"NLC" (space) message & send to 7575

دلِ خوش فہم کی امیدیں

ہمارے تعلقات ری سیٹ ہونے جا رہے ہیں۔ اب Aid نہیں Trade ہو گی۔ برابری کی بنیاد پر گفت و شنید ہو گی۔ کسی کے آگے نہیں جھکیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ بہت خوبصورت جملے اور بہت دلفریب عزم، لیکن احتیاط کا تقاضا ہے کہ تاریخ کے اوراق کو نظر میں رکھا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا اس قسم کا ماحول پہلی دفعہ بنایا گیا ہے؟ بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان نے پاکستانی عوام کی درست نمائندگی کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ رات امریکی کانگریس میں شاید پہلی دفعہ پاکستان اور وزیر اعظم کے حق میں ایک شاندار قرارداد پیش ہوئی۔ بس ایک استدعا ہے اپنی لیڈرشپ سے کہ جب تعلقات ری سیٹ (Reset) کریں تو پرانی memory کو delete ہرگز نہ کیجئے گا، کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی سوراخ سے ایک بار پھر ڈسے جائیں۔ نہ تو یہ کوئی نیا باب (chapter new) ہے نہ ہی کوئی نیا سبق کہ امریکہ بہادر کو جب بھی ہماری ضرورت پڑتی ہے تو کام کی اہمیت کے مطابق یا تو پیار میں شدت پیدا ہوتی ہے یا انتہائی غصے اور رعب کا اظہار ہوتا ہے‘ یا پھر سب سے کارگر طریقہ‘ ڈالروں کی خوشبو سنگھائی جاتی ہے۔ اس دفعہ تو تینوں نسخے بیک وقت استعمال ہوئے‘ تبھی ماتھا ٹھنکا کہ اب کی بار ضرورت کچھ بڑے سائز کی ہے۔ اپنائیت جتانے اور لالچ کے پہلو تو عوام کی سمجھ میں آ گئے ہوں گے‘ لیکن آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس دفعہ رعب اور دبدبے والی تو کوئی بات نہیں ہوئی... تو پھر سنیے کہ آپ کے خیال میں جب وہ ایک بہت بڑے بم کی بات کر رہے تھے (جیسا پاکستان کی سرحد کے قریب استعمال ہوا تھا) اور ایک کروڑ لوگوں کی ہلاکت کا عندیہ دے رہے تھے تو کیا وہ پیغام فقط ایک ملک کے لئے تھا؟ ایران اور پاکستان افغانستان سے زیادہ دور نہیں ہیں۔
امریکہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ اقتصادی، سیاسی، سائنس و ٹیکنالوجی، میڈیا اور فوجی لحاظ سے سب سے بڑا اور تگڑا ہے۔ دنیا کا ہر ملک اس سے اچھے تعلقات کا خواہش مند ہے اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے‘ اور یہ ہمارا حق بھی ہے۔ اس لئے امریکہ سے اچھے تعلقات کا از سر نو آغاز ایک اچھی خبر ہے اور اگر وجہ ہماری خارجہ پالیسی کی کاوش ہے تو اور بھی قابل ستائش امر ہے، لیکن یاددہانی فقط یہ کروانا تھی کہ کسی مغالطے میں نہ رہیے گا، تعلقات کی نوعیت ویسی ہی رہے گی جیسے کہ پہلے تھی یعنی کچھ لو اور کچھ دو (Transactional) اور اگر کسی پرانے اچھے دور جیسی ہو گئی تو غنیمت ہو گی۔ یہ تعلقات اور بظاہر جو بھی مدد ہو گی‘ اس کی سطح امریکہ خالصتاً اپنے مفاد کے مطابق رکھے گا۔ باہمی مفاد کے جو پہلو نکلیں گے‘ ہمیں اس کیلئے سخت سودے بازی (Hard-bargaining) کی ضرورت ہو گی۔ یہاں پر ایک اور بات گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ جب امریکہ کو سودا مہنگا لگے تو ملک کے بجائے کسی ایک لیڈر یا چند فیصلہ سازوں کو خرید لیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات بکنے والوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ خرید لئے گئے ہیں۔ اچھی جمہوریت میں اس کا امکان کم ہونا چاہئے اور ہمیں یقین ہے کہ الحمدللہ ہمارے موجودہ بڑے لیڈر بکاؤ مال نہیں ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ اداروں کے اندر مختلف سطحوں پر ایسے وطن فروش مل جاتے ہیں جو خارجہ، داخلہ، معاشی اور سکیورٹی کے میدانوں میں ملک مخالف پالیسیوں کی حمایت کر کے غیروں کو فائدے پہنچا سکتے ہیں۔ جیسے کہ اس خدشے کا اظہار کہ ہماری موجودہ معاشی صورت حال اپنی کوتاہیوں کے علاوہ معاشی سبوتاژ کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے‘ اور ایسی ہی کیفیت روس اور چین جیسے ممالک کے ساتھ نزدیکی تعلقات سے دور رکھنے کیلئے بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر فوج جیسے محتاط ادارے میں اتنی اونچی سطح کے بعض آفیسرز ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث پائے گئے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ باقی ادارے بھی اپنی صفوں کا از سر نو جائزہ لیں۔
نئے تعلقات کی شروعات تو بہت اچھے انداز میں ہو گئی اور پوری قوم دعا گو ہے کہ اس کامیاب دورے کے مثبت ثمرات بھی جلدی سامنے آ جائیں۔ جس ترتیب سے پرانی مراعات بحال ہوں گی اسی ترتیب سے امریکی تقاضے سامنے آئیں گے۔ اگر سب سے پہلے فوجی امداد اور عسکری پروگرام بحال ہوتا ہے تو سمجھ جائیے کہ پہلی ضرورت بھی امریکی فوج کی محفوظ واپسی سے وابستہ ہو گی۔ لیکن چونکہ عمران خان صاحب خود آگے یعنی Front سے لیڈ (lead) کر رہے ہیں: چنانچہ غالباً یہ تاثر نہیں ابھر پائے گا۔ بظاہر لگتا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے اکٹھے موجود رہنے کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا ہو گا۔ ایک تو الگ الگ مختلف باتیں کر کے ان میں پھوٹ نہیں ڈال پائے ہوں گے اور دوسرا کوئی ایسا وعدہ نہ لے سکے ہوں گے جو مانے کوئی اور‘ اور جس پر عمل دوسرے نے کرنا ہو۔ ہر مشکل فیصلے کو پارلیمان میں لے جانے کی بات بھی بہت اہم ہو گی‘ جس کا عندیہ وزیر اعظم نے دیا ہے۔
کچھ ایسی باتیں بھی ہو سکتی ہیں جو بظاہر سامنے نہ آئی ہوں، جیسے ایران کی صورت حال اور سی پیک میں یا اس سے ہٹ کر سرمایہ کاری وغیرہ۔ لیکن ایک بات بالکل عیاں ہے کہ پاکستانی وفد نے اس دورے کو جمود توڑنے کیلئے استعمال کیا اور کوئی حتمی فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا گیا‘ بلکہ غور و فکر کیلئے وقت مانگا ہے، جو نہایت عمدہ حکمت عملی ہے۔ اب جو فالو اپ ملاقاتیں ( meetings up Follow) ہوں گی ان کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی اور یہی درست طریقہ کار ہے اہم قومی امور سے نمٹنے کا۔ ایک بنیادی بات کا ادراک کر لینا نہایت اہم ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل ملک کے اندر تلاش کرنا ہو گا۔ باہر سے جتنی بھی امداد آ جائے‘ وہ ہماری نا اہلی، کرپشن، کم علمی، مس مینجمنٹ کا ازالہ نہیں کر پائے گی۔ موجودہ حکومت نے تمام مسائل کو بیک وقت حل کرنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے اللہ کرے کہ وہ اس میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن جس بات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے وہ ہے غریب عوام کی بے صبری، جس کے لئے ان کو رتی برابر دوش نہیں دیا جا سکتا۔ اتنی مہنگائی، نظم و نسق کا فقدان، انصاف کا ناپید ہونا وغیرہ، آخر کوئی کب تک برداشت کر سکتا ہے۔ آپ امریکہ اور بھلے پوری دنیا میں اپنا نام منوا لیں، امتحان تو اپنے ملک میں دینا ہے۔ فی الحال بہتری کے آثار عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ یا پھر حکومت کوئی مثبت نشانیاں نہیں دکھا سکی۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک جتنا وقت اس حکومت کو ملا ہے شاید اتنا ہی اور وقت ہے بنیادی معاملات کو ٹھیک کرنے کیلئے۔ جب لوگ آثار دیکھ لیں گے تو انہیں چین اور قرار آ جائے گا۔ ورنہ... اللہ کرم فرمائے۔ کسی بھی صورت روٹی عوام کی دسترس سے باہر نہیں ہونی چاہئے۔ کاش کہ حکومت یہ بنیادی نکتہ سمجھ جائے۔ کیونکہ پھر امریکہ بھی ہماری کوئی مدد نہیں کر پائے گا۔ اس کے علاوہ بنیادی جمہوری اصولوں کی پاسداری کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ میڈیا بندش کے ضمن میں جو تاثر پایا جاتا ہے اس کا ازالہ کیا جانا چاہئے اور ایک اہم شخصیت کے اس قول کا پاس رکھا جانا چاہئے‘ جب انہوں نے کہا تھا، ''ادارے افراد سے اہم ہیں اور ملک اداروں سے اہم‘‘۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو ان باتوں کی نفی کرتا ہو۔ اس سے ملک کو بھی نقصان ہو گا اور اداروں کو بھی۔
شکر ہے ہماری سیاسی اور عسکری لیڈرشپ امریکہ کے دورے کے دوران ملک کا نام سر بلند کر کے آئی ہے، اب ملک کے اندر واضح مثبت تبدیلی لا کر یہاں بھی اپنا نام سر بلند کریں کیونکہ بہت سے اچھے کام ایسے ہیں جن کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ آمین!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں