عورت کا تحفظ… مگر کیسے؟

لاہور‘ سیالکوٹ موٹر وے پر پیش آئے سانحے کے بعد ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غم زدہ ہے۔ اس سے چند روز قبل ہی کراچی میں ننھی بچی مروہ کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے قتل کیے جانے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ زیادتی کے بعد مروہ کو کوئی بھاری چیز سر پر مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ایک خالی پلاٹ کے قریب کچرا کنڈی سے اس کم سن بچی کی بوری بند لاش ملی تھی۔ پے در پے ایسے دل فگار واقعات کے بعد ہر بچی سہمی ہوئی ہے اور ہر لڑکی کانپ رہی ہے۔ ہر عورت پھٹی پھٹی آنکھوں سے خلا میں گھور رہی ہے اور خود سے سوال کر رہی ہے کہ اس کا عورت ہونا جرم کیوں ٹھہرا۔ آج سے پہلے کوئی عورت اس معاشرے میں خود کو اتنا غیر محفوظ نہیں سمجھ رہی تھی‘ جتنا 9 ستمبر کے واقعہ کے بعد سمجھ رہی ہے۔ اس بے چاری کو یہ نہیں پتا کہ وہ جس معاشرے میں سانس لے رہی ہے وہاں عورت کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کا ذمہ دار اسے ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر کسی عورت کا گھر نہ بس سکے تو وہی قصور وار ہے کیونکہ وہ سگھڑ نہیں، خوبصورت نہیں۔ راہ چلتے اس عورت کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی کرے تو وہی یعنی عورت ہی قصور وار ہے کیونکہ وہ لباس مناسب نہیں پہنتی، چادر نہیں اوڑھتی۔ اگر چادر اوڑھ لے تو کہا جاتا ہے کہ حجاب نہیں اوڑھتی، حجاب لے تو عبایا یا برقع پہننے کا کہا جائے گا، غرضیکہ ایک طویل فہرست ہے جس کا مقصد کسی نہ کسی طرح محض عورت کو قصور وار ٹھہرانا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر عورت کو کوئی زیادتی کا نشانہ بنائے تو بھی ذمہ دار وہی ٹھہرائی جائے گی کیونکہ اس نے اپنی حفاظت خود نہیں کی، گھر سے باہر نکلتے ہوئے کسی محرم کو ساتھ نہیں لے کر گئی۔ عذر تراشنے والے کسی بھی چیز کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ ابھی میں عورت کے یہ گناہ انگلیوں کی پوروں پر گن ہی رہی تھی کہ ایک اور خبر نظر سے گزری کہ ایک عورت کو بچوں کے سامنے اس کے گھر پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اب یہ کون سی موٹروے تھی‘ کون سا راستہ تھا جہاں پولیس نے اپنی نفری تعین نہیں کی تھی؟ یہ تو عورت کا گھر تھا۔ وہ چار دیواری میں تھی، اس کے بچے اس کے ساتھ تھے‘ یہاں تو اس کے لباس، اس کے کپڑوں پر بھی اعتراض نہیں کیا جا سکتا جن کی وجہ سے کسی کو شہ ملی ہو۔
ایک طرف ہمارے معاشرے کا عالم یہ ہے کہ لوگ قانون کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتے‘ اگر تسلیم کرتے ہیں تو قانون پر عمل درآمد ضروری نہیں سمجھتے، دوسری طرف حال یہ ہے کہ بہت سے طبقات کی نظر میں ہمارے موجودہ قوانین ہمیں محفوظ رکھنے کے لئے ناکافی ہیں۔ بہت سے ایسے معاملات ہیں، ایسی جدتیں ہیں جو قانون کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں، یا اس حوالے سے ابھی قانون سازی کا فقدان ہے۔ پھر قانون پر عمل درآمد ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہاں قانون بن بھی جائے تو عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔ ریپ کرنے والے کے لئے سزائے موت کی بات کی جائے تو انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں نام نہاد انسانی حقوق کا نعرہ لگا کر میدان میں اتر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ شخص‘ وہ درندہ جو عورت کی زندگی‘ اس کے معصوم بچوں اور پورے خاندان کو توڑ پھوڑ کا شکار کر دے، اس کی روح تک کو گھائل کر دے‘ جس کے ایک جرم کی وجہ کئی گھرانے تباہ ہو جائیں، جس کی وجہ سے کئی عورتیں خود کشی کر لیں، اس کے حقوق کا خیال رکھنا ہم پر فرض ہے یا اس عورت اور اس کے خاندان کا جو اس ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں، جو ہر پل ایک نئے کرب سے گزرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ وہ عورت جو اس جہنم سے گزرتی ہے‘ ایک پل میں کتنی بار مرتی ہو گی؟ وہ ہر ایک سے اپنا چہرہ چھپاتی پھرتی ہے، بھلے وہ مظلوم ہے، لیکن خود کی نظر میں‘ اپنے خاندان کی نظر میں اور ہمارے معاشرے کی نظر میں وہی قصور وار سمجھی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس جرم کے بعد بھی‘ مجرم تو سر عام دندناتے پھر سکتے ہیں لیکن وہ مظلوم کسی سے نظریں بھی نہیں ملا سکتی، وہ نفسیاتی طور پر مردہ ہو جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ کسی بھی موقع پر سماجی و نفسیاتی سطح پر اس کی سپورٹ نہیں کرتا۔ اول تو ایسے جرائم کو رپورٹ کرنے کی شرح ہی بہت کم ہے‘ بالفرض جرم رپورٹ ہو جائے تو اس کے بعد میڈیکل سمیت کئی ایسی جھمیلے ہیں جن میں پڑنے کے بجائے خواتین کیس سے دوری اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں اور کیس کی عدم پیروی پر ملزم چند دنوں میں چھوٹ کر باہر آ جاتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ظلم و ستم کا شکار خواتین پر مزید ظلم ڈھانے کے بجائے ریاست ان کی داد رسی کرے اور اس جرم کو ریاست کے خلاف جرم کے طور پر لیا جائے اور خواتین کو بار بار تھانے کچہری کے چکر لگوانے کے بجائے ایسی قانون سازی کی جائے کہ سائنسی و تکنیکی بنیادوں پر مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا ممکن ہو سکے۔
سوشل میڈیا پر تو بھانت بھانت کے بیانات دیے جاتے ہیں لیکن بیشتر افراد کے اندر جھانک کر دیکھو تو وہ یہی کہتے پائے جائیں گے کہ عورت گھر سے باہر کیوں نکلی؟ ایسے تنگ و باریک کپڑے کیوں پہنے؟ کسی محرم کو ساتھ کیوں نہ رکھا؟ اس موقع پر مذہب کی آڑ لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا‘ حالانکہ اگر عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تو مردوں کو بھی اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن مرد کو کوئی یہ نہیں سکھاتا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو، اپنے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھو۔ ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر مرد حضرات یہ تو سیکھ لیتے ہیں کہ اپنی ماں، بیٹی اور بہن کی عزت کیسے کرنی ہے لیکن وہ کبھی عورت کی عزت کرنا نہیں سیکھ پاتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی عورت کو معاشی اور سماجی سطح پر کافی حد تک آزادی میسر ہے لیکن آزادی کے ساتھ عزت بھی دی ملتی تو ہمارے معاشرتی مسائل کافی حد تک کم ہو چکے ہوتے۔ تمام والدین کو اپنی بیٹیوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ بیٹوں کو بھی یہ تعلیم دینا ہو گی کہ ہر عورت کی تکریم اتنی ہی ضروری ہے جتنی اس کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی۔ سب سے بڑھ کر اگر مرد کی تربیت میں اس بات پر خصوصی توجہ دی جائے کہ عورت کو اذیت و تکلیف دینا مردانگی نہیں بلکہ کم ظرفی اور کمزوری کی علامت ہے تو یقینا مرد عورت کی عزت کو اپنی عزت سمجھے گا۔
اس ضمن اہم بات یہ بھی ہے عورت کی اس حد تک تذلیل کہ اس کے معصوم بچوں کے سامنے اس کی عزت کی دھجیاں اڑا دی جائیں‘ ایک نارمل ذہن کا آدمی ایسا نہیں کر سکتا، بیمار ذہن کے مرد اس بات کی حساسیت کو نہیں سمجھ سکتے، اس لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں کوئی بھی جواز گھڑ سکتے ہیں‘ کوئی بھی توجیح پیش کر سکتے ہیں۔ نفسیات کے اعتبار سے عورت کا ریپ کرنے کے پیچھے سب سے بڑا محرک یہ ہے کہ وہ عورت پر غلبہ چاہتا ہے اور اس کو کمزور ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس نام نہاد مردانگی کے زعم میں عورت کو ذہنی اور جسمانی اذیت سے دوچار کرتا ہے۔ اس لئے اس ذہنیت کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مرد کی طاقت عورت کو تحفظ دینے میں ہے‘ چاہے وہ کوئی بھی عورت ہو‘ ناں کہ اس کی عزت تار تار کرنے میں۔ 
اگرچہ یہ محض ایک عورت کی خواہش ہے اور ابھی ہمیں خیالی پلاؤ لگتا ہے مگر اس خواب کو حقیقت کا روپ‘ قانون کے ادارے سخت سزا کے ذریعے، ماں اپنی تربیت سے اور استاد تعلیم سے دے سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

نازیہ جبین کے مزید کالمز