عیسائیت اور اسلام میں سب انسان برابر ہیں۔ سب ایک ہی باپ کی اولاد ہیں ۔ ان کے نزدیک خدا رحیم اور بخشنے والا ہے۔ زندگی کا مقصد امن، ترقی ، انصاف اور مساوات ہے۔ یہودیت اور ہندو مت میں سب انسان برابر ہیں نہ ہی ایک ہی باپ کی اولاد۔ان کے مطابق بعض مخصوص نسلیں اور طبقے ماورائی طاقتوں کے منظور نظر، جنت کے حقدار اور عالمی حکمرانی کیلئے چنے گئے ہیں جبکہ انسانوں کی اکثریت ان کی ایسی ہی اطاعت اور تابعداری کرنے کی پابند ہے جیسے اس پرماورائی طاقتوں کی اطاعت فرض بنا دی گئی ہے۔ قدرت کے قانون میں تفریق اور امتیاز کا دعویٰ کرنے والوں کے ایک ہاتھ میں ان کی مخصوص مقدس کتاب اور دوسرے ہاتھ میں انسانوں کی گردن زنی کیلئے ہتھیار ہوتے ہیں ۔ قطع نظر اسکے کہ کسی کا تعلق یہودیت اور ہندو مت سے ہے یا نہیں‘ آج ہر سماج میں ایسے عناصر بکثرت ملتے ہیں جو خود کو اپنے ہی جیسے انسانوں اور اپنے ہی مذہب کے پیروکاروں سے زیادہ مقدس،اعلیٰ و ارفع اور نیک سمجھتے ہیں ۔ انسانی سماج میں امتیازی رتبوں اور مقدس حیثیتوں کے نظریے اور رویے مصری فرعونوں کے عہد سے چلے آ رہے ہیں جو آج صرف اہرام مصر میں ممیوں کی شکل میں موجود ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ میں انسانی شعور ، فہم اور ادراک نے نہایت دھیمے مگر لگاتار انداز میں مقدس رتبوں کے ظالمانہ نظام کے مقابلے میں برابری اور ہم آہنگی کے ایسے ہمہ گیر قوانین دریافت کر لئے جن کے نفاذ سے ہماری دنیاوی زندگی جنت نظیر کہلوانے کے قابل بننے لگی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں ہی یورپ میں بالعموم اور فرانس میں بالخصوص علمی اور سائنسی حلقوں میں مباحث جاری ہو گئے تھے کہ کیا ٹھوس سائنسی قوانین کا اطلاق انسانی سماج پر بھی ہوتا ہے یا انسان اپنی معاشرت کے لئے الگ تھلگ قوانین بنانے میں کلیتاً آزاد اور خود مختار ہے؟ اگر ہے تو کیا وہ قدرت کے مربوط نظام میں کارفرما قوانین سے متصادم سماجی قوانین بنا سکتا ہے اور اس ضمن میں وہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں؟ اجڑے، تباہ اور مردہ تہذیبی مراکز اس کا جواب نفی میں دیتے تھے۔ تاریخ بھی اس امر کی تصدیق نہیں کرتی کہ کرۂ ارض پر کوئی بھی فرد واحد اور سماج اپنے انفرادی قانون اور نظام کو کل انسانوں پر نافذ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ کل کائنات پر حکمرانی کے دعویدار پیدا ضرور ہوئے، انہوں نے مخصوص خطوں میں مخصوص وقت تک عالمگیر چرچ بھی قائم کرلیا۔ مگر ان کو دوام حاصل نہ ہو پایا ۔ قدرت کی پراسرار طاقت نے بالآخر انہیں عبرت کا نشان بنا کر تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ اس لئے ، زمانہ قدیم سے یہ ایک سماجی نظریہ سندھ، ہند، چین، سموریہ، مصر ، شام ، کنعان ، یونان اور رومن تہذیبوں میں چلاآرہا تھا کہ اقوام اور ریاستیں عالمی سماج پر اپنا انفرادی نظام مسلط کرنے میں پہلے کامیاب ہوئی ہیں نہ آئندہ ہوں گی۔ جب تک تمام انسانی سماج اور ریاستیں اجتماعی ترقی امن، انصاف اور ہم آہنگی کا ایسا قانون اور ضابطہ تسلیم نہیں کر لیتیں جیسا ہمیں کائنات کے وسیع نظام کو منضبط کرتا نظر آتا ہے‘ اس وقت تک تہذیبوں ، سماج اور ریاستوں میں استحکام پیدا نہیں ہوگا۔ اس لئے، اٹھارہویں صدی کے آخر تک سماجی مفکرین اور سائنسدان تقریباً تقریباً متفق ہونے لگے تھے کہ جواقوام اور ریاستیں قدرت کے ہمہ گیر قانون سے متصادم ہیں وہ آج بھی اپنی بنائی جہنم کی آگ میں جلنے لگی ہیں اور اس وقت تک جلتی رہیں گی جب تک وہ قدرت کے ہمہ گیر قانون کے آگے سرنگوں نہیں ہوتیں۔
پروفیسر ویلیم ایل لینگر ''انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ ہسٹری‘‘ میں لکھتے ہیں غالباً پانچویں صدی قبل مسیح کے دوران ایک چینی مفکر لائوزو گزرا ہے۔ لائوزو کب ، کہاں پیدا ہواکچھ زیادہ معلوم نہیں۔ لیکن اس کے افکار، فلسفہ اور عالمگیر قانون کا نظریہ چین کی قدیم دستاویزات میں ملتا ہے۔ لائوزو کے نزدیک انسان ایک ایسی ہم آہنگ، منضبط اور مربوط کائنات کا حصہ ہے جو اعلیٰ وارفع اخلاقی قانون اور ضابطہ Transcendant Law کے تحت چلایا جارہا ہے۔ اس لئے، انسان خود ہی قدرت کے نظام سے بہترین اخلاقی خوش کن اور لذتیاتی آدرش حاصل کر سکتا ہے ۔انسان یا ایک فرد '' یانگ چو‘‘ (Yang Chue ) اپنی ابدی خوشیاں، امن اور لذت آفاقی خیر (Hedoism )حاصل کر سکتا ہے۔ آئن سٹائن کے جانشین سائنسدان اور معروف کتب ''وقت کی مختصر تاریخ‘‘ A Brief History of Time اور ''عظیم ڈھانچہ ‘‘ The Grand Design کے مصنف سٹیفن ہاکنگ (Hawking Stephen) نے سہل سائنسی انداز اور علم الطبیعات کے اٹل اصولوں کے تحت ثابت کیا ہے کہ قدرت کے وسیع، ترقی پذیر اور پرامن قانون نے اس کائنات کو لذیذ کھانوں جیسی
نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا فلسفہ حیات و کائنات تباہی و بربادی کی بجائے تعمیر و ترقی اور ہم آہنگی پر استوار کریں ۔ دراصل، کائنات میں ہر چیز قدرت کے مشترکہ قانون کے تحت ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ کہتے ہیں کہ کاش انسان کسی ایک جامع مربوط اور متفقہ نظریہ (The Grand Unified Theory ) کے تحت کائنات و حیات قدرت کے نظام کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں۔ آئن سٹائن اکثر کہا کرتے تھے کہ قدرت کے جامع قابل فہم قانون اور نظام بہت آسان اور سادہ ہے ۔مگر میرے لئے یہی چیز ناقابل فہم ہے کہ انسان اس کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ نے بیسویں اور اکیسویں صدیوں میں وہی کچھ سائنسی اصولوں ، ایجادات اور تجربہ گاہوں میں ماخوذ نتائج کو سامنے رکھ کر کہا جو آج سے 25 سوسال قبل چینی مفکر لائوزو نے اپنے فہم ، مشاہدہ اور تجربات کی بنیاد پر کہا تھا۔
اگر ہم لائوزو، کاپرنیکس، گلیلیو، نیوٹن، آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ کے سماجی اور سائنسی افکار کو یکجا کر کے قدرت اور کائنات کو سمجھنے کی کوششیں کریں تو یہ ہم پر روز روشن کی مانند واضح ہو جاتا ہے کہ قدرت نے کیمیائی و حیاتیاتی عناصر کی ماہیت میں قدرت کے عالمگیر قانون کی پہچان مخفی رکھی ہے۔ انسان کا شعور کیمیائی اور حیاتیاتی مادہ سے مستعار ہے۔ اس کا رن ،انسان اپنے ادراک ، فہم، شعور، دھیان، گیان کے معاملہ میں ایک کامل اکائی اور خودمختار مخلوق ہے کیونکہ وہ اپنی ترجیحات کے تعین میں قدرت کے خوش کن نظام اور قانون سے رہنما ئی حاصل کر سکتاہے۔ قدرت انسان کی بہترین رہنما ہے جو اس کی روح اور ضمیر کے ذریعہ اس سے مخاطب ہوتی ہے۔ اس کو نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، خیروشر، امن و جنگ، تعمیر و تباہی کے درمیان فرق سے آگاہ کرتی ہے۔ آج سائنسی تجربہ گاہیں، آلات اور کیمیکلز اس قدر دریافت ہو چکے ہیں جو ہمیں بار بار قدرت کے مشترکہ قانون کی موجودگی کا یقین دلاتے ہیں۔ نظام شمسی میں سورج ، سیارے اور باریک ترین ذرات( Quarks) سے لیکر وسیع ترین کہکشائوں تک ، ہمارے وجود، بدن میں خون کے ارتعاش ، دل کی دھڑکنوں، اعصابی نظام، جینزGenes اور ہمارے مغز میں حساس ترین سیلز (Sensory Cells)تک میں ہمیں ایک ہی طرح کا قانون کارفرمانظر آتا ہے جس کا نفاذ یکساں ہے۔ جس میں کوئی بھی استثنیٰ نہیں۔ قدرت کے عالمگیر قانون میں اٹل حقیقت یہ ہے کہ یہ ناقابل تنسیخ اور ترمیم ہے۔ تاہم، مقدس نظریوں کی سیاست اور جنگ و جدال کے تباہ کن نظریوں نے طاقتور انسانوں کو قدرت کے خوبصورت نظام کوسمجھنے اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے سے محروم کر دیا۔ ہم نے ایسے فلسفے ایجاد کئے جو قدرت کے نظام اور قانون سے متصادم تھے۔ قدرت نے اس انسان کو کڑی سزا دی۔مگر ہمارا نظریہ کائنات و حیات نہایت سست روی ، باوجوہ وسیع تباہ کاری، کا شکار رہا۔غاروں میں قید سماج ، تہذیب اور ریاست نے تعمیر اور امن کے مقابلے میں تباہی اور جنگ کے وسیع نظام کو ترقی دی۔ انسانوں کو بھوک، افلاس ،بیماریوں اور کبھی ختم نہ ہونے والے دشمنوں کے خوف میں زندہ رہنے کا درس دیا یہ قدرت کے منصفانہ ،پرامن اور ترقی پذیر قانون سے بیگانگی اور اس کی خلاف ورزی ہے جس کی کڑی سزا اجتماعی طور پر نافرمان مرد، سماج اور ریاستیں کاٹ رہی ہیں۔