"MSC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور بھارت میں نئے چراغ

پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں میں بڑی ڈرامائی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ مذاکرات کی میزیں بچھ رہی ہیں اور توقعات کے پرندے ہوا میں تیرنے لگے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی ایک واقعہ یا حادثہ برسوں کی محنت پر پانی پھیر سکتا ہے اور کوئی ایک قدم مایوسیوں کی گھٹائوں میں امید کی بجلیاں بھر سکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں ہر سوچ اور ہر قماش کے لوگ موجود ہیں، وہ بھی جو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا چاہتے ہیں اور اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آگ اگر بھڑکتی یا بھڑکائی جاتی رہے گی تو دونوں کے ہاتھ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ جلے گا۔ دونوں ملکوں کو تاریخ اور جغرافیے نے ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی ایک میں تیلی سلگے تو تپش وہیں تک محدود رہے۔ دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرنے یا یہ کہیے کہ ایک دوسرے کو زچ کرنے کی صلاحیت سے ''مالا مال‘‘ ہیں۔ بھارت پاکستان کے اندر اور پاکستان بھارت کے اندر ہاتھ دکھا سکتا ہے اور دونوں کے دکھائے ہوئے ہاتھ دونوں کو آج بھی بلبلاہٹ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے کئی داخلی مسائل ایسے ہیں کہ جن میں بھارتی کارستانیاں صاف دکھائی دیتی ہیں، اسی طرح بھارت کے اندر بھی پاکستان کی کرنیوں کا واویلا مچا رہتا ہے۔
برصغیر کے مسلمان اور ہندو اکثریتی علاقوں کو جب دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کی دشمنی میں ہر حد سے گزر جانا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کانگریس اور مسلم لیگ میں سے کسی کے نزدیک بھی آئیڈیل حل نہیں تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے تھے، مگر شرائط کے ساتھ۔ کیبنٹ مشن پلان کے تحت دونوں نے اس کا باقاعدہ اظہار بھی کر دیا تھا، لیکن کانگریس کے نیتائوں کی جلد بازی نے اس آپشن کو ختم کر دیا۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے اکثر مورخین اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر پنڈت جواہر لال نہرو گروپنگ سکیم کے تحت بننے والے دستور میں (بعدازاں) تبدیلی کی بات نہ کرتے تو آج تاریخ مختلف ہوتی۔ خیال یہی تھا کہ تقسیم کے بعد دونوں قومیں اپنے اپنے تحکم کے علاقوں میں اپنے اپنے نظریات کے مطابق اپنا اپنا سماج تخلیق کر سکیں گی اور ان کے درمیان بھائی چارہ قائم رہے گا۔ قائد اعظم کے یہ الفاظ کہ دونوں ملکوں کے درمیان ''امریکہ اور کینیڈا‘‘ کے سے تعلقات ہوں گے، اسی خواہش کے غماز تھے۔ اس ایک فقرے کی گہرائی میں جا کر دیکھیں تو معانی کا جہان آباد نظر آتا ہے۔ ہمیں یہ ادراک تھا کہ بھارت ایک بڑا ملک ہو گا۔ وہ امریکہ کی طرح طاقتور ہو سکتا ہے۔ اس کے وسائل پاکستان سے بہرحال زیادہ تھے۔ پاکستان کو اس کے برابر کی طاقت بننے کا زعم تھا، نہ شوق۔ وہ کینیڈا بننے پر مطمئن تھا، یعنی نسبتاً چھوٹا لیکن اپنے معاملات میں آزاد اور خود مختار۔ اپنی دنیا آپ تعمیر کرنے میں مگن۔ آج بھی کینیڈا امریکہ کے مقابلے کی عالمی طاقت نہیں ہے، لیکن وہ اپنے آپ میں مشغول ہے۔ نہ امریکہ کے مقابلے میں وہ کسی احساسِ کمتری میں مبتلا ہے اور نہ امریکہ کو اس پر رعب جھاڑنے کا خبط ہے۔ اسی طرح بھارت اور پاکستان اپنے اپنے جغرافیے میں اپنے اپنے آدرشوں کے مطابق اپنے اپنے عوام کی زبوں حالی سے نمٹنے کی کوشش میں مصروف ہو سکتے تھے اور دنیا کے سامنے اپنی کارگزاری کا نمونہ پیش کرنے کی دوڑ میں شریک رہ سکتے تھے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ دونوں ملکوں کے درمیان خون کی لکیر کھینچی اور پاکستان کو نیچا دکھانے کی تدبیریں کی جانے لگیں۔
تقسیم کے موقع پر فسادات کے بعد جس طرح آبادی کا تبادلہ عمل میں آیا، کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے اس کا منصوبہ بنانا تو کجا (شاید) خواب تک نہیں دیکھا تھا۔ انسانی تاریخ کے انتہائی گھنائونے واقعات نے سب کے چہرے داغدار کر دیئے۔ کم یا زیادہ، عمل یا ردعمل کی بحث سے اٹھ کر دیکھا جائے تو کوئی قوم بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس کا رویہ مثالی رہا، یا اس نے اپنی اقدار کے مطابق دوسروں سے سلوک کیا۔ خون کے چھینٹے سب کے کپڑوں پر تھے اور گناہ کے بھبھکے ہر علاقے سے اٹھ رہے تھے۔
بھارت ایک بڑا ملک تھا، نئی دہلی میں ایک باقاعدہ حکومت موجود تھی۔ اس کے لئے کاروبار مملکت جوں کا توں چلانا ممکن تھا، لیکن پاکستان میں تو کوئی حکومتی ڈھانچہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ پہلی اینٹیں رکھنے کے لئے بھی تگ و دو کرنا پڑ رہی تھی۔ اگر بھارت کے نیتا نئے ملک کا ہاتھ بٹاتے، فراخدلی سے اسے وسائل اور تعاون فراہم کرتے، اس کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھتے اور ان کے حل میں مدد دیتے تو زخم بہت جلد بھر جاتے اور دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی مضبوط بنیاد رکھ دی جاتی۔ بھارتی حکومت نے نئے ملک کو زچ کرنے کی ٹھانی اور اس کے حصے کے وسائل فراہم کرنے سے بھی انکار کیا۔ دیسی ریاستوں کا دونوں ملکوں کے درمیان انتخاب کا حق بھی غصب کیا۔ شاید یہ سوچا گیا کہ ناطقہ بند کرکے نئے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اور بھارت ماتا کے ٹکڑے جوڑے جا سکتے ہیں۔ نئی مملکت نے اس صورت حال کو چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا اور اس کے چلانے والوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ اس حقیقت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ گاندھی جی کو بھارتی حکومت کے رویے کے خلاف مرن برت کی دھمکی دینا پڑی۔ وہ پاکستان کو (برطانوی ترکے میں سے) اس کا حصہ جلد ادا کرنے پر زور دے رہے تھے اور ان کے اسی رویے سے مشتعل ہو کر وہاں انتہا پسند ہندو تنظیم نے انہیں قتل کرا ڈالا۔ گاندھی جی کی سمادھی سے بڑی شہادت بھارتی حکمرانوں کے خلاف کون دے سکتا ہے؟
اگر بھارت پاکستان کا حقہ پانی بند کرنے کے خبط میں مبتلا نہ ہوتا تو پاکستان اپنے تحفظ کے لئے سمندر پار دیکھنے پر مجبور نہ ہوتا۔ سرد جنگ کے دوران جانبدارانہ رویہ اختیار کرکے اپنے دفاع اور معیشت کو محفوظ اور مضبوط کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔آج بھی بھارت کی طرف سے پیدا کئے جانے والے خطروں کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو دور تک دیکھنا پڑتا ہے۔ الائنس بنانے کی صلاحیت اس کے کام آ رہی ہے۔ اپنی تخلیق کے بعد سے لے کر آج تک اس نے ایسی شراکت داریاں کی ہیں جنہوں نے اسے پورے قد سے کھڑا رہنے میں مدد دی ہے۔ امریکہ سے لے کر چین تک اور ایران سے لے کر سعودی عرب تک اس کے دوست مختلف ادوار میں اس کی طاقت بنے ہیں... بھارت نے جب اپنے آپ کو ایٹمی طاقت بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو پاکستان نے بھی اس راستے پر دوڑ لگا دی اور آج وہ بھی اس کے مقابلے کی ایٹمی طاقت ہے۔ خطے میں دہشت کا توازن قائم کرنے میں اسے محیرالعقول کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک کئی موڈ دکھا چکے ہیں۔ کبھی وہ مسکراتے ہیں تو کبھی انگارے برساتے ہیں۔ کبھی دروازہ کھولتے ہیں تو کبھی چٹخنی لگا دیتے ہیں۔ کبھی پیغامات کے پھول بھیجتے ہیں تو کبھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے دل بہلاتے ہیں، کئی رنگ دکھانے کے بعد اب مذاکرات کا راستہ کھولا جا رہا ہے۔ فرانس میں نواز شریف، مودی ملاقات اگرچہ دو منٹ کی تھی، تاہم اس نے منظر بدل ڈالا ہے۔ لگتا ہے کہ اس سے پہلے اور بعد میں بہت کچھ ایسا ہوا ہے، جو ابھی تک پردہء اخفاء میں ہے۔ عالمی کھلاڑیوں نے ایسے دائو پیچ لڑائے ہیں کہ ''جامع مذاکرات‘‘ کی تیاریاں شروع ہیں۔ سشما سوراج ''ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں آئی تو افغانستان کے بہانے سے تھیں لیکن وزیر اعظم نواز شریف کے دل کے تار بھی چھیڑ گئی ہیں... یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا ہے، لیکن بہت زیادہ امیدیں لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر دونوں ملک بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کر لیں، ایک دوسرے کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کریں، تجارت اور آمدورفت میں آسانیاں پیدا کر دیں اور عہد کر لیں کہ دہشت گردوں کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ دندناتے پھریں اور جب چاہیں کسی واردات کے ذریعے ہوا کا رخ بدل دیں تو پھر نئے چراغ جلائے جا سکتے اور کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے۔ یاد رکھیے حل ''دریافت‘‘ کرنا پڑے گا۔ ایک دوسرے پر ایک دوسرے کا حل مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ ایٹمی طاقتوں کو ڈکٹیشن نہیں دی جا سکتی، انہیں قائل کیا جا سکتا ہے اور قائل کرنا پڑے گا۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں