"NLC" (space) message & send to 7575

افق پر ابھرے نمایاں اشارے

تیز رفتاری سے تغیر پذیر واقعات کا ایک طوفان بپا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بے یارومددگار کشمیریوں کا محاصرہ جاری ہے۔ امریکہ افغان طالبان مذاکرات کا سلسلہ رک چکا ہے۔ چینی وزیر خارجہ اور چائنیز ملٹری کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ اکٹھے پاکستان کا مختصر دورہ کرکے جا چکے۔ سینٹ کام کے کمانڈر بھی ادھر ہی تھے۔ ہم ایک مرتبہ پھر FATF کے سامنے خود کو بے گناہ ثابت کرنے اور گرے لسٹ سے اپنا نام نکلوانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ صدرٹرمپ کئی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش دُہرا چکے ہیں۔ چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچ ہزار جوانوں پر مشتمل چائنیز فورس اس سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرے گی۔ یہ ساری پیش رفت محض ایک دو ہفتے کے دوران ہوئی ہے۔ کیا یہ سب کچھ نارمل ہے؟ کیا یہ تمام واقعات باہم مربوط (Inter linked) ہیں؟ یہ دو ہفتے یقینا ابنارمل نوعیت کے ہیں اور یہ سب کچھ باہم مربوط ہے۔ اگر ہم میں سے ہر کسی کو دفتر خارجہ اور عسکری قیادت کی سرگرمیاں اور پروفیشنلزم نظر نہیں آتا تو بھی ہمیںرجائیت پسندی کا دامن تھامے رکھنا چاہئے۔
یقینا ان اداروں کے پاس کہیں زیادہ علم، معلومات، انٹیلی جنس اور ہر لمحہ بدلتے حالات کو سمجھنے اور ان کا تعین کرنے کے ذرائع موجود ہیں اور وہ ویسی ہی بھرپور جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیت اور تیاری بھی رکھتے ہیں۔ مگر جب ہم اپنے اردگرد رونما ہونے والے دیگر واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو گورننس کے مختلف پہلوئوں خصوصاً بلدیاتی ذمہ داریوں اور امن و امان کی عمومی صورتحال کے پیش نظر ہمارے اندر حکومت کی جیوپالیٹکس، جیواکنامکس اور جیوسٹریٹیجی سے متعلق ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لینے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر ان ذمہ داریوں کا ایک حصہ کسی دوسرے ادارے کو آئوٹ سورس کر دیا جائے (ایسا امکان بھی ہے) تو بھی اعلیٰ سیاسی ادارے اور فورم یعنی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہی تمام سفارتی، سیاسی، معاشی اور عسکری کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ 
جہاں تک پبلک ڈپلومیسی کا تعلق ہے اس میدان میں ہماری کار کردگی اتنی بری نہیں رہی جیسا کہ ٹی وی، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا کے ذریعے اب دنیا بھر کے عوام بھارتی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں بھرپور آگاہی رکھتے ہیں۔ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کیلئے بھرپور اور بڑے پیمانے پر نکلنے والے جلوس ایک حوصلہ افزا اشارہ ہیں؛ تاہم یو این او اور دیگر قومی ریاستوںکے ساتھ بات چیت اور روابط ہمیں مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے، فیکٹ فائنڈنگ مشنز کی روانگی، ریڈ کراس، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں ابھی تک ٹھوس نتائج نہیں دکھا سکے۔ اس سے ہمیں ڈپلومیسی کی تحدیدات (Limitations) کا پتہ چلتا ہے کیونکہ یہ مروجہ سیاسی اور معاشی انٹرنیشنل فریم ورک کی حدود کے اندر رہ کر ہی کام کر سکتی ہے۔ ہماری واحد مہارت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے ہم اپنے آپ کو کہاں اور کیسے متعین کرتے ہیں۔ اور یقینا یہی چیز ہماری سب سے بڑی ناکامی لگتی ہے۔ ہمارا رویہ اس قدر الجھائو کا شکار ہے کہ ہم (ہر طرح کی بدسلوکی اور غلط استعمال ہونے کے باوجود) بے بسی سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور اس کیلئے ہم اپنے چین جیسے انتہائی قابل اعتبار دوست کو ناراض کرنے کا رسک بھی لے لیتے ہیں‘ جبکہ روس اور ایران جیسے ممالک کی طرف کسی قسم کی گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ہمیں اپنے دفتر خارجہ میں پائے جانے والے ان ''گھر کے بھیدیوں‘‘ کو وہاں سے نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں مشرق کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دے رہے یا انہوں نے دانستہ اس عمل کو سست رفتار کر رکھا ہے۔
اب ہم آنے والے چند ہفتوں اور مہینوں کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور اتنی برق رفتاری سے رونما ہونے والے موجودہ واقعات کی تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ واقعات اور مواقع بلاشبہ حوصلہ افزا ہیں اور یہ ہم پر ہے کہ اس موقع پرہم خود کو اور اپنے ردعمل کو کس طرح استوار کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرہ اور مکمل بلیک آئوٹ اس وقت خطے کا سب سے گمبھیرمسئلہ ہے۔ گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران کیا کچھ نہیں ہو گیا ہوگا‘ اس بات کو سمجھنا قطعی مشکل نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، شہادتوں، آبروریزی کے واقعات اور املاک کو نذر آتش کرنے کے بارے میں رپورٹس پہلے ہی موصول ہو چکی ہیں۔ نوجوان کشمیری حریت قیادت کے خاتمے کی سوچی سمجھی، سنگدلانہ کوشش اور ان کی فیملیوں کے حوصلے پست کرنے کامقصد بالکل واضح ہے۔ ہماری رائے میں یہ پورے پلان کا صرف پہلا فیز ہے۔ دوسرے مرحلے میں سعودی عرب، یو اے ای اور امریکہ کے دوسرے پارٹنرز کی طرف سے بڑے پیمانے پر اس خطے میں سرمایہ کاری کے ذریعے یہاں کے ڈرے اور سہمے ہوئے عوام کی آنکھوں کو خیرہ کیا جائے گا۔ اس خوشحالی کے ذریعے آزاد کشمیر کے شہریوں کو بھی اس میں شمولیت کی ترغیب اور لالچ دیا جائے گا اور ہمیں لائن آف کنٹرول کے اس جانب بھی ایک مسموم شورش نظر آسکتی ہے۔ پلان کا تیسرا مرحلہ قدرتی طور پر پاکستان کو ڈرانے دھمکانے اوربالادستی قائم کرنے کا ہوگا کیونکہ ایساکئے بغیر نہ تو کشمیر کے دونوں حصوں کو متحد کیا جاسکتا ہے‘ نہ ہی بھارتی مسلمانوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔اس سیاسی اور عسکری کارروائی کو چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے جب بھارت کو S 400 ABMسسٹم اور رافیل لڑاکا جہاز مل جائیں گے۔
لگتا ہے کہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے افغانستان کے بارے میں اپنی پلاننگ تبدیل کر لی ہے۔ ممکن ہے بھارت نے روایتی عیاری سے کام لیتے ہوئے امریکہ کو افغانستان سے اپنے انخلا میں تاخیر کیلئے کہہ دیا ہو تاکہ پہلے پاکستانی فوج کو اس محاذ پر ملوث رکھا جائے اور پھر اس خطے میں اثرورسوخ اور بالادستی قائم کرنے کیلئے امریکہ کو اپنا ایک اڈہ کشمیر میں شفٹ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ امریکہ کیلئے یہ ایک مسحور کن پیشکش ہوگی۔ساری بھاگ دوڑ اسی لئے ہو رہی ہے۔ چین کو اس منصوبے کا پورا ادراک نہیں ہو رہا اور سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہونے کے باوجودشاید پاکستان بھی سر پر منڈلانے والے اس خطرے کو پوری طرح محسوس نہیں کر سکا‘ نہ ہی دوسرے سٹیک ہولڈرز کو اس خطرے کا احساس دلا سکا ہے۔ پاکستان کے ساتھ چین اور روس کو بھی بھرپور انٹیلی جنس آپریشنز کی مدد سے مذکورہ بالا منصوبے کا بغور احاطہ اور ادراک کرنا چاہئے۔
اور اب سب سے اہم سوال کہ پاکستان کیا کرے؟ محض سفارتکاری کے ذریعے ہم نے اب تک جو کچھ حاصل کیا‘ اس سے زیادہ کی توقع کرنا عبث ہے۔ دنیا بھارتی مظالم سے بخوبی آگاہ ہو کر اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ اس نے پاکستان اور بھارت کو تحمل کا مشورہ دیا ہے اور وہ نہیں جانتی کہ بھارت نے تحمل کا رتی بھر مظاہرہ نہیں کیا؛ چنانچہ یہ بالکل واضح ہے کہ مہذب اپروچ کا یہ سبق صرف ہمارے لیے ہے۔ سیاسی اور قانونی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے بھی ڈپلومیسی اور فوجی ایکشنز کی بڑی گنجائش موجود رہتی ہے اور اس سمت میں ہم ایک انچ بھی پیش رفت نہیںکر سکے۔ جارحیت کو روکنے کیلئے کوئی بھی اقدام دفاعی ڈومین پر انحصار کرتا ہے اور اس کیلئے پیشگی حملے یعنی Pre-emption کا نظریہ بھی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ اس کی جرأت اورحوصلہ رکھنے والے اسے کئی مرتبہ آزما بھی چکے ہیں۔ خطرات میں گھرے کسی چھوٹے ملک کوجب بھی اس کی ضرورت پڑی اس نے پوری قوت بہادری اور برق رفتاری سے ایسی کارروائی کی۔
کشمیری اور پاکستانی عوام کا مورال برقرار رکھنا ہوگا۔امریکہ کو بھی باور کرانا ہوگا کہ اب افغانستان میں فری خدمات کا زمانہ لد چکا ہے۔ افغانستان میں امن کسی اور کے ذریعے نہیں صرف چین، روس، ایران، پاکستان اور خود افغان عوام کی مدد سے قائم ہو سکتا ہے۔ دوسرا گروپ تو صرف امن کی ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے والوں کا ہے۔ اس کا جتنا جلد ادراک ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ امریکہ نے کشمیر میں بھارتی مظالم کی روک تھام کیلئے اس پر دبائو ڈالنے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی‘ اس لئے پاکستان کے ذریعے افغانستان کو امریکی لاجسٹک سہولیات پر بھی از سر نو مذاکرات کئے جانے چاہئیں۔ مشرق وسطیٰ کے اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی برابری کی سطح پر ڈیل کیا جائے۔
کوئی قوم اتنی ہی بہادر ہوتی ہے جتنی اس کی قیادت بہادر ہو۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں