''پلڈاٹ‘‘ کے سربراہ برادرم احمد بلال محبوب کا اصرار تھا کہ اسلام آباد میں ان کی طلب کردہ کانفرنس میں شرکت کی جائے جس کا موضوع ''آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات کا انعقاد‘‘ تھا۔ انہوں نے مختلف سیاسی رہنمائوں‘ قانون دانوں‘ پروفیسروں‘ دانشوروں اور اخبار نویسوں کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ تشریف لائیں‘ سرجوڑ کر بیٹھیں‘ اس ایک نکتے پر غور کریں اور (ممکن ہو تو) اتفاق رائے سے وہ تجاویز پیش کریں جن پر عمل کرکے آئندہ عام انتخابات کو با اعتبار بنایا جا سکے۔ ایک بڑے ہوٹل کے ایک بڑے سے کمرے میں وقتِ مقررہ پر سب لوگ اکٹھے ہو گئے۔ شرکا کی تعداد سینکڑوں میں تو نہیں تھی لیکن جتنے بھی تھے‘ قابلِ ذکر تھے۔ پنجاب کے سابق گورنر شاہد حامد جو کہ انتہائی ممتاز قانون دانوں میں شمار ہوتے ہیں اور ایک عدد نگران وفاقی حکومت کے وزیر دفاع بھی رہ چکے ہیں‘ نے کلیدی گفتگو کی۔ اس کے بعد شرکا نے اپنے اپنے دل کو زبان دی۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی نمائندگی کیلئے شعیب شاہین‘ ڈاکٹر فضل طارق چودھری اور سینیٹر فرحت اللہ بابر تشریف فرما تھے۔ گیلپ اور فافن کی نمائندگی بھی بھرپور تھی اور نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کا خلا پُر کرنے کی کوشش میں مصروف (سابق وزیر اطلاعات) محمد علی درانی بھی تشریف فرما تھے۔ درانی صاحب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور تحریک انصاف کے چند رہنمائوں سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں‘ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی علیک سلیک جاری ہے۔ خواہش یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے کم ہوں ‘رابطے بڑھیں ۔
جناب شاہد حامد نے انتخابات کی آئینی ضرورت اور اہمیت کو واضح کیا‘ ان کا کہنا تھا کہ قراردادِ مقاصد میں واضح لکھا ہے کہ مملکت کانظام عوام کے منتخب نمائندے چلائیں گے‘ یہ ہردستور کا ابتدائیہ رہا ہے اور 1973ء کے دستور کی تو یہ تمہید ہی نہیں تاکید بھی ہے۔ اس لئے عام انتخابات کے انعقاد کو پس ِپشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ جو تاخیری حربے اختیار کئے گئے یا آزمائے گئے ‘ ان سے قطع نظر انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ صدرِ پاکستان تاریخ دے سکتے تھے لیکن انہوں نے معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا‘ محض تجویز دینے پر اکتفا کیا‘ اب الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ احمد بلال محبوب نے پاکستان کی انتخابی تاریخ کا خلاصہ پیش کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کو ہمیشہ متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیاستدانوں نے کبھی ٹھنڈے پیٹوں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا‘ پہلے قومی انتخابات 1970ء میں ہوئے‘ نتائج تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ملک دولخت ہوا‘ پھر 1977ء کے انتخابات کا انعقاد ہوا‘ ان کے نتیجے میں منظم دھاندلی کے الزامات لگے‘ تحریک چلی‘ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ تسلیم کر لیا‘ لیکن ان کی نوبت آنے سے پہلے مارشل لاء نافذ ہو گیا‘ جس نے آٹھ سال کسی عوامی مینڈیٹ کے بغیر گزارے۔محمد علی درانی صاحب کی تجویز تھی کہ قومی صوبائی اور بلدیاتی انتخابات بیک وقت ہونے چاہئیں کہ بلدیاتی اداروں کا تسلسل برقرار نہ رہنے سے جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہو سکیں۔ ان کی تجویز قابلِ غور تو تھی لیکن آئندہ انتخابات کے حوالے سے اس مقصد کیلئے قانونی اور عملی اقدامات نگران حکومت (یا حکومتوں) کے بس میں نظر نہیں آتے تھے۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی ضرورت اور افادیت کو تسلیم کیا‘ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تو تحریک انصاف کے ساتھ انصاف کے حوالے سے ایسی گفتگو کی کہ شعیب شاہین ان پر قربان ہو ہو گئے۔ جب بابر صاحب سے پوچھا گیا کہ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں یا وہ جماعتی پالیسی بیان کررہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ اگر میری جماعت نے اس پر میرے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کی تو پھر اسے جماعتی پالیسی ہی سمجھا جائے گا۔ تینوں سیاسی جماعتوں کے نمائندے ایک دوسرے کو میٹھی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے‘ انہوں نے اپنے اعلیٰ ترین قائدین سے اس کیلئے باقاعدہ اجازت حاصل کی تھی یا نظریۂ ضرورت کے تحت وقتی ابال آیا تھا‘ اس سے قطع نظر حاضرین محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے... دن بھر کی بحث و تمحیص کا نتیجہ یہی نکلاکہ سیاسی جماعتوں کو کسی ضابطۂ کار پر اتفاق کرنا چاہیے اور انتخابی عمل کو بااعتبار بنانے کی غرض سے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے تیار ہو جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں نے ایک دوسرے کا گھیرا جس طرح تنگ کئے رکھا ہے اس نے پاکستانی جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارا یا یہ کہیے کہ پٹڑی سے اتارنے والوں کو جواز فراہم کیا۔ تحریک انصاف اور اس کی مخالف سیاسی جماعتوں نے گزشتہ پانچ سال کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ کیا(اور کرایا) ہے‘ اسے بھیانک المیے کا نام دیا جا سکتا ہے۔ عمران خان اپنے حریفانِ سیاست سے ہاتھ ملانے کو تیار نہ تھے‘ ان کا ناطقہ بند کئے ہوئے تھے اور جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو ان پر زمین تنگ ہو گئی۔ سو باتوں کی ایک بات یہی تھی اور ہے کہ ایک دوسرے کو تہ تیغ کرنے کی آرزوئیں پالنے والے جمہوریت کو مستحکم نہیں رکھ سکتے۔
پلڈاٹ کانفرنس سے فراغت کے بعد کئی دوستوں سے ملاقات رہی۔ رحمۃ للعالمین اتھارٹی کے نئے سربراہ روشن دماغ خورشید ندیم سے آغاز ہوا۔ برادر عزیز سلیم صافی کی علالت کی خبر نے تشویش میں مبتلا کر دیا‘ ان سے ملاقات پر پابندی تھی لیکن تازہ خبر آئی ہے کہ وہ عمرہ ادا کرنے جا رہے ہیں‘ ڈاکٹروں نے انہیں اس کی اجازت دے دی ہے۔ اس پر سانس کا اطمینان بحال ہو رہا ہے... برادرِ عزیز کامران شاہد اپنے چیف آف سٹاف انجم فاروق‘ قانونی پہلوان منیب شیخ ایڈووکیٹ‘ روحانی مسافر رضوان مہدی ‘خادمِ خاص نعمان سمیت لائو لشکر کے ساتھ اسلام آباد میں مورچہ زن تھے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے انٹرویو کیا‘ اس کے بعد خواجہ ا ٓصف سے ٹکرائے پس پردہ سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔ چلبلے ارشاد بھٹی نے عشایے کی دعوت دی‘ اور انواع و اقسام کے پکوان لے کر ہوٹل میں آ دھمکے۔ کامران شاہد کے لشکریوں نے انہیں دیکھتے ہی دیکھتے چٹ کر دکھایا۔برادرم میجر عامر نے کہ جن کے بغیر اسلام آباد نا مکمل ہے‘ عشایئے پر مدعو کیا۔ ایسا دستر خوان سجایا کہ مغل بادشاہ یاد آ گئے۔ برادرم انیق احمد وزارت سنبھالنے کے بعد ہماری بھابھی کے ہمراہ پہلا شاہی عمرہ کرکے لوٹے تھے اور اس کی لذت میں شرابور تھے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز‘ مقتدرہ قومی زبان کے کرتا دھرتا فارسی اور اُردو کے عالمی استاد ڈاکٹر سلیم مظہر‘ باخبر اور بے باک حامد میر‘بانکے سجیلے کاشف عباسی صف شکن رئوف کلاسرا‘ تابڑ توڑ ارشاد بھٹی کی موجودگی میں کامران شاہد شیخ الحدیث بن کر سوال کی اہمیت واضح کررہے تھے۔ جو کچھ نظر آ رہا ہے اور جو نظر نہیں آ رہا اس کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔اقبال سے بات شروع ہو کر جون ایلیا تک پہنچ چکی تھی۔میجر عامر کہ تاریخ اور سیاست کی ان گنت کروٹوں کے عینی شاہد (بلکہ کردار) ہیں‘ زبان کھولتے ہیں تو سننے والوں کو چپ سی لگ جاتی ہے۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ ہماری سیاست کو اہلِ سیاست کی نظر بد سے بچائے۔ ہماری معیشت کو توانا کر دے اور ہمارے لشکریوں کی صفیں شکستہ نہ ہونے دے کہ انوار الحق کاکڑ کے بقول آئندہ انتخابات ویسے ہی ہوں گے جیسے پاکستان میں ہوتے چلے آ رہے ہیں۔جب ہم سب وہی ہیں‘ خواہشات وہی ہیں اور طریقہ ہائے واردات وہی ہیں تو پھر کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لیا جائے؟ کاکڑ صاحب کی یہ یقین دہانی البتہ تسلی دے رہی تھی کہ ادارہ جاتی مداخلت نہیں ہوگی ... گویا کچھ نہ بدلنے کے باوجود کچھ بدل جائے گا۔آپ اسے طفل تسلی بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔