ایک سپر پاور اپنے مقام کو قائم رکھنے اور طول دینے کی جہد مسلسل میں مصروف ہے۔ کچھ دوسری طاقتیں اس یک طرفہ صورتحال کو تبدیل کرنے کی سرتوڑ کوشش میں لگی ہیں اور بہت سے درمیانے اور چھوٹے ممالک‘ اپنی قسمت اور حالات سے شاکی‘ فقط مہروں کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے اپنے قومی مفادات کے تعاقب میں دنیا کا ہر دم بدلتا ہوا منظر نامہ‘ جیو سٹریٹجک‘ جیو پولیٹیکل اور جیو اکانومی کے نام پر لاکھوں انسانوں کی موت کا موجب‘ اور کروڑوں خوابوں کو چکنا چور کرتے ہوئے‘ وقت کا بے رحم پہیہ رواں دواں ہے۔
سپر پاور نے نہ صرف یہ کہ دنیا کے بیشتر وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے بلکہ جمہوریت‘ سرمایہ دارانہ نظام اور زندگی گزارنے کے آزادانہ انداز کے بہانے کشت و خون کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ طاقت دنیا کے سیاسی‘ معاشی اور میڈیا کے نظام پر اس قدر حاوی ہے کہ جہاں چاہے ہائبرڈ جنگ اور میڈیا وار کے ذریعے مخلوق خدا‘ وہ جس خطے میں بھی آباد ہوں‘ کی سوچ اور ذہنوں پر حاوی ہے ۔ اسی طاقت کے زور پر وہ اپنی مرضی سے حکومتیں بدلتے ہیں اور تختے الٹتے ہیں۔ روس اور چین اور بعض دیگر ممالک (جن کی تعداد نہایت محدود ہے) امریکہ کی اس ہمہ گیر طاقت کو بھانپ گئے ہیں اور بہت مؤثر انداز میں نہ صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں بلکہ جوابی کارروائیاں بھی کر رہے ہیں۔ روس کا یوکرائن‘ شام‘ شمالی کوریا وغیرہ میں کامیاب فوجی اور سیاسی کارروائیاں کرنا ان کی اس اہلیت کا غماز ہے۔ البتہ چین فی الحال براہ راست ٹکرائو سے گریزاں نظر آتا ہے۔ جنوبی چینی سمندر میں چند متنازعہ جزائر کے علاوہ اور کہیں بھی امریکہ کے مقابلے میں عسکری صف بندی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن چین جلد ہی یہ محسوس کرے گا کہ عسکری قوت کے سائے میں ہی سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ بڑھایا جا سکتا ہے۔ یورپین ممالک بریگزٹ اور شورش زدہ علاقوں سے پناہ گزینوں کے معاملات میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جاپان اور آسٹریلیا درمیانی طاقتیں ہونے کے باوجود بین الاقوامی معاملات میں کوئی خاطر خواہ اہمیت کے حامل نہیں۔
اب آئیے اپنے خطے کی جانب۔ یہاں کی صورتحال پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں امریکہ‘ انڈیا گٹھ جوڑ‘ افغانستان میں امریکی شکست‘ کشمیر کی جدوجہد آزادی اور سی پیک شامل ہیں۔ امریکہ اور ایران کی مخاصمت بھی خطے میں عدم استحکام کا موجب ہے۔ امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات ایک خاص سطح تک کامیابی کے بعد جمود کا شکار ہیں۔ ان مذاکرات میں میری نظر میں امریکہ کے دو اہداف ہیں۔ ایک امریکی فوج کو عافیت کے ساتھ افغانستان سے نکالنا اور دوسرے افغانستان کو ایک لمبی بدامنی کے حوالے کر دینا۔ اس وقت ہندوستان اور امریکہ‘ پاکستان سے اپنی اپنی وجوہات (کشمیر‘ افغانستان‘ سی پیک) کی بنا پر سخت ناراض ہیں اور دونوں ہمیں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے ایک خاص قسم کی ہائبرڈ جنگ ہم پر مسلط کر رکھی ہے۔ پلوامہ واقعہ کے بعد پاکستان پر ہندوستانی حملہ اسی پالیسی کی ایک کڑی تھی۔ کوئٹہ اور اورماڑہ میں قتل عام بھی اسی جنگ کا تسلسل ہے۔ ہماری صحافتی کمزوری اورانصاف کی عدم فراہمی نے دشمنوں کا کام بہت آسان بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی تناؤاور تمام اہم اداروں کی کردار کشی نے معاشرے میں انتشار اور تلخیاںپیدا کر دی ہیں۔ لہٰذا اگر مودی انتخابات جیت جاتا ہے (جس کے واضح امکانات موجود ہیں) تو وزیراعظم عمران خان کی امیدوں کے برعکس، میرے اندازے میں بھارت اپنے جنگی جنون کو اور آگے بڑھائے گا، اور امریکہ کی آشیر باد کے ساتھ مختلف زاویوں سے ہائبرڈ جنگ کو مزید وسعت دے گا۔ سرجیکل سٹرائیکس بھی بڑھ سکتی ہیں۔
ان مشکل حالات میں پاکستانیوں کو آپس کی نفرتوں کو پس پشت ڈال کر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنی افواج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر اداروں کی پشت پر کھڑے رہنا ہوگا۔ اسی طرح اگر حکومت مہنگائی کے عفریت پر قابو نہ پا سکی، لوگوں کی انصاف، تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات پوری نہ کر سکی تو معاشرے میں مزید انتشار پیدا ہوگا اور دشمنوں کا کام نہایت آسان ہو جائے گا۔ سوشل میڈیا سچ اور جھوٹ کی آمیزش سے ایسا طوفان کھڑا کرے گا کہ مقابلہ مشکل ہو جائے گا۔ تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟سب سے پہلے تو اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ آیا ہم پر کوئی بیرونی ممالک حملہ آور ہیںیا تمام خرابیاں ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں؟ اور یہ بحث قومی سلامتی کمیٹی میں کی جائے کیونکہ یہ سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ میری ناقص رائے میں ہمارے حالات کی وجوہات میں دونوں بیرونی اور اندرونی عوامل شامل ہیں۔ اندرونی طور پر جن لوگوں نے ہم پر حکومت کی وہ معاشی اور معاشرتی انصاف دینے میں ناکام رہے۔ اچھی متوازن خارجہ پالیسی ترتیب نہ دے پائے۔ بیرونی آقائوں کی جی حضوری میں ملکی مفادات بیچتے رہے اور تمام فوائد اپنی تجوریوں میں بھرتے رہے۔ ان نابلد اور لالچی حکمرانوں کی وجہ سے معاشرے میں جو تلخیاں پیدا ہوئیں‘ بیرونی دشمنوں نے ان میں مزید گہرائی پیدا کی اور ملک میں موجود متنفر گروہوں کو اپنا آلہ کار بنا کر مملکت خداداد پر ہر طرح کی چڑھائی کردی۔ میڈیا کے کچھ عناصر کو استعمال کیا جنہوں نے جلتی پر تیل چھڑکا۔ اب اس Hybrid War کا مربوط اور منظم طریقے سے مقابلہ کرنا ناگزیر ہوچکا ہے اور یہ فوجی جنگ نہیں۔ آئی ایس پی آراکیلا یہ کام نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم کو یہ ذمہ داری خود اٹھانی ہوگی یا کسی مناسب ادارے کو سونپنی ہوگی۔ بین الاقوامی سیاست کی سطح پر دوست اور دشمن کی تمیز کی جائے اور نقصان دہ مصلحتوں کی ڈپلومیسی کو خیرباد کہا جائے۔ ہندوستان کی خوشنودی حاصل کرنے کی ناکام کوششیں ترک کی جائیں، اور 'جیسے کو تیسا، کی بنیاد پر ہر شعبہ میں جواب دیا جائے۔ کشمیریوں کی دل کھول کر مکمل اور ہمہ گیر حمایت کی جائے۔ جنگ آزادی اور دہشت گردی کو خلط ملط (mix up)کرنے کی کوشش کو ماننے سے انکار کیا جائے اور بین الاقوامی سطح پر برملا اظہار کیا جائے۔ افغانستان کے سلسلے میں امریکہ کی دھونس کو رد کیا جائے۔ چین، روس، ایران اور وسط ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ مل کر افغانوں کو اپنے مسائل حل کرنے میں مدد دی جائے۔
اندرونی اقدامات میں معیشت کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ گھناؤنے جرائم کے سدباب کیلئے سخت اقدامات کئے جائیں۔ بچوں کو منشیات بیچنے والے، ان کے ساتھ زیادتی کے مجرموں، کھانے کی اشیا اور دواؤں میں ملاوٹ کرنے والوں کیلئے سزائے موت کے قوانین بنائے جائیں اور ماڈل عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔ میڈیا میں جھوٹ، بہتان تراشی اور فوٹو شاپ کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور آزادیء اظہار کے بہانے اپنے اداروں پر حملوں کو سختی سے روکا جائے۔
جن سیاسی یا معاشرتی تحریکوں کے پیچھے غیر ممالک یا NGOs کے اثرو رسوخ پائے جائیں تو عدالتوں میں ان کا کڑا احتساب کیا جائے اور یوں قوانین‘ عدالتی نظام اور احتساب کے بے اثر یعنی Banana State ہونے کا تاثر ختم کیا جائے۔
ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت یہ باتیں اچھی طرح سمجھتی ہے اور حکومت تمام اداروں (خصوصاً پارلیمان‘ عدلیہ اور افواج) کی مدد سے ملک کو اس بھنور سے نکال لے گی اور اگر آگے بڑھنے میں کچھ رکاوٹیں ہیں تو تمام سیاسی جماعتیں مل کر کوئی حل تلاش کریں اور کچھ خامیوں کے باعث سوشل کنٹریکٹ عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہے اور ملک دشمن عناصر سے نبردآزما ہونے سے قاصر ہے تو اعلیٰ سیاسی اور قانونی دماغ اس کا حل تلاش کریں۔ بے اثر نظام اور قوانین کو جوں کا توں چھوڑنا اور بہتری کی امید بھی لگائے رکھنا‘ قوم اور ملک کے ساتھ زیادتی ہوگی اور قدرت اس خلا کو مخلوق خدا کی بہتری کیلئے کہیں اپنے طریقوں سے پر نہ کر دے۔
قدرت کا نظام اور یہ دنیا عقابوں اور چیتوں کی عزت کرتے ہیں‘ فاختائوں اور بند آنکھوں والے کبوتروں کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔