چند برس ہوتے ہیں، مغربی تحقیقی ادارے آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیویلپمنٹ انیشیٔٹو نے 104ایسے ممالک میں غربت کامطالعاتی جائزہ لیا، جہاں دنیا کے 80 فیصد لوگ آباد ہیں۔ مطالعاتی جائزے میں غربت کی پیمائش کے لیے صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی تک رسائی اور بجلی کی دستیابی جیسے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا۔ اِس جائزے کے مطابق بھارت کی آٹھ ریاستوں میں رہنے والے غریب افراد کی تعداد سب صحارا (افریقہ) کے غریب ترین 26 ممالک سے بھی کہیں زیادہ نکلی، لیکن محققین کے لئے سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ ایک ارب 70 کروڑ کی آبادی کے جنوبی ایشیا میں 51 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کے دائرے میں آتے تھے، جن میں سے ستر فیصد بھارت میں آباد اور انتہائی زیادہ غریب تھے۔ محققین حیرت زدہ تھے کہ بھارت میں غربت اور محرومی کی شدت افریقی ممالک سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ عالمی اداروں کے محققین کے لئے حیرت اور چونکادینے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اُس وقت پوری دنیا میں ''شائننگ انڈیا‘‘ کا ڈھنڈورا اِس زور و شور سے پیٹا جارہا تھا کہ دنیا سمجھنے لگی تھی کہ بھارت پسماندہ ممالک کی پچھلی صف سے نکل کر اچانک ترقی یافتہ ممالک کی اوّلین صف میں کھڑا ہوگیا ہے، لیکن دوسری جانب حقیقت یہ تھی کہ بھارتی آبادی کے تیس فیصد حصے کو تعلیم، صحت، پانی، سیوریج سسٹم اور بجلی جیسی بنیادی انسانی ضروریات سرے سے دستیاب نہ تھیں۔ اِسی غربت کے باعث بھارت میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ نکلی،جہاں ہر سال ایک کروڑ 40 لاکھ بچے اپنی زندگی کی پانچ بہاریں بھی دیکھ نہیں پاتے اور موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔ یہ بھارت ہی تو ہے جہاں 60 فیصد لوگ چھت جیسی نعمت سے محروم اور کھلے آسمان تلے اپنی زندگی کے روز و شب گزارنے پر مجبور ہیں۔
غربت کے اس قدر ہلاکت خیز اعداد و شمار کی وجہ یہ نہیں کہ بھارت میں وسائل کی کمی ہے، بلکہ سب سے زیادہ افرادی قوت اور وسائل رکھنے کے باوجود غربت کی شدت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت اپنے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنا کر ترقی کرنے کی بجائے بڑی فوجی قوت بن کر ''ترقی‘‘ کے خواب دیکھتا چلا آرہا ہے اور اِس مقصد کے لئے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ دفاعی اخراجات کرنے والوں میں سرفہرست ہے۔ مثال کے طور پر تیرہ لاکھ سرگرم فوجیوں کے ساتھ عددی اعتبار سے بھارتی فوج دنیا کی تیسری سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ اسی بھارت کی ستر فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور وہی بھارت اِس وقت دنیا کا سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک ہے۔ اپنے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کے بجائے بھارت جنگی ہتھیار اور اسلحہ خریدنے پر اس قدر توجہ دے رہا ہے کہ بھارت کی سالانہ دفاعی خریداری 80 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ریکارڈ کی جاچکی ہے۔
اسلحے کی اسی خریداری کی وجہ سے بھارت کے سر پر ہر وقت جنگی جنون اور خون سوار رہتا ہے اور بھارت اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بھی ہر وقت لڑنے بھڑنے پر تلا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریہ بھارت کے شمال مشرق میں چین، بھوٹان اور نیپال جبکہ میانمار اور بنگلہ دیش بھارت کے مشرق میں واقع ہیں اوربھارت کے مغرب میں پاکستان موجود ہے۔ مجبوریوں کی بات اور ہے، ورنہ اِن تمام ممالک میں سے کوئی ایک پڑوسی ملک بھی بھارت سے خوش نہیں، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے اپنے ہر ہمسایہ ملک کے ساتھ سنگین نوعیت کے تنازعات حل طلب چلے آ رہے ہیں۔ ان تنازعات کو حل کرنے کی بجائے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت نے تمام پڑوسی ممالک کے خلاف ''پراکسی وارز‘‘ شروع کررکھی ہیں۔ اِن پراکسی جنگوں کے دوران بھارت اپنے پڑوس میں واقع (بھوٹان، نیپال، میانمار اور بنگلہ دیش جیسے) نسبتاً چھوٹے ممالک کی مختلف معاشی طریقوں سے ناطقہ بندی کرکے انہیں دباؤ میں رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ سائز کے اعتبار سے پاکستان جیسے درمیانے ممالک کو بھارت دوبدو جنگیں لڑکر اپنا مطیع بنانے کا خواب دیکھتا رہتا ہے، لیکن چار جنگیں لڑنے کے باوجود منہ کی کھاچکا ہے، جبکہ چین جیسے بڑے ممالک کو بھارت چونکہ دباؤ میں نہیں لاسکتا اور نہ ہی اُس کے خلاف جنگ لڑنے کا سوچ سکتا
ہے، اس لیے چین کے خلاف بھارت مسلسل سازشوں میں مصروف رہتا ہے، جس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت، پاکستان اور چین کے معاشی اتحاد سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ بھارت کہیں پاکستان اور چین کے خلاف کھلی جنگوں میں مصروف نظر آتا ہے تو کہیں سازشوں کے ذریعے اپنے مکروہ عزائم پورے کرنا چاہتا ہے۔ اِسی سازش کے تحت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پہلے دن سے ہی بھارت کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔ اس گیم چینجر منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے بھارت نے ایک جانب ایران کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ پر مضحکہ خیز سرمایہ کاری شروع کی تو دوسری جانب پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کردیا۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ پاکستان کے ساتھ ملحق سرحدی افغان صوبوں میں قائم بھارت کے قونصل خانے خطے میں کیا گل کھلانے کے لئے موجود ہیں؟ لیکن بھارت کے اِن تمام حربوں کے باوجود بھارتی خفیہ ادارے ''را‘‘ کے حاضر سروس ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی پاکستان میں گرفتاری سے نا صرف عالمی سطح پر بھارت کی پراکسی وار کا بھانڈا پھوٹ گیا بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے کی جانے والی سازشیں بھی بے نقاب ہوگئیں۔ ''را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت ابھی اپنے زخم چاٹ ہی رہا تھا کہ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھارت کو اُس وقت شدید دھچکا لگا جب چین نے بھارت کے وہ تمام اعتراضات مسترد کردیے، جو بھارت نے پاکستان کے حوالے سے چین کے ساتھ اُٹھائے تھے۔ اس کے بعد ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنے والے حواس باختہ بھارتی ایجنٹوں نے پہلے بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لئے سانحہ کوئٹہ کی منصوبہ بندی کی اور پھر روشنیوں کی طرف لوٹتے کراچی کو دوبارہ اندھیروں میں دھکیلنے کے لئے لندن میں بیٹھے اپنے پالتو بھونپو کا منہ کھول دیا۔
قارئین کرام! بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جب سے برسر اقتدار آئے ہیں، وہ ستر سال میں بھارت کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کا ہی اعتراف نہیں کر رہے بلکہ نئے ''جرائم‘‘ بھی کیے جا رہے ہیں اور اُن کا اعتراف بھی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان توڑنے میں اہم کردار ادا کرنے کا اعتراف کیا اوراب بلوچستان میں بھی کھلی مداخلت کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔کوئی دن جاتا ہے کہ نریندرا مودی کے منہ سے کراچی میں کھیلے جانے والے خطرناک اور مکروہ کھیل کا اعتراف بھی نکل جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم کے اعترافات کے بعد یقیناً صیاد تو خود اپنے دام میں آچکا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام عالم جنوبی ایشیا کے عوام کو غربت کے پھندے میں پھنسانے والے اِس ''شکاری‘‘ اور اپنے پڑوسیوں کا جینا حرام کرنے والے اقراری مجرم کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ مودی کے اعترافات کے بعد اب کشمیر کاموقف اجاگر کرنے کے لئے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مقرر کردہ 22 ایلچیوں کا بھی امتحان شروع ہو رہا ہے کہ وہ اقراری مجرموں کو کٹہرے میں لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟