مملکتِ پاکستان کے گرد و نواح میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال نے بہت سی طاقتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ اس خطے کے بارے اپنے رویوں اور پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیں۔ اچانک چہار جانب سے بہت پذیرائی کی خبریں آ رہی ہیں۔ پاکستان کی جاری متناسب اور مناسب خارجہ پالیسی کا رول تو اپنی جگہ ہے‘ لیکن کچھ اور ایسے واقعات بھی رونما ہوئے‘ جو موجودہ گرمجوشیوں کا سبب بنے۔افغان طالبان اور دیگر افغانی دھڑوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کے دائرے سے باہر نکل کر ایک دوسرے سے مثبت بات چیت شروع کر دی۔ دو یا اس سے بھی زیادہ دَور‘ روس میں منعقد ہوئے‘ چین کی معاونت کھلے طور پر نظر آنے لگی؛ حتیٰ کہ پاکستان نے بھی ہمت جمع کی اور ''لاہور پراسس‘‘ کا آغاز ہوا۔ افغان طالبان کے حملوں میں تیزی آئی اور ساتھ ہی امریکہ نے انخلا کے بارے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کیا۔ ادھر جب تمام Operations Flag False کے باوجود عرب اور ایران آپس میں نہ بھڑے تو کچھ حلقوں کو بہت مایوسی ہوئی۔ امریکہ‘ بقول صدر ٹرمپ حملہ کرتے کرتے رک گیا۔ ایران نے یورپی ملکوں کو مستقبل کی کسی خلیجی جنگ میں امریکہ کے ساتھ جانے سے روکنے کیلئے ڈپلومیسی ‘ لالچ اور ڈراوے( Deterrence) کے تمام حربے استعمال کئے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ اس کے علاوہ ایران نے ایٹمی مواد کے معاہدے سے تجاوز کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی پہلے مانی ہوئی حد سے بڑھا دی۔ اب ‘امریکہ عجیب مخمصے سے دوچار ہے۔ اگر‘ ایران کو تباہ کرے تو عربوں کو مستقبل میں کس سے ڈرا کر اپنے ہتھیار بیچے گااور کیونکر اپنا کنٹرول مضبوط کرے گا ؟ روس کا ایران کا ساتھ دینے کا بیان بھی سنجیدہ معلوم ہوا۔ پھر ایران کا یہ بیان بھی گمبھیر لگا کہ وہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے امریکہ سے منسلک اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میںامریکی اڈے غیر محفوظ نظر آنے لگے‘ خاص کر جب یہ دیکھا جائے کہ ایران نے ان علاقوں میں نان سٹیٹ ایکٹرز کا جال بچھا رکھا ہے۔ اب ‘امریکہ بہادر کا دل پاکستان کے لیے موم ہونے لگا اور عرصہ ٔدراز سے بجھے ہوئے پیار کے دیپ پھرسے ٹمٹمانے لگے۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کو ڈراؤ (پتھر کی دنیا سے) لالچ دو( ڈالر کی خوشبو سے) یا فقط پیار جتاؤ (نان نیٹو دوست کا درجہ وغیرہ دے کر) تو ان کے حکمران‘ فوجی ہوں یاسویلین‘ فوراً بات مان جاتے ہیں۔ اس بار امریکی دورے کے دوران یہی داؤ پیچ وزیر اعظم عمران خان پر آزمائے جائیں گے ۔ راہ ہموار کرنے کیلئے بہت کچھ پہلے سے کیا جا رہا ہے۔
1۔ مختلف ممالک سے ڈالروں کی آمد۔ 2۔ آئی ایم ایف (IMF )کی پہلی قسط۔ 3۔ ایف اے ٹی ایف (FATF )کی طرف سے کچھ ڈھیل۔ 4۔ عالمی مالیاتی اداروں (IFI )کی جانب سے نظر ِالتفات۔ 5۔ افغان حکومت کی جانب سے گرمجوشی کا اظہار۔ 6۔ حتیٰ کہ ہندوستان کی جانب سے بھی کچھ نپے تلے مثبت اشارے۔ 7۔ بی ایل اے (BLA )کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا۔
ان حالات میں ہمارے دفتر خارجہ میں ایک جشن کا سا سماں ہوگا۔ مجھے یقین ہے ‘ہمارے پالیسی سازضرور غور کریں گے کہ اتنی جلد یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ؟ اب ہم سے کیا کہا جائے گا یا کون سانیا حکم صادر ہوگا اور کتنے ڈالروں کے عوض نیا سودا کیا جائے گا ؟ ہماری ابتر معاشی صورتحال‘ حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھا ہونا اور بھارت کی جانب سے فوجی آپریشر‘ افغانستان کی طرف سے شر پسندوں کی حمایت‘ جیسے عناصر بھی کام میں لائے جائیں گے۔ اب سوچئے کیا کوئی نکلنے کا راستہ ہے ؟ اندازہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ان کو جو جواب ملے گاشاید وہ ماضی سے ہٹ کر ہو اورہماری بیوروکریسی اس کے متوقع نتیجے سے سخت پریشان ہوگی۔ روس اور چین کو ہمارے مسائل کا اچھی طرح سے ادراک ہے۔ روس نے SCO کے فورم پرواضع انداز میں اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا۔ اس کے فوراً بعد روسی فوج کے کمانڈر نے پاکستان کا دورہ کیا اور حال ہی میں روس کے صدر پیوٹن کی جانب سے پاکستان کو ایک اور اہم فورم پہ آنے کا دعوت نامہ ملا۔ چین کی سفارتکاری قدرے مخفی ہے‘ یقینا وہاں سے بھی مضبوط اور مثبت اشارے آئے ہوں گے۔ وزارت ِخارجہ کو بہت احتیاط اور عرق ریزی سے وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ کی تیاری کرنا ہوگی۔ڈپلومیٹ سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ امریکی داؤ میں آئے بغیر دو ٹوک انداز میں ہمیں اپنے مفادات کابرمحل اظہار کرنا ہوگا۔ اگر‘ اس دورے سے پہلے ہم اپنے دوست ممالک سے کچھ مشاورت کر لیں ‘ جو نظربھی آئے‘ تو جو دباؤ دورے سے پہلے ہم پہ ڈالے جا رہے ہیں ‘ان کا کچھ ازالہ ہو گا۔ ہمیں اپنی مثبت توانائیوں اور کمزوریوں کا صحیح ادراک ہونا چاہیے۔ کمزوریوں کا ذکر تو اوپر ہو چکا۔ اب‘ ہمارے پاس سودے بازی کے لیے کیا ہے ؟
1۔ سی پیک افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ روس اور چین؛ حتیٰ کہ بھارت کیلئے بھی بحر ہند اور مشرق وسطیٰ تک پہنچنے کی بہترین اور مختصر فاصلے کی گزرگاہ‘ اور امریکہ کے لیے یہ بات ناگوار ہے۔2۔ افغان طالبان کے ساتھ ہمارے روابط اور ایران اور افغانستان کے ساتھ ایک لمبی سرحد۔3۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مسلح افواج کی موجودگی۔4۔ ایک بڑی آبادی والا ملک‘ جہاں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔5۔ معلوم اور غیر معلوم معدنی ذخائر سے مالا مال۔6۔ بڑا مسلم ملک ہونے کے ناتے مسلم دنیا میں ایک مقام وغیرہ وغیرہ۔اب امریکہ جو بھی چاہے ہمیں کچھ باتیں کسی صورت نہیں ماننی چاہئیں اور کچھ باتیں اچھی سودے بازی پر مان سکتے ہیں۔اب یہQuestion Dollar Million ہے کہ وہ ہم سے کیاتقاضے کر سکتے ہیں اور ہمیں ان سے کیا کہنا ہے ؟ آسان تو یہ تھا کہ اس معاملے کو حذف کر جاتا‘لیکن پھر کچھ بد دیانتی ہو جاتی۔ یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ یہی اندازہ درست ہے؛ البتہ عالمی سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے ایک کاوش ضرور ہے۔ امریکی چاہیں گے :
1۔ پاکستان طالبان پر دباؤ ڈالے کہ ستمبر میں الیکشن پہ جنگ بندی کا اعلان کریںاور امریکیوں کوبحفاظت نکلنے کے لیے ٹائم ٹیبل پر رضامند ہو جائیں۔ 2۔ امریکہ کسی طرح ( ملٹری اڈے یا کسی اور صورت میں) افغانستان میں اپنا اثر رسوخ رکھ سکے۔ اگر‘یہ ممکن نہ ہو تو پاکستان اپنی سر زمیں پہ امریکی موجودگی کی اجازت دے۔3۔ ایران سے معرکے کی صورت میں پاکستان عربوں کا ساتھ دے اور بوقت ِ ضرورت زمینی‘ سمندری اورہوائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دے۔4۔ سی پیک پہ سست روی اختیار کرے اور بدلے میں ڈھیروں ڈالر کی امداد سے مستفید ہو۔5۔ روس اور روسی اسلحے سے دور رہے اور اسے کسی صورت میں بحر ہند تک راہداری نہ دے۔ اور ‘نہ ہی پاکستانی سر زمین پر روس کو کوئی مراعات دی جائیں۔وغیرہ وغیرہ۔
اب ‘پاکستان کو کن باتوں پہ زور دینا چاہیے : 1۔ سی پیک کی کسی صورت مخالفت نہ کی جائے‘ ہم اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ 2۔ بھارت اور افغانستان کو سی پیک کی مخالفت اور منفی اقدامات سے یکسر روکا جائے۔ 3۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کا فوری نوٹس لے کر اسے بند کروایا جائے۔ ہندوستان کو بات چیت پر آمادہ کیا جائے۔ 4۔ معاشی دلدل سے نکلنے کے لیے پاکستانی کوشش کی اخلاقی ‘ قانونی اور مالی مدد کی جائے۔ 5۔ ایف اے ٹی ایف کے جال سے ہمیں نکلنے میں ہماری مدد کی جائے۔ 6۔ ایران کے ساتھ تجارت میں ہمیں بھی استثنیٰ ملے۔ 7۔ چین ‘ روس‘ ترکی وغیرہ کے ساتھ ہمیں اپنی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی کھلی اجازت ہو۔ 8۔ ایٹمی معاملات میں ہندوستان اور پاکستان میں کوئی تفاوت نہ برتا جائے۔ 9۔ افغانستان اور ہندوستان کی جانب سے ہمارے ملک میں علیحدگی پسند شر پسندوں کی مدد روکی جائے۔ان کی کونسی باتیں مانی جا سکتی ہیں اور ہمیں کیا منوانا چاہیے ؟اب یہ ممکن نہیں کہ اس تحریر میں تمام امکانات کا احاطہ کیا جاتا‘ لیکن کچھ پہلوؤں کی جانب اشارہ کر دیا۔ کچھ غلطیاں بھی ممکن ہیں ‘بہرحال اپنا حق ادا کر دیا۔ امید ہے‘ ہمارے پالیسی ساز ان نشیب و فراز سے واقف ہیں اور اپنا گیم پلان بنا کر جائیں گے۔ بہت ہو چکی یک طرفہ خدمت۔