کچھ شخصیات اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی مخلوق ہوتی ہیں۔ قدرت ان کی زندگی اور کردار کا تعین کرتی ہے اور تاریخ ان شخصیات کو بلند مقام عطا کرتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا شمار بھی اللہ تعالیٰ کی غیرمعمولی مخلوق میں ہوتا ہے جن کے متعلق فیض احمد فیض نے فرمایا تھا:
''جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے‘‘
طویل جلاوطنی کے بعد 2007 ء میں وطن واپسی سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اپنے مضمون میں لکھا تھا:-
''اس زندگی کا میں نے انتخاب نہیں کیا بلکہ اس زندگی نے میرا انتخاب کیا ہے‘‘
محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جس خاندان میں جنم لیا، سیاسی اور سماجی اعتبار سے انتہائی اعلیٰ اور تعلیم یافتہ خاندان تھا، دسمبر 1971 ء میں قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو تنکوں کی مانند بکھیر دیا گیا۔ یہ بھٹو خاندان کے چشم و چراغ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید ہی تھے جنہوں نے اپنی خداداد قابلیت سے راکھ کے ڈھیر بنے ہوئے پاکستان کی ازسرِ نو تعمیر کی۔ معروف صحافی، دانشور اور شاعرسید عباس اطہر مرحوم نے لکھا تھا کہ تین سو سال قبل حضرت پیر وارث شاہ نے کہا تھا ؎
وارث شاہ پنجاب دی ونڈ ہوسیں تے کجھ حصہ قصور دا جاوسیں گا
پُت سندھڑی دا حکمران ہوسیں بنا عدل جو ماریا جاوسیں گا
روایت ہے کہ 21جون 1953 ء کو جب قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کو بیٹی کی صورت میں محترمہ بینظیر بھٹو عطا ہوئیں تو قائد عوام بھٹو بہت خوش تھے اور اپنے احباب سے مخاطب ہو کر فرما رہے تھے۔ آج میری بیٹی کے جنم کی خوشی میں سورج بھی غروب ہونا بھول جائے گا۔ اگر وقت الٹی سمت چلنے لگے اور میری ملاقات قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو سے ہو جائے تو میں ان سے یہ سوال ضرور کرتا کہ آپ اور مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو نے جب اپنی لاڈلی بیٹی کا نام بینظیر رکھا تھا تو آپ کے ذہن میں ان کے مستقبل کا نقشہ کیا تھا؟ مگر جب 21جون 1978ء کو قائدعوام بھٹو کی طرف سے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کے موقع پر لکھے ہوئے خط کے اقتباسات یاد آتے ہیں تو ہر سوال کا جواب ملتا ہے۔ قائد عوام بھٹونے اپنے خط میں لکھا تھا ''پنڈت لال نہرو بھی اپنی بیٹی اندرا کو خطوط لکھتے تھے، میں تمھاراموازنہ ہرگز اندرا کے ساتھ نہیں کروں گا۔ جن حالات کا تم سامنا کر رہی ہو اندرا نے ان حالات کا سامنا نہیں کیا ۔ تم ایک ایسی وحشی اور بے شرم آمریت کا مقابلہ کر رہی ہو جس نے تمہارے چاروں طرف آگ جلا رکھی ہے ،تم اپنی ماں کے ساتھ قید ہو۔ ایک قیدی باپ اپنی انتہائی پیاری بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر کیا تحفہ دے سکتا ہے۔ آج میں اپنے عوام جن سے میں عشق کرتا ہوں ، کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے رہا ہوں۔ یہ میری دیانتدارانہ رائے ہے کہ تم مجھ سے زیادہ ذہین اور قابل ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم میرے عوام کی مجھ سے زیادہ خدمت کرو گی۔ آسمانوں کی جنت ماں کے قدموں میں ہے اور سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے۔‘‘
دراصل قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خط کے ذریعے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو اپنا سیاسی جانشین نامزد کرتے ہوئے نصیحت بھی کی اور وصیت بھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اپنے شاعر اور انقلابی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آرام دہ زندگی گزارنے کی بجائے زندان کو اپنا مسکن بنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کمپیوٹر نہیں تھا اور نہ ہی ذرائع ابلاغ نے ترقی کی تھی۔ ایک 24 سال کی نازک لڑکی جس نے کبھی بھی اپنے والد اور اپنی والدہ کی ڈانٹ تک نہ کھائی تھی ایک ایسے فوجی ٹولے کی مزاحمت کرنے کے لئے سامنے آئی جس ٹولے نے بندوق کے زور پر اپنے ہی ملک کو فتح کیا تھا اور وطن کی آزادی کو رہن رکھ کر اقتدار حاصل کیا تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا واسطہ اس ذہنیت سے بھی پڑا تھا جن کے لیے کفر کے فتوے جاری کرنا، غدار اور گردن زدنی قرار دینا کوئی معیوب بات نہیں تھی اور وہ لوگ ترقی، انسانی آزادی اور شعور کو بغاوت تصور کرتے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے بندوق کی نوک پر ملک پر قبضہ کرنے اور کفر کے فتوے جاری کرنے والوں سے مقابلہ کیا۔ انہیں قید رکھنے والے اس خوش فہمی کے شکار رہے کہ بھٹو کی بیٹی کو قید کرکے اپنی بہادری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ سورج کی کرنوں کو پسِ زنداں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کے میڈیا پر پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کے ذریعے قدغن لگانا ان کے بس میں تھا مگر عالمی میڈیا کو زیر کرنا ممکن نہیں تھا۔ زندان کی مکین محترمہ بینظیر بھٹو قید میں رہ کر ملک میں جمہوریت کے لئے جاری جدوجہد کے علمبرداروں کے لیے حوصلہ کا نشان بن گئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو خالی ہاتھ ایک طاقتور ٹولے کی مزاحمت کرتے دیکھا تو انقلابی اور عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا ع
''ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘‘
حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی کسی سے لڑائی نہیں تھی بلکہ ان کی جدوجہد کا مقصد، انسانی آزادی، کچلے ہوئے طبقات کے لئے سماجی اور معاشی انصاف کا حصول تھا۔
اگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی 54 سال کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تیس سال کی زندگی آمریت کے پالے ہوئے عناصر کی مزاحمت میں گزری۔ بات صرف اتنی تھی کہ وطن کی آزادی ، قوم کی خودداری ، جمہوریت، انسانی آزادی اور سماجی انصاف ان کی سیاست اور مشن تھا۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شخصیت میں ڈر، خوف اور اصولوں پر سمجھوتہ شامل نہیں تھا۔ وہ زندگی بھر برداشت، درگزر اور مفاہمت کی امین رہیں۔ طویل جلاوطنی کے بعد 18اکتوبر 2007 ء کو جب وطن واپس تشریف لائیں تو ان کا مقصد صرف 1973ء کے آئین کی اس کی اصل صورت میں بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی تھا۔ 27 دسمبر 2007ء کی شام شہادت سے تھوڑی دیر قبل آپ نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ یہ دھرتی مجھے پکار رہی ہے، میں سوات میں دوبارہ قومی پرچم لہرائوں گی۔ جی ہاں دھرتی نے انہیں صدا دی تھی اور جان کا نذرانہ مانگا تھا۔ انہیں جان سے مارنے کی محض دھمکیاں نہیں دی گئی تھیں بلکہ ان کے راستے میں ہر قدم پر بارودی سرنگیں بچھائی گئی تھیں اور خودکش بمبار ان کے تعاقب کے لئے چھوڑے گئے تھے مگر انہیں اپنی جان کی پروا تھی نہ ہی موت کا خوف۔ انہوں نے پاکستانی غیور اور محب وطن عوام کے درمیان مسکراتے ہوئے ہاتھ لہراتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کیا کہ دھرتی اور عوام سے محبت کرنے والے شان سے جیتے ہیں اور شان سے موت قبول کرتے ہیں۔
***
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا واسطہ اس ذہنیت سے بھی پڑا تھا جن کے لیے کفر کے فتوے جاری کرنا، غدار اور گردن زدنی قرار دینا کوئی معیوب بات نہیں تھی محترمہ نے بندوق کی نوک پر ملک پر قبضہ کرنے اور کفر کے فتوے جاری کرنے والوں سے مقابلہ کیا۔ انہیں قید رکھنے والے اس خوش فہمی کے شکار رہے کہ بھٹو کی بیٹی کو قید کرکے اپنی بہادری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ سورج کی کرنوں کو پسِ زنداں قید نہیں کیا جا سکتا