"NLC" (space) message & send to 7575

دودھ میں سرکہ …2

پہلی قسط میں ملک میں مروجہ ناکام سیاسی نظام‘ عدالتوں کی سست روی ‘ عوام کی ان پر بے اعتباری‘امنِ عامہ کا فقدان‘ اور میونسپل ذمہ داریوں سے عہدہ براہونے میں ناکامیوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔تجاویز میں ملک کو گورننس کے نقطۂ نظر سے چھوٹے صوبوں ( کمشنریوں) میں تقسیم کرنا‘ موبائل عدالتوں (Courts Roving ) کاقیام اور فقط دو سطحی حکومت ( وفاق اور لوکل ) جیسے امور پر اجمالی بحث کی گئی تھی۔ اب‘ اس اہم اور آخری قسط میں کچھ اور امور جیسے تعلیمی نظام اور سکیورٹی کو زیر غور لائیں گے۔
پاکستان میں تعلیم کی حالت
اپنی تعلیمی نظامت کی دگرگوں حالت سے ہم خوب واقف ہیں۔ یہاں تعلیم کے بہت سے متوازی نظام چل رہے ہیں۔ انگلش اور اردو میڈیم کے اندر بھی بہت سے مزید متفرق نصاب موجود ہیں۔ امیر اور اُوپر والا متوسط طبقہ تو اپنے بچوں کو انٹرنیشنل سٹریمز (streams)‘ یعنی کیمبرج اور آکسفورڈ کے level O'اور'level A کے امتحان دلوا کر انجینئر نگ کالجز‘ میڈیکل کالجز اور فنانس وغیرہ کی بہت سی سیٹیں لے جاتا ہے ‘جبکہ غریب اور نچلے متوسط طبقے کے طلبہ کا ایک جم غفیر ہاتھ ملتا اور تلملاتا رہ جاتا ہے۔ اس طرح نہایت ذہین بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ملک بھی ایک بڑے ٹیلنٹ سے محروم ہونے کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ برابر کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے تقریبا ہر سطح پر mediocres کی بھرمار نظر آتی ہے اور ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے ہاں اداروں ‘ کھیل کے میدانوں ‘ کارخانوں ‘ زراعت کے شعبے اور ریسرچ وغیرہ میں یہ جمود کیوں ہے ؟ کتنے ہی ذہین طلبہ مختلف نوعیت کے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود معاشی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ امتحانات میں نقل کا رجحان ایک خطرناک نفسیاتی مرض کی صورت اختیار کر چکا اور مملکت یوں خاموش اور بے عمل ہے‘ جیسے یہ معاملہ ہماری بقاسے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کا بے دریغ استعمال بھی ابھی تک حکومتوں کی توجہ حاصل نہیں کر پایا؛ حالانکہ یہ نہایت ہی سنجیدہ معاملہ ہے اور ہمارے مستقبل کی طرف ایک خطرناک اشارہ ہے۔ اب ‘اس پورے ملک کے تعلیمی ڈھانچے کی تبدیلی کی ضرورت کی نشاندہی تو ہوگئی ‘لیکن اس کو کس طرح آج کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جائے ؟یہ کام تو تعلیمی ماہرین ہی انجام دے سکتے ہیں ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں اور بندہ اس کا ہرگز اہل نہیں کہ اس پر کوئی تبصرہ کرے؛ البتہ ایک بات واضع ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی لگائے بغیر اس گمبھیرمسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ نوجوان آبادی جس کا ہم بہت فخر سے ذکر کرتے ہیں ؛اگر ناخواندہ‘ غیر صحت مند اور معاشی سہارے کے بغیر ہو تو وہ معاشرے اور ملک پر بوجھ اور عذاب بھی بن سکتے ہیں اور اس سمت میں دیکھنے والوں کے لیے اشارے موجود ہیں۔جو بھی فیصلہ حکومت کرے ‘اس کو پورے معاشرے کی مدد کی ضرورت پڑے گی‘ افواج کی نفری ‘ ریٹائرڈ سرکاری اور غیر سرکاری افسران کی مدد حاصل کرنا پڑے گی۔ پورے ملک کو اس کارِ خیر میں ہنگامی بنیاد پر اپنے حصے کے فرائض ادا کرنا ہوں گے۔ نصاب ایسا ہو کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا انتظام بھی ہو جائے۔ کم از کم پرائمری سطح کی تعلیم کو لوکل گورنمنٹ کے حوالے کرنا ہوگا‘ لیکن نصاب کا قومی سطح پر مرتب ہونا بے حد ضروری ہے۔ جو سکول کھیل کے میدان اور متوازن غیر نصابی سرگرمیاں فراہم نہ کریں انہیں تو سکول کی تعریف ہی سے حذف کر دیناچاہیے۔
پاکستان کی سیکورٹی کا نظام
پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ جب قومی سلامتی( Security National) کا ذکر ہو تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ کوئی عسکری یا فقط امن عامہ سے متعلق کوئی اصطلاح ہے۔ قومی سلامتی تو معاشی مضبوطی‘ نظام کے فعال اور کارگر ہونے‘ انصاف کی فراہمی‘ غذائی خود کفالت‘ سرحدوں اورعوام کی حفاظت وغیرہ جیسے بہت سے امور پر منحصر ہے‘ لیکن یہاں ہم سرحدوں پر حملہ آور دشمنوں اور اندرونی خلفشار پھیلانے والے جتھوں سے ملک کی حفاظت پر مامور افواجِ پاکستان کا ذکر کریں گے۔ افواج خاص کر آرمی‘ یعنی بری فوج کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں‘ خوش فہمیاں اور درست فہمیاں (Perceptions and Fictions Facts,)گردش کرتی رہتی ہیں۔ اکثر ان پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ قومی مفاد میں ہوگا کہ ان پر بے لاگ بات کی جائے‘ لیکن احتیاط کا دامن چھوڑا نہ جائے؛ چونکہ یہ معاملہ حساس بھی ہے اور دشمنوں کو کوئی ایسا موقع نہیں ملنا چاہیے‘ جس سے وہ ہمارے بہترین اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کر سکیں۔
پاکستان ایک سکیورٹی مملکت کیسے بنا ؟
ہمارے پیارے ملک کو شروع ہی سے سخت سکیور ٹی چیلنجز کا سامنا رہا (ہندوستان‘ کشمیر‘ دریاؤں کا پانی وغیرہ) تفصیل قارئین اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ شاید کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ اپنی حفاظت کیلئے ہم ایسے ملٹری بلاک کے ہمنوا بنیں‘ جن کی وجہ سے اپنی افواج کو مضبوط کر سکیںاور ایسا ہی ہوا کہ ہم سیٹو‘ سینٹو(SEATO، CENTO)وغیرہ کے رکن بنے اور ہمارا جھکاؤ قریب کی مشرقی طاقتوں کے مقابلے مغرب کی جانب ہو گیا۔ افواجِ پاکستان ایک مضبوط ادارہ بن کر ابھریں‘ مگر کچھ بد عنوان سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں کو دیکھتے ہوئے اداروں نے نظریۂ ضرورت کے تحت سیاست میں مداخلت کو ضروری سمجھا اور یہ بھی ہوا کہ سیاستدانوں نے خود بھی باوردی لوگوں کو کابینہ میں شامل کر لیا اور ملٹری اور سول بیوروکریسی کا تسلسل جاری ہو گیا‘اسے بدقسمتی کہہ لیں‘ مگر حالات کو اس نہج پر پہنچانے میں ہمارے سیاستدانوں کو بھی ذمہ دار قرار دینا ہوگا۔ ہندوستان میں سیاسی حالات کچھ ایسے رہے کہ فوج اور بیوروکریسی کو کردار ادا کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی‘ مگر ہمارے ہاں کی روش کچھ ایسی رہی کہ کبھی بھی ایسے حالات نہ بن سکے اور فوج کا سیاست میں عمل دخل ختم نہ ہو سکا؛ البتہ کبھی زیادہ اور کبھی کم ضرور ہوتا رہا۔ پس ‘پاکستان کے مسائل کو ہر وقت سکیورٹی کی نظر سے دیکھا جاتا رہا اور تعلیم‘ صحت اور انصاف جیسے بنیادی امور نسبتاً کم توجہ حاصل کر پائے۔ ایک اور مشکل یہ تھی کہ حکومتی امور میںبار بار مداخلت کا نتیجہ فوج اور حقیقی سیاستدانوں میں تلخی کی صورت میںسامنے آیا۔ دوسری جانب کچھ سیاستدانوں نے موقع کافائدہ اٹھایا اور عوام کے سر پر چڑھ بیٹھے اور پھر کرپشن کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ اللہ کی پناہ۔ اس تمام عرصے میں کبھی کبھی ترقی کے سنہرے دور بھی آئے‘ لیکن ہم حقیقی جمہوریت سے دور ہوتے چلے گئے اور اب یہ عالم ہے کہ جمہوری اقدار نہ تو سیاسی پارٹیوں میں رہی ہیں اور نہ ہی سیاسی نظام میں نظر آتی ہیں۔ جھٹکوں سے چلتی ہوئی جمہوریت ‘ مفاد پرستوں ‘ آئے دن پارٹیاں بدلنے والے ٹولوںاور سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے نام نہاد سیاستدانوں نے غریب عوام کو جھوٹے وعدوں کے علاوہ کچھ نہ دیا۔ ان میں سے بہت سے سیاستدان ہیت مقتدرہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں اور یہی اس موجودہ دور کاایک بڑا المیہ بھی ہے‘ تاہم کچھ نوجوان سیاستدان اب ہوا کا خوشگوار جھونکا بن کر ابھر رہے ہیں اور دوسری طرف ہیت مقتدرہ میں بھی یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ حقیقی جمہوریت حاصل کرنے کیلئے انہیں سیاست سے دور رہنا ہوگا‘ لیکن اس منزل کو پانے کیلئے سیاستدانوں کو کچھ غیر معمولی اقدام بھی اٹھانا ہوں گے اور ایک ایسا سیاسی نظام وضع کرنا ہوگا‘جس میں جھوٹ اور کرپشن سے پاک نئے نوجوان اور اہل لوگوں کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملے۔ یہ کیسے ہوگا ؟ کیا یہ نا ممکن ہے ؟ ہر گز نہیں! انسانی سوچ اور عمل میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا‘ ہاں !اس کیلئے خاص کاوش درکار ہے۔؎
آئین ِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
(بقیہ صفحہ 11پر )
سچ اور اقرار کا کمیشن (Truth and Reconciliation Commission):
جب بھی مختلف لوگ ایسے کمیشن کی بات کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پارساگردان کر دوسروں سے کوئی وعدے اور عہد (Undertakings )لینا چاہتے ہیں۔ حقیقت میں یہاں دودھ کادھلا کوئی نہیں‘ سب ہی قصوروار ہیں اور اس امر کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ زیادہ یا کم قصور کس کا ہے‘ پس سب اپنا اپنا قصور مانیں اور مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جائیں :فوج آئین کی حدود میں رہتے ہوئے جو مشورہ اورجتنی مدد مانگی جائے وہی فراہم کرے۔اپنے اقدامات اوررویے سے آئین اور قانون شکنی کا تاثر دور کرے۔ پارلیمنٹ اور حکومتِ وقت کی آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے معاونت کرے۔ اپنے نظام کا جائزہ لے اور اس کو کم خرچ (Economical)عوامی اور اشتراکی (Participatory )بنانے پر توجہ دے‘ مستقبل کی جنگوں کے پیش نظر ایک سمارٹ حاضر فوج اور زیادہ بڑی ریزرو نفری کے بارے میں سوچے۔ اس پہ الگ پروفیشنل بحث ہو سکتی ہے۔عدلیہ سے بھی جو کوتاہیاں ہوئیں وہ ان کا اعادہ نہ کرنے کا عہد باندھے۔ انصاف کے مکمل نظام کو از سرِ نو مرتب کیا جائے اور عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا جائے اور یہ کیسے ہوگا اس کا بھی عندیہ دیا جائے۔ چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں جو سٹیئرنگ کمیٹی پہلے ہی یہ کام کر رہی ہے وہ اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرے۔ تمام سیاسی پارٹیاںخود پر مسلط چند خاندانوں کو خیرباد کہیں اور نوجوان لیڈرشپ کو آگے لائے جویہ عہد کریں کہ اب وہ کبھی کسی ڈکٹیٹر کی گود میں نہیں بیٹھیں گے اور پرانے کرپٹ لیڈروں کو اپنی صفوں سے دور رکھیں گے اور ہر حال میں قوم و ملک کے مفاد اور عوام کی خوشحالی کو مقدم رکھیں گے۔ عدلیہ اور افواجِ پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے انہیں عزت دیں گے اور کبھی بھی کسی کو نہ غیر قانونی کام کا کہیں گے نہ ہی ایسا کرنے دیں گے۔پارٹی کے اندر اور پارلیمنٹ میں حقیقی جمہوری اقدار کی مکمل پاسداری کریں گے۔ یہ تمام کارروائی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے پلیٹ فارم پر ہو اور چیف جسٹس آف پاکستان ان سب سے اس کا حلف لیں‘ اس لیے کہ اصل میں شاید یہ چیف جسٹس صاحب ہی کا آئیڈیا ہے یا اس سے ملتی جلتی بات ہے۔ عدلیہ پر مبنی عبوری حکومت تشکیل دی جائے اور نئے نظام کے عزم کے ساتھ سیاسی پارٹیاں اپنے نئے قابلِ عمل منشور کے ساتھ میدان میں اتریں۔ قانون ساز اسمبلی تین سے چھ ماہ میں نیا آئین ترتیب دے یا اسی آئین میں ایسی تبدیلیاں لائے جو موجودہ آئینی کمزوریوں سے پاک ہو ‘ عوامی یکجہتی کا علمبردار ہو ‘ تعلیم‘انصاف صحت اور برابر کے معاشی مواقع مہیا کرے۔
اب یہ سب کہنا آسان اور کرنا دشوار سہی لیکن اس خطرے کے مقابلے میں ‘جو ہمیں اس فرسودہ نظام اور مختلف دھڑوں کی ضد کی وجہ سے درپیش ہے ‘ ہمیں عمل کی دعوت دیتا ہے۔ البتہ اگر اوپر تجویز کردہ تینوں بڑے اقدام بیک وقت نہ ہوئے تو کوئی ایک بھی نہ ہو پائے گا۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
( ختم شدہ )

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں