوجہد کی نذر کر دیں لیکن جن کے بڑھاپے پر ضعف طاری نہیں ہوا۔ لیاقت بلوچ جیسے جہاندیدہ ناظمِ اجتماع اپنی تنظیمی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔ حافظ نعیم الرحمن‘ جنہوں نے شعور کی آنکھیں مولانا مودودیؒ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد کھولیں‘ نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنے کارکنوں میں تازہ روح پھونک رہے تھے۔
جماعت اسلامی کے ارکان کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی‘ اس کے رجسٹرڈ کارکنان (بقول لیاقت بلوچ) بیس لاکھ سے زائد ہیں۔ اس کی شاخیں پاکستان کے ہر شہر‘ قصبے‘ تحصیل اور ضلع میں موجود ہیں۔ اس کے دستور کے مطابق باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں اور ہر سطح پر منتخب افراد اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی اقدار کو غالب کرنے کی آرزو انہیں توانا رکھتی ہے۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ مرحوم کے انتقال کے بعد یہ نہ دھڑوں میں تقسیم ہوئی نہ مضمحل ہو کر بیٹھی۔ میاں طفیل محمد مرحوم اس کے امیر بنے‘ قاضی حسین احمد‘ سید منور حسن‘ سراج الحق نے یہ ذمہ داریاں سنبھالیں‘ اب انجینئر حافظ نعیم الرحمن امارت کا پرچم تھامے ہوئے ہیں‘ کارواں پھیلتا اور آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ انتخابی طاقت میں اضافے کا چیلنج البتہ ان کو درپیش ہے۔
جماعت اسلامی کا اجتماعِ عام گیارہ سال کے وقفے کے بعد منعقد ہو رہا ہے۔ کارکنوں کی تعداد جب لاکھوں تک پہنچ جائے تو انہیں ایک جگہ اکٹھا کرنا آسان نہیں رہتا۔ پنڈال میں جہاں پورے پاکستان کی نمائندگی کرنے والے موجود تھے‘ وہاں دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے نمائندے بھی شرکت کیلئے پہنچے تھے۔ جماعت اسلامی کے ''وزیر خارجہ‘‘ آصف لقمان قاضی نے ان کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا تو دل انہیں یک جا دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔
جماعت اسلامی میں کوئی شخص کسی نسبی تعلق کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکا۔ مولانا مودودیؒ کے صاحبزادے حسین فاروق مودودی جو امریکہ میں آباد ہیں‘ اور جماعت اسلامی کے ناقد سمجھے جاتے ہیں‘ سٹیج پر براجمان اپنے والد کی روح کو آسودہ کرنے میں محو تھے۔ ان کے ساتھ ہی ہیوسٹن سے آنے والے ممتاز پاکستانی پروفیسر زبیر احمد صدیقی‘ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کے ساتھ جڑے بیٹھے تھے۔ حافظ ادریس اور مولانا محمد مالک بھی ضوفشاں تھے لیکن سینئر ایڈووکیٹ اکرم شیخ اور ڈاکٹر عشرت حسین کی نشستیں ان کی منتظر تھیں۔ حفیظ اللہ نیازی اپنے وجود کا خاموش احساس دلا رہے تھے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ بھی سمٹے بیٹھے تھے۔ کراچی سے آنے والے محمد حسین محنتی نے بھی اپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا۔ حافظ نعیم الرحمن کا اعلان تھا کہ وہ سہ روزہ اجتماع کے آخری دن لائحہ عمل کا اعلان کریں گے‘ ماہنامہ ''ترجمان القرآن‘‘ کے بیدار مغز مدیر سلیم منصور خالد نے مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور افکار پر روشنی ڈالی تو سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے مستقبل کو زیر کرنے کیلئے نوجوانوں کو متحرک کرنے پر زور دیا۔ جماعت اسلامی میں جو شخص جس بھی منصب پر فائز ہے‘ وہ اپنی صلاحیت اور اپنے ساتھیوں کے اعتماد کی بدولت یہاں تک پہنچا ہے۔ خوشامد‘ دولت یا سفارش سے کسی نے کچھ حاصل کیا ہے نہ کرنے کی توقع رکھتا ہے نہ کر ہی سکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔ اسے حزبِ اقتدار اور اختلاف کی روایتی کشمش میں حریف بننے کے بجائے اپنا الگ تشخص برقرار رکھنے پر اصرار ہے۔ پاکستان کے انتخابی نظام کو تبدیل کرنے اور بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دینے کے حوالے سے بھی اہداف واضح ہیں۔ پاکستان کا روایتی سماجی ڈھانچہ جمہوری عمل میں مسلسل رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے‘ موثر اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے متعدد انتخابی حلقے موروثیت کا شکار ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جہاں بااختیار بلدیاتی ادارے موجود نہیں ہیں۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری سمجھے جاتے ہیں لیکن پاکستان کے اہلِ سیاست اس کا اعتراف و اہتمام کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ جب وہ ''بدل دو نظام‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ معاشرے کو زیرو زبر کر دیا جائے۔ آئین پاکستان جس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں جماعت اسلامی کے قائدین نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا‘ اس میں درج سماجی انصاف کے اصولوں کو نافذ کر کے پاکستان کو فلاحی اور عوامی ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی دستور کو پورے کا پورا نافذکرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اسی سے نظام بدلے گا اور عوام کو وہ کچھ ملے گا‘ جو ان کا حق ہے۔ پاکستان عوام کے ووٹوں سے قائم ہوا تھا‘ اور عوام کی طاقت ہی سے اسے تبدیل کیا جا سکے گا۔ جماعت اسلامی اور عوام دونوں مل کر یہ کام کیونکر کر سکیں گے‘ حافظ نعیم الرحمن کو یہ بہرحال واضح کرنا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)