مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان نے اپریل 2020ء میں تعمیراتی شعبے کے لیے ایمنسٹی دینے کا اعلان کیا تو انہیں بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سوشل میڈیا ہو یا عوامی آراء کے دیگر فورمز‘ سب وزیر اعظم کے تعمیراتی پیکیج کے حوالے سے ناک بھوں چڑھا رہے تھے اور اس اعلان پر ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے تھے۔ خاص طور پر تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ان کا ذریعہ آمدن نہ پوچھنے کے اعلان کے حوالے سے عوام میں چہ مگوئیاں جاری رہیں اور یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ اس سے ملکی معیشت کو کیا فائدہ ہو گا؟ اس پیکیج کو کبھی اپنوں کو نوازنے کی کوشش قرار دیا جاتا تو کبھی مال بنانے کا ذریعہ‘ کبھی چند مخصوص افراد کے دبائو پر کیا جانے والا اعلان کہا جاتا تو کبھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش قرار دے دیا جاتا۔ اس طرح کی باتیں کرنے والوں میں صرف عام لوگ ہی شامل نہیں تھے‘ مختلف شعبوں کے ماہرین بھی کچھ اسی قسم کے راگ الاپ رہے تھے۔ مختصر یہ کہ وزیر اعظم کا یہ تعمیراتی پیکیج اعلان کے فوری بعد سے ہی تعمیراتی صنعت سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ ہر جانب سے تنقید کی زد پہ تھا۔
ویسے تو تحریک انصاف کو جب سے حکومت ملی ہے شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب اسے تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ حکومت کو کبھی دعوے پورے نہ کرنے کے طعنے ملتے رہے اور کبھی اپنی صفوں میں شامل بعض لوگوں کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی کے باعث اسے دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا‘ جس کی ایک بڑی وجہ نا تجربہ کاری بھی تھی۔ حکومت ان حالات سے نکلنے نہ پائی تھی کہ دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والے کورونا نے پاکستان کا راستہ دیکھ لیا۔ پھر کیا تھا‘کورونا نے جس طرح عالمی سطح پر انسانی سطح کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کی معیشت کو بھی نگلا بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی زبوں حال معیشت پر حملہ آور ہوا۔ لاک ڈائون اور سمارٹ لاک ڈائون جیسے مراحل نے اگرچہ کورونا کی تباہ کاریوں کو تو روکا؛ البتہ عام آدمی کی معاشی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ایسا وقت بھی آیا کہ جب محسوس ہوا معیشت کا پہیہ نہ صرف رک گیا ہے بلکہ جام ہو گیا ہے۔ بے یقینی کی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ ہر شخص اپنی گھریلو معاشی معاملات کے حوالے سے مایوس ہوتا جا رہا تھا۔ کاروبار بند تھے‘ تجارتی سرگرمیاں جمود کا شکار تھیں جبکہ صنعتیں بھی کورونا اور حکومتی ناتجربہ کاری کا بوجھ برداشت نہ کر پا رہی تھیں۔ زرعی شعبے کا حال بھی بہت زیادہ خوش آئند نہ تھا۔ ایسی صورت حال میں وزیر اعظم کی جانب سے تعمیراتی پیکیج کے تحت اس شعبے کو صنعت کا درجہ دینے‘ بلڈرز اور ڈویلپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس نظام لانے‘ تعمیراتی میٹریل پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے جیسے اقدامات کا اعلان کیا گیا تو ہر طرف سے حیرانی کا اظہار کیا جانے لگا۔ یہ تک کہا گیا کہ معیشت کو مستحکم کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ آیا اس سے اقتصادی معاملات کچھ تقویت پکڑ سکیں گے؟ پھر بلڈرز اور ڈویلپرز کے لیے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جتنا ٹیکس ادا کریں گے اس کا دس گنا آمدن یا منافع کا کریڈٹ وصول سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی سکیم کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کی تکمیل کے لیے بھی 30 ستمبر 2022ء تک کی مدت مقرر کر دی گئی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم کا اعلان بھی کیا جس کے تحت تعمیرات کرنے والوں کو 90 فیصد ٹیکس رعایت دینے کا اعلان کیا اور اس سکیم میں 30 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ اس سکیم کے تحت ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے پانچ سے سات فیصد کی کم شرح کے آسان قرضے دینے کے لیے بینکوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے پورٹ فولیو کا پانچ فیصد سستے گھروں کی تعمیر کے لیے مختص کریں اور یہ رقم تقریباً 330 ارب روپے بنتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کے عوام کو پہلی بار بینکوں سے گھر کی تعمیر کے لیے 20 سالہ مدت کے لیے قرض ملنا شروع ہوئے‘ جس سے عام آدمی کو اپنے گھر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا۔ ان اقدامات سے صرف ایک ماہ کے دوران ہی حالات میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی۔ تعمیراتی صنعت نے کس طرح حالات کو بدلا اور لوگوں کو امید دلائی اس کا مشاہدہ صنعت سے کسی بھی حوالے سے تعلق رکھنے والے ہر شخص نے کیا۔ بھٹوں کی آگ اگلتی چمنیاں میلوں دور سے یہ بتانے لگیں کہ ہزاروں گھرانوں کی دم توڑتی امیدیں دوبارہ زندہ ہو گئی ہیں۔ کارخانوں سے نکلنے والے سیمنٹ کی بوریوں سے لدے ٹرک گواہی دے رہے تھے کہ سینکڑوں عام گھرانوں کا معاشی پہیہ گھومنے لگا ہے۔ پھر صرف آٹھ ماہ میں ہی سب کو اندازہ ہو گیا یہ پیکیج گیم چینجر ثابت ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی چار ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران سیمنٹ کی فروخت 16 فیصد‘ آئرن سٹیل کی درآمدات میں 20 فیصد اور آئرن سٹیل سکریپ کی درآمد میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اب اس پیکیج سے استفادہ کرنے والوں کا اندازہ بھی اس سے کیا جا سکتا ہے کہ صرف ایک گھر کی تعمیر میں سینٹری‘ ایلومینیم‘ شیشہ‘ ٹائلز‘ ماربل‘ لکڑی‘ بجری‘ ریت‘ سیمنٹ‘ اینٹوں کے بھٹے‘ الیکٹرک کی اشیا اور پینٹ سمیت 200 سے زیادہ شعبے شامل ہوتے ہیں۔ کسی ایک گھر کی تعمیر کے دوران تقریباً ایک سال تک ان شعبوں میں کام کرنے والے دیہاڑی دار مزدوروں کا روزگار کسی نہ کسی حوالے سے قائم رہتا ہے۔ یہ صرف ایک گھر کی مثال تھی۔ اب اگر وزیر اعظم کی تعمیراتی ایمنسٹی پیکیج کے نتائج کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اب تک ہزاروں گھروں پر مشتمل 140 سے زائد بڑے منصوبے لانچ ہو چکے ہیں‘ جن کی مالیت 300 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ درجنوں ایسے بڑے منصوبے ابھی پائپ لائن میں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعمیراتی صنعت کو خاص طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔ ان ممالک کے جی ڈی پی کا تناسب کم از کم 8 فیصد ہوتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بھارت کے جی ڈی پی میں تعمیراتی صنعت کا حصہ 9 فیصد ہے۔ اب اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو ہمارے جی ڈی پی میں یہ تناسب صرف 2 فیصد ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے اس شاندار تعمیراتی ایمنسٹی پیکیج کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں‘ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ''وزیر اعظم کی اس شاندار پیشکش‘‘ کی مدت 31 دسمبر 2020ء کو ختم ہونے جا رہی ہے۔ جیسے جیسے آخری تاریخ قریب آ رہی ہے تعمیراتی صنعت سے وابستہ مختلف شعبوں کے ماہرین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس پیکیج میں کم از کم دو سال کی توسیع کرے۔ یہ مطالبہ بالکل ٹھیک ہے اور وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ سے زائد مکانات کی کمی ہے۔ سالانہ صرف ڈیڑھ لاکھ ہی نئے گھروں کی تعمیر ہو پا رہی ہے‘ جبکہ ضرورت ساڑھے تین لاکھ مکانات سالانہ تعمیر کرنے کی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سکیم کی مدت بڑھائی جائے تا کہ ملکی معیشت میں استحکام کے ساتھ ساتھ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہو سکیں اور ملک میں نئے گھروں کی زیادہ سے زیادہ ضرورت پوری کی جا سکے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس توسیع سے حکومت کا پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا ہدف پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔