مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے بھرپور سیاسی وارکا پاکستانی قیادت کو قبل از وقت ادراک ہو جانا چاہئے تھا اگر اس نے بھارت کی الیکشن مہم، گزشتہ تاریخ، ملٹری کمانڈرز کے رویے (خاص طور پر پلوامہ حملے کے بعد کی صورت حال میں)اور بی جے پی کی موجودہ قیادت کو بہت قریب سے مانیٹر کیا ہوتا۔ مگر اس کے برعکس یہاں کے اہم فیصلہ ساز اور سیاسی بزرجمہر ایک نرم اور مصالحانہ اپروچ کی توقع لگائے بیٹھے رہے۔ ہم کس طرح یہ یقین کر سکتے ہیںکہ ہماری قیادت اور فارن آفس اس ممکنہ اقدام سے بے خبر تھے‘ جب کوئی پیشگی اور متوقع اقدامات بھی نظر نہ آرہے ہوں؟ خیر جو ہو گیا سو ہو گیا۔ موجودہ صورت حال ہماری آنکھوں میں ا ٓنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہے۔ان سنگین حالات میں ہم محض کوئی جوابی قدم اٹھانے کے بجائے اگر ان کی پیشگی روک تھام کے لئے ٹھوس کوششیں نہیں کرتے تو بھارت کے پاس بہت سے مزید سیاسی اور فوجی آپشنز موجود ہیں۔
بھارت اپنے داخلی سیاسی اور اخلاقی رد عمل سے نبرد آزما ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے زیادہ دیر جاری رہنے کا امکان نہیں۔ اسی طرح عالمی سیاست، علاقائی صورت حال (افغانستان، ایران، CPEC وغیرہ) اور بھارت کے طاقتور سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ سے منسلک خارجی دبائو بھی زیادہ عرصہ کار گر ثابت نہیں ہوگا۔ اس لئے ہمارے پاس دبائو ڈالنے کے دو طرح کے حربے موجود ہیں جو پائیدار بھی ہیںاور بھارت کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور بھی کر سکتے ہیں اور وہ ہیں کشمیری عوام کاجذبہ حریت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ عوام کی طرف سے ان کی مصمم حمایت ۔
جہاں تک دوست ممالک کی حمایت ،اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے بیانات کا تعلق ہے تو وہ محض مذکورہ بالا دونوں فیکٹرز کی تقویت کا باعث ہی بن سکتے ہیں‘ لہٰذا سب سے اہم بات یہ ہے کہ کشمیری عوام اپنی تحریک آزادی کو پورے جوش و خروش سے جاری رکھیں اور ان کے لیے پاکستان کی حمایت بھی موثر انداز میں جاری رہے ۔
اب ہم اپنے ممکنہ آپشنز کی حقیقت اورتحریکِ آزادی اوربھارتی رویے پر ان کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ بھارت نے سیاسی، قانونی اور عسکری تمام پہلوئوں کوپیش نظر رکھتے ہوئے یہ ایک بڑی چال چلی ہے ۔ سیاسی طور پر اس نے بھارتی مقبوضہ کشمیر اور لداخ کے علاقے کے بین الا قوامی طور پر مسلمہ 'سٹیٹس کو‘ کو تبدیل کرنے کے لئے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ قانونی لحاظ سے اس نے ان کاغذی تبدیلیوں کے لئے صدارتی اختیارات اور پارلیمنٹ کی منظوری کا حربہ استعمال کیا ہے ۔ مزید یہ کہ اس نے آزادی کی اس جاری جدوجہد کو کچلنے ،کشمیری عوام کے غیر معمولی رد عمل سے نمٹنے اور پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کیلئے بڑے پیمانے پر اضافی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اتار دیا ہے‘ لہٰذا ہمارے جوابی اور پیشگی اقدامات کو بھی ان تینوں یعنی سیاسی، قانونی اور عسکری پہلوئوں کا احاطہ کرنا ہوگا ۔ ہمارے پاس تین بڑے آپشنز یہ ہو سکتے ہیں:
اول یہ کہ ہم ماضی کی طرح خالصتاً سفارتی اقدامات بروئے کار لائیں ۔ ایک ٹھوس سفارتی اقدام کے طور پر اہم ممالک میں اپنے وفود بھیجے جائیں اور جلد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرار داد پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو فوری طور پر دوست اور نیوٹرل ممالک کا دورہ کرکے انہیں بھارت کے حالیہ اقدام کے ممکنہ نتائج اور ان کی حساسیت سے آگاہ کرنا چاہئے۔ کسی قسم کی قرارداد پیش کرنے سے پہلے ہمیں سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل ارکان کے ساتھ ممکنہ اعلامیے کے حوالے سے بات چیت کیلئے انتھک کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ چین جیسے دوست ملک کو یہ قرار داد پیش کرنے پر قائل کیا جائے۔ اس قرار داد کو ویٹو ہونے کا خدشہ بھی کیوں نہ ہو ،محض اس قرار داد کے پیش ہو نے اور اس پر رائے شماری ہو جانے پر بھی اس کے کارگر سفارتی اثرات مرتب ہوں گے۔
ایسی قراردادیں ہمیشہ پاس ہونے کے لئے ہی نہیں پیش کی جاتیں ان کے اور بھی کئی طرح کے مضمرات ہوتے ہیں۔ مگر سلامتی کونسل کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہئے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے رابطہ کر کے انہیں قائل کیا جائے کہ وہ کشمیر میں جاری تشدد ختم کرانے پر زور دیں اور نیوٹرل تفتیش کاروں کو وہاں کا دورہ کرایا جائے۔ سفارت کاروں، وفود، پاکستانی تارکین وطن، میڈیا و سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ لابسٹس Lobbyists کی مدد سے عالمی سول سوسائٹی کی توجہ کشمیری مردو خواتین اور بچوں کو درپیش غیر معمولی مشکلات پر مرکوز کرائی جائے ۔
ممکن ہے کہ قومی ریاستیں Nation States اپنے بعض قومی مفادات کے پیش نظر ہماری درخواست پر کوئی براہ راست رد عمل دینے سے گریز کریں مگر شاید وہاں کی سول سوسائٹیز کے دبائو کی وجہ سے وہ اپنے داخلی سیاسی مقاصد کے پیش نظر کشمیر پر کوئی مثبت اقدام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ ہمارے سینئر اور حاضر سروس سفارت کار بھی کئی ممکنہ اقدامات تجویز کر سکتے ہیں مگر یہ تمام اقدامات خواہ کتنے ہی ٹھوس اور کامیاب کیوں نہ ہوں مودی کو اپنے اعلان اورعملی اقدام کو واپس لینے یا اسے قائل کرنے میں ناکام ثابت ہوں گے۔ اس طرح اسے سیاسی اور عسکری حوالوں سے مزید اقدامات کرنے کی فضا تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ اور ہم نے ابھی تک صرف سفارتی محاذ پر ہی چند ایک اقدامات کئے ہیں۔
دوم یہ کہ ہمیں فوری طور پر سیاسی محاذ پر ممکنہ اقدامات کرنے پر غور کرنا ہو گا خواہ وہ بھارتی اقدامات جیسے ٹھوس نہ بھی ہوں مگر ان کے ہم پلہ ضرور ہوں۔ کئی ایک سیاسی آپشنز پر بحث جاری ہے ۔مثلاً یو این او کی نگرانی میں گلگت بلتستان کے علاقوں، آزاد کشمیر میںا س عزم کے ساتھ رائے شماری کا انتظام کیا جائے کہ بعد میں جیسے ہی ممکن ہوااسے بھارتی مقبوضہ کشمیر تک توسیع دے کر اس کی تکمیل کی جائے گی۔ بعض حلقے یہ تجویز بھی دے رہے ہیں کہ کسی یورپی یا دوست ملک میں آزاد و مقبوضہ کشمیر کے سیاسی اکابرین اور کشمیری تارکین وطن پر مشتمل ایک جلا وطن حکومت قائم کی جائے۔ کسی سیاسی مشکل کی صورت میں اسے آزاد کشمیر میں بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدام سے پہلے اس کے سیاسی مضمرات پر پاکستان اور آزاد کشمیر کے قانونی ماہرین اور سیاسی قیادت کے ساتھ صلاح مشورہ بھی کیا جانا چاہئے۔ یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے اگر مذکورہ بالاسفارتی کوششیں ٹھوس بنیادوںپر استوار ہوں اور ان کے نتیجے میں عالمی فضا ہمارے حق میں بدل جائے ۔
ہمیں اس فریب سے بھی باخبر رہنا ہوگا کہ مودی حکومت اپنے اقداما ت کو واپس لینے کا وعدہ کر کے (جو کہ ناممکن ہے) آرٹیکل 370اور35-A (جسے ہم ہمیشہ مسترد کرتے آئے ہیں) ہم سے قبول کرانے کا دھوکا بھی دے سکتی ہے۔یہ سفارتی اور سیاسی اقدامات کا ایک متواز ن امتزاج ہے جو کشمیر کی تحریک آزادی میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک سکتا ہے، اسے سیاسی طور پر زندہ اور متحرک رکھ سکتا ہے اور عالمی سیاست کے تناظر میں اسے مزید نکھار سکتا ہے ۔
سوم یہ کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مزید بھارتی افواج کی آمد کے سنگین عسکری مضمرات ہیں۔ یہ فوج کشمیر میں مکمل میڈیا بلیک آئوٹ کی وجہ سے پہلے ہی نوجوان کشمیری قیادت کو ختم کرنے میںمصروف ہوسکتی ہے اور اس طرح تحریک آزادی کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔اسے یہ گھنائونی کارروائیاںکرنے کا جتنا زیادہ وقت ملے گا آزادی کی جدو جہد کی موجودہ قیادت کی بقا کے امکانات بھی اتنے ہی کمزور ہوتے جائیں گے۔ وہاںبھاری تعداد میں فوج کی تعیناتی سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں کو براہ راست فوجی خطرات بڑھ جائیں گے۔ اس سے فوجیوں کے تناسب سے بھارت کو عددی برتری حاصل ہو جائے گی اور وہ خواہ عارضی طور پر ہی سہی بعض علاقوں پر قابض ہو کر دنیا کو ثالثی کیلئے کہہ سکتاہے (صدرٹرمپ کی پیشکش کو ذہن میں رکھیں) اگر پاکستان اس ثالثی کو نہیںمانتا تواس طرح مزید جارحیت کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔
میں یہاںیہ تو نہیںکہہ رہاکہ بھارت اس کوشش میںکامیاب ہوگا مگر اس وقت اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اب اگر بھارت کا فوجی منصوبہ پہلے تحریک آزادی کو کمزور کرنا اور پھر حملے کا جواز تلاش کرنا اور کسی ایٹمی جنگ میں الجھے بغیر بعض چھوٹے علاقوں پر قبضہ کرنا ہو تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا ؟ (باقی صفحہ 11 پر)
کیا ہم خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیںیا موجودہ محاصرے کی حالت میں ہم مجاہدین آزادی کو ذبح ہوتے دیکھ سکتے ہیں؟ہماری خاموشی سے گزرتے ہر لمحے میں تحریک آزادی کو بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔ کیا ہمیں یہ انتظار کرنا چاہئے کہ بھارتی فوج آرام سے اپنا پہلا فیز مکمل کر لے اور پھر اپنی سہولت کے مطابق آزاد کشمیر کا رخ کرے؟ کیا ہم ان کے منصوبوں کو سبو تاژ کرنے کے لئے کچھ کر سکتے ہیں یا کم از کم ان کی ٹائمنگ کو ہی اپ سیٹ کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس ایک مکمل جنگ کے علاوہ بھی کچھ آپشن ہیں؟ یقینا اس طرح کے معاملے پرکھلے عام بات نہیں کی جا سکتی۔ اس مسئلے پر وہی لوگ سوچ بچار کر سکتے ہیں جن کے پاس ایسا کرنے کا اختیار اور انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے کی استعداد ہے ۔لہٰذا ہم ملٹری آپشن کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا جن تین محاذوںپر ہمیں کارروائی کرنا ہے وہ یہ ہیں: اول یہ کہ سفارتی محاذ جو بہت ہی ضروری ہے اور ہم اس پر پوری شدو مد سے کام نہیںکر رہے ۔ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔مگر محض سفارتی حربوں کی بدولت بھارت اپنے طے شدہ منصوبوں سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ پھر بھی ہمیں اپنے سفارتی اقدامات کم از کم وقت میں مکمل کرنا ہوں گے۔اس سے اگلا مرحلہ سیاسی اور قانونی ایکٹوازم کا ہے۔ یہاں ہمیں کم از کم اتنے اقدامات ضرور کرنے چاہئیں کہ ہم بھارت کی سیاسی اور قانونی مہم جوئی پر چیک رکھ سکیں۔بھارت کے ان سنگین حربوں کا جواب دینے اور مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی جانیں بچانے کے لئے ہمیںفوری طور پر کچھ کرنا ہوگا ورنہ قدرت ،تاریخ اور کشمیری عوام ہمارے اس جرم کو کبھی معاف نہیںکریں گے کہ ہم وہاں جاری ظلم و جبر اور بربریت کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہے ۔ وقت کاتقاضا ہے کہ بیک وقت تمام محاذوں پر فوری اقدامات کئے جائیں۔ شاید آپ جنگ میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں مگر جنگ تو آپ میں دلچسپی رکھ سکتی ہے ۔اگر ہم جنگ سے بچنے کے لئے اپنی عزت و آبرو پر سمجھوتہ کر بیٹھے تو ہم دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
اگر جنگ کے نتائج کا فیصلہ معاشی قوت اور افواج کے تقابل سے ہوتا تو آج ہمیں کسی عسکری تاریخ یا جنگ آزادی کا تذکرہ نہ ملتا۔ ہاں البتہ دو نیو کلیئر ممالک ایک مکمل جنگ کا تصور بھی نہیںکر سکتے مگر ہمیں اس کا جواب عصری تنازعات کے ہر دم بدلتے کردار اور نوعیت میں تلاش کرنا چاہئے۔ یعنی متحرک، سیاسی اور سفارتی جہتوںکے امتزاج پر مبنی ایک منظم اور ہائبرڈ حل۔