پاک ٹی ہائوس زندہ باد

الحمد للہ عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں کہہ سکتی ہوں اپنے کم عمر ملک کی تاریخ کو بنتے اور بگڑتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ شعور نے آنکھ کھولی تو جس خطّے سے تعلق تھا اس میں پانچ لش لش کرتے دریا بہتے تھے۔ کھیتیاں سرسبز اور اناج سے لدی تھیں ،سڑکیں گلیاں گھر وافر بجلی کی وجہ سے دگ دگ دمکتے تھے۔ انڈسٹری ترقی کررہی تھی۔ انگریز کی دی ہوئی ریلیں چھکا چھک چلتی تھیں۔ پی آئی اے کو دنیا کی بہترین ایئر لائن سمجھا جاتا تھا۔ نوجوان نسل اعلیٰ تعلیم کو تڑپتی تھی۔ آزادی اور امن کے علاوہ کسی صوبے کا کوئی تھیسس نہ تھا ۔ لاہور لاہور تھا یعنی تعلیم ،ثقافت ،سیاحت اور ’’جی آیاں نوں‘‘ کا شہر ۔گلزار ،خشونت سنگھ، سنیل دت، کامنی کوشل جیسی اس مٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیتیں یہاں واپس آنے کو تڑپتی تھیں۔ مال روڈ چھتنا رے پیڑوں سے ڈھکی تھی اور اصلی اشرافیہ (نودولتیے نہیں ) شام ہوتے ہی وسیع تر آبادی کے بے کراں سمندر سے پاک مال روڈ پر سیر کو نکلا کرتی تھی۔ سرخ رنگ کی ڈبل ڈیکرز بغیر کسی دھکم پیل کے آبادی کو اپنی اپنی منزل پر لے کر جاتی تھی۔ مولوی مسجد تک محدودتھا فن کار اپنے فن کی مہارت حاصل کرنے میں مگن، فلم انڈسٹری زندہ و پائندہ تھی۔ ادیب ،دانشور اور جرنلسٹ روزمرہ مصروفیات سے فارغ ہوتے ہی لاہور کے مشہور ترین پاک ٹی ہائوس میں جمع ہوجاتے تھے ۔ شروع میں نوجوان طالب علم ہونے کے ناتے میں خود وہاں بہت کم جاسکی ۔ لیکن میرے دونوں مرحوم ،ادب اور موسیقی کے رسیا ،بڑے بھائی احمد بشیر اور اختر عکسی شامیں باقاعدگی سے وہاں گزارتے تھے۔ تقسیم سے پہلے پاک ٹی ہائوس انڈیا ٹی ہائوس کہلاتا تھا اور ہندوپاک کے نابغہ ٔ روز گارادیبوں شاعروں کا ڈیرہ تھا۔ ادیبوں شاعروں کے کیفے ٹیریا ز اور مخصوص چائے خانے بین الاقوامی طورپر ادبی ثقافت کا لازمی حصہ رہے ہیں۔ فرانس ،چین ،روس ،امریکہ ، انڈیا، ترکی تمام ممالک میں ادیبوں کے لیے شامیں گزارنے کے لیے سستے چائے خانے زمانوں سے قائم ہیں۔ پاک ٹی ہائوس کمرشل بلڈنگ مال روڈ کے بالکل سامنے ایک پرانے زمانے کے دومنزلہ مکان میں قائم تھا۔ ایک صدی پہلے ادبی شاعروں کا اوڑھنا بچھونا صرف اپنی تخلیق ہی ہوا کرتی تھی۔ روایتی طورپر وہ مفلوک الحال ہوا کرتے تھے۔ آج کی طرح نہ ان کو بِکنے کا چلن آتاتھا ،نہ خریدارہی اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھاتا تھا ۔صرف ادیب اپنے قلم کی حرمت ہی سر پر سجا کر جیتے تھے۔ انڈیا ٹی ہائوس (موجودہ پاک ٹی ہائوس) 1940ء کے لگ بھگ یہاں کے ادیبوں نے اپنے ڈیرے کے طورپر قائم کیا تھا ۔ اس وقت کے نامور ادیبوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو انڈیا ٹی ہائوس کی معصوم اور ذہین محفلوں میں شامل نہ ہوا ہو۔ ان میں سے کچھ کی تصاویر نئے ٹی ہائوس کی دیواروں کی حرمت کے طورپر موجود ہیں۔ جب برصغیر ٹکڑوں میں بٹا اور لاہور پاکستان بن گیا تو ہمارے ادیبوں نے اسے پاک ٹی ہائوس کا نام دیا۔ یہ ایک انتہائی خستہ حال عمارت تھی۔ اس میں باتھ روم تک موجود نہ تھا۔ ٹوٹی ہلتی کرسیاں اور روں روں روتے پنکھے۔ بے رنگ وروپ پیالیوں میں ایک ایک روپے کی چائے ، لیکن یہیں کسی کونے میں آپ کو فیض بھی مل جاتے تھے ،منٹو بھی ،ممتاز مفتی بھی اور احمد بشیر بھی۔ پاک ٹی ہائوس کی ناقابلِ فراموش خصوصیت یہی تھی کہ یہاں لیفٹ کے لوگ بھی ہوتے تھے، رائٹ کے یعنی کٹر رجعت پسند بھی اور ترقی پسند بھی۔ بحث مباحثے بھی جاری رہتے تھے لیکن کرودھ اور نفرت سے الگ ۔ایک شاعر کے پاس چائے کا بل نہیں ہوتا تھا تو ساتھ والا نظریاتی مخالف اس کا ایک روپیہ اپنی جیب سے نکال کر دے دیتا تھا۔ پاک ٹی ہائوس اپنی تمام تر خستہ حالی کے باوجود لاہوری ثقافت کے ماتھے کا جھومر تھا۔ پھر زمین کو زلزلوں نے گھیر لیا۔ ہر ادارے ، ہرشعبے ،ہرموجودکو حکمرانوں نے غیر موجود کرنا شروع کردیا۔ قوم اس قابل نہ تھی کہ قومیت کے اصل مغز کو سمجھ سکتی۔ صورپھُنکا تو شہر بدلے ،انسانوں نے کینچلیاں بدلیں۔ مارو لوٹو،بِکو خریدو کی ڈھنڈیا پٹی تو لاہور شہر کا چہرہ بھی داغ داغ ہوگیا۔ سائنس ٹیکنالوجی تو ہم لوگوں کے لیے زبانِ یارِ من ترکی ہی رہی، بس قدم قدم شاعر اُگنے لگے۔ شاعر ،سیاستدان اور جرنلسٹ تینوں ہی ملکی اتوار بازار کی مہنگی دکان بن گئے یعنی ان کی اکثریت( اقلیت آخر کس گنتی میں آتی ہے) اِکادُ کا احمد بشیر صفدر میر وغیرہ تھے تو بس تھے۔ آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا۔ ٹی ہائوس آخر پیچھے کیوں رہتا۔ ادبی محفلوں کے عادی ،حلقہ ارباب ذوق کے شیدائی ٹی ہائوس کے کھنڈر میں جاکر روں روں پرانے پنکھے تلے اظہار خیال نہ کرتے تو کیا کرتے۔ شدید موسم گرما میں ایک آدھ بار میں حلقۂ اربابِ ذوق گئی تو لگا لمحہ آخرت پہنچ چکا ہے۔ ایک گھونٹ آکسیجن کے لیے دُڑکی لگاکر سڑک پہ آن پہنچی۔ پر کمرشلزم اور مارا ماری نے ٹی ہائوس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مالک نے کہا میں سستے داموں ادیب نہیں آنے دوں گا۔ قلم کی وقعت ہی کیا ہے ۔ ٹی ہائوس کا بند ہوجانا ادیبوں شاعروں کے لیے ان کا پمپیائی ڈھے جانے کے مترادف تھا۔ ہاہا کار پڑ گئی۔ گورنر صاحب خالد مقبول جنرل صاحب بھی تھے۔ فوجی ،سیاسی اور دولت مند تینوں ایک شخص میں یکجا ہوجائیں تو ادب چہ معنی دارد۔ جب ادیبوں اور پریس نے بہت واویلا مچایا تو جنرل صاحب نے اپنی فوجی چھڑی گھمائی ،کھل جا سم سم ۔ادیبوں کے لیے الحمرا آرٹ کونسل کی ایک فل سائز بیٹھک کھل گئی۔ پر میں نے لندن میں کچھ دیر رہ کر دیکھا۔ کچھ شرابی کسی ایک پب میں شام گزارنے کے عادی ہوجائیں تو زندگی کی آخری شام بھی وہیں پڑے ملتے ہیں۔ ادیب شاعر بھی شہد کی ان مکھیوں کی طرح ہوتے ہیں جو زندگی کا رس چوس کر شام کو اپنے ہی چھتے میں بھن بھن کریں ، جنرل صاحب کی ٹی ہائوس تلافی یعنی الحمرا بیٹھکوں میں مذہبی، فرقہ پرستوں کی محفلیں ہونے لگیں اور اپنے چائے خانے کے عادی ادیب شاعر وہاں کھلی ہوئی ٹائروں کی دکان دیکھ دیکھ کر سینہ کوبی کرتے رہے۔ ہم پرانے لوگ آج کے لاہور کا مقابلہ پرانے لاہور سے کریں تو لگتا ہے، کسی حسین لڑکی کے چہرے پہ غنڈوں نے تیزاب پھینک دیا ہے۔ اس غنڈہ گردی میں من حیث القوم ہم سب شامل ہیں۔ ہم لوگ ہرگلی ،محلے ،باغ ،باغیچے میں دن بھر تھوکیں نہ تو ہمارا گلا سوکھنا شروع ہوجاتا ہے۔ گھروالی لاہورن کھڑکی میں سے اپنی ہی گلی میں کوڑا نہ پھینکے تو اسے لاہورن کون کہے ؟ پربندے یا شہر جان کنی کے عذاب میں مبتلا ہوں تو کوئی ڈاکٹر یا مسیحا اسے وینٹی لیٹر پہ لگانے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ شہر لاہور کے چہرے پہ تیزاب کے داغ ہیں ۔ لیکن شہروں کے چہرے سجانے کے دلدادہ شہباز شریف نے اپنے بیوٹی کلینک میں لاہور شہر کی فیس لفٹنگ میں قابل تعریف کام کیے ہیں۔ کچھ یادداشتیں ان کے پچھلے دور کی بھی ابھی ہمارے ذہن میں تازہ ہیں ۔سینٹ میری پارک شہر کی ’’ایلیٹ ‘‘شاہراہ پر ایک چنگڑ بستی ہوا کرتی تھی۔ لبرٹی مارکیٹ سے بائیں نکلتے ہی پھٹی پرانی جھگیوں ،غلاظت کے ڈھیر اور لیروں پتیروں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ شیرشاہ سوری اور تاج محل والے شاہجہاں باری باری دونوں ہی شہباز شریف کے خواب میں آئے ،امرتسر سے لاہور پہنچ کر تم نے کلاہ شاہی اپنے سرپہنا اور شہر کے گرتے نظام کو سنبھالا نہیں دیا۔ ہم نے بے شک تعلیم کی بنیادیں نہیں رکھیں شالیمار باغ ،کامران کی بارہ دری ، جی ٹی روڈ تو دی۔ ’’حسن سے پیار کرتے ہوتو اس کا اظہار تو کرو۔‘‘ تب سینٹ میری پارک ، روشن لبرٹی چوک، مین بلیوارڈ پہ گرین باغیچیاں معرض وجود میں آئیں۔ ثقافت کا جنازہ تو ضیاء الحق نے نکال دیا تھا، لیکن لاہور کے چہرے کی کلینزنگ کرنے میں شہباز نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ نظام جوں کا توں رہا ، پولیس ڈبل تنخواہیں کھانے کے باوجود جوں کی توں رہی لیکن شہر کے چیچک زدہ چہرے کو خوبصورت بنادیا گیا۔ اس بات کی تعریف کیے بنا نہیں رہا جاتا، کہ اس شخص کی رگوں میں پارہ گھلا ہوا ہے ،کسی کام کی تکمیل کا بیڑہ اٹھالے تو پھر اسے پورا کرکے ہی رہتا ہے۔ رات بھر جاگے یا ایک پائوں پہ کھڑا رہے۔ میٹرو بس اور پلوں ، انڈر پاسوں نے تو شہر کی ہیئت تبدیل کردی۔ تاریخ میں شہباز شریف امر ہوگئے۔ ہم بطور ایک شہری اپنے شہر کی بہبود سے خوش ہیں۔ لیکن بطور ایک قلمکار پاک ٹی ہائوس کی ادیبوں کو واپسی ،اس کی باوقار ہیئت ،اس کا بین الاقوامی معیاد دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ چند روز پہلے محترمہ تہمینہ صاحبہ کی محنت اور شفقت سے آرگنائزکیے جانے والے لاہور لٹریری فیسٹیول کا سہرا بھی شہباز خاندان کے سر ہی بندھتا ہے۔ محترم آپ ایک مردِ آہن ہیں۔ امید ہے اپنے آنے والے دورِ اقتدار میں آپ ہمیں اس گٹر سے نکالیں گے جہاں ہمیں گرایا گیا ہے۔ تعلیم کی روشنی اور اصل روشنی کی آمد کا انتظار ہے اور اس کے لیے آپ کی واپسی کی دعا بھی ضروری ہے۔ خواہ دوسرے صوبوں کے کرتا دھرتا آپ کو بددعائیں ہی کیوں نہ دیں۔ہم آپ کے خیرخواہ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں