تاریخ میں حیات لافانی پانے والے‘ روس کو زار اور اس کی عیش پرست زارینہ اور ان کے عیاش و خود غرض پیرومرشد سے نجات دلانے کے بعد روس کے زوال پذیر حالات کو اپنے جذبہ حب الوطنی اور تدبر سے گرفت میں لے کر نئی ترتیب وتنظیم دینے والے لینن اور ٹروٹسکی کے مابین ہونے والا ڈائیلاگ ہم جیسے پستی میں گرے ممالک پر 2013ء میں بھی فٹ بیٹھتا ہے۔ 1917ء کے مشہور روسی انقلاب کے دوران لینن اور اس کے بارہ ساتھیوں بالخصوص ٹروٹسکی کے درمیان طرز حکومت لاگو کرنے کے بارے میں سنجیدہ گفتگو اور بحث و مباحثہ جاری رہتا تھا۔ وہ لوگ سچے محب وطن اور عوام الناس کے خیرخواہ تھے‘ ان کو انقلابی بنانے والی وہ بادشاہت اور اس کے مفاد پرست حواری تھے جن کا روس کی بے کراں آبادیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ایک کروڑ فوج جسے جنگ عظیم میں دھکیلا گیا تھا دقیانوسی اسلحے اور بھوک ننگ کی وجہ سے شکست درشکست کھاتی جارہی تھی۔ بیشتر آبادی خوراک‘ تعلیم‘ صحت اور رہائش سے محروم تھی اور وہ اوپر والے بے حس طبقے سے نجات حاصل کرنے کی خواہشمند تھی۔ جرنیل امیر کبیرتھے اور حکومت کی عیاشیوں کے ساتھی بھی۔ میدان جنگ میں کام آنے والے سپاہی یا اس کے خاندان کے ساتھ ان کا کوئی تعلق تھا نہ ان کی کوئی پروا۔ سردی اور بھوک سے پسے خاندان محاذ جنگ سے مسلسل اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کررہے تھے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ صدیوں پرانے جاگیرداری نظام نے کسانوں کو مفلسی اور بھوک کی دلدل میں دھکیل رکھا تھا۔ روزمرہ ضروریات کا فقدان‘ مہنگائی اور بدامنی نے خلقت کو تباہ وبرباد کردیا تھا ۔ ایسے میں خدائے برتر نے اوپر والے لٹیرے طبقے سے نالاں غریب گھروں سے تعلق رکھنے والے لینن اور ٹروٹسکی اور ان کے چند اور پڑھے لکھے ساتھیوں اور مفکروں میں روس کو حالات کی دلدل سے نکالنے کا شعور پیدا کیا اور انہوں نے اپنے قوم کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کی خاطر کمرہمت باندھ لی۔ لینن اور ٹروٹسکی مخلص عوامی لیڈر ہونے کے علاوہ بہت بڑے مفکر اور دانشور بھی تھے۔ لینن مغربی جمہوریت کو عوام الناس کے مسائل کا مکمل حل یا مساوی حقوق کی ضمانت نہیں سمجھتا تھا بالخصوص روس کے اس دور کے دگرگوں حالات میں جب کہ جنگ عظیم اوّل نے بہت سی اقوام کو تباہی کے غار میں دھکیل دیا تھا۔ اس طوفانی دور میں وہ مزدوروں‘ کسانوں اور سپاہیوں کی بہبود کی خاطر کوئی ایسا نظام لانا چاہتا تھا جو غریب طبقوں کا استحصال نہ کرسکے۔ اس مقصد کی خاطر وہ کارل مارکس کو اپنا رہبر مانتا تھا۔ ٹروٹسکی اور لینن ایسے معاملات پر اکثر اوقات فکر انگیز مکالمات کرتے۔ ایک بار ٹروٹسکی نے جمہوریت کے بارے میں سوال کیا تو لینن نے کہا: ’’جمہوری طرز حکومت تاریخ کے ہردور میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت کوئی ایسی جادوئی چھڑی نہیں جسے جب حرکت میں لائو تو عوام الناس کی بہبود اور ترقی کا چمتکار ہونے لگے ۔ جب تک اقوام‘ خاص ارتقائی منزل یا تمدنی ماحول تک نہ پہنچیں جمہوریت صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں ہوسکتی۔ جب تک تمدنی ماحول اور انسانی ذہن اس درجہ بیدارنہ ہو جائے کہ وہ سیاسی اور اقتصادی امور پر غور کرسکے اور اس میں عقلی دیانتداری پیدا نہ ہو جائے جمہوریت کسی معاشرے کی ترقی کے لیے محرک نہیں بن سکتی۔ غیرمتمدن اور پسماندہ ملکوں میں جمہوری طریقۂ کار جاری کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ زمامِ حکومت نااہل‘ خود غرض اور چالاک لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ جس ملک کے باشندے فکر وتدبر سے عاری‘ ذاتی مفاد کے دلدادہ‘ طلائی و نقرئی سکوں کی ہوس میں گرفتار ہوں تو چالاک اور عیار لوگ انہیں فوراً اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں اور ان کی رائے حاصل کرکے جمہوری اداروں میں نمائندے منتخب ہوجاتے ہیں جہاں پہنچ کر ان کے عمل کا محرک قوم وملک اور بنی نوع انسان کا مفاد نہیں رہتا بلکہ اپنا انفرادی مفاد مقدم ہوتا ہے۔ ان کے ذاتی مفاد اور معاشرے کے اجتماعی مفاد میں تضاد ہوتا ہے‘ اس لیے قومی اداروں میں ان غیرجمہوری لوگوں کا طرز عمل بجائے اصلاح کے معاشرے میں تخریب پیدا کرتا ہے۔‘‘ میں نے لینن کا 1917ء میں جمہوری نظام کے بارے میں کیا گیا تجزیہ پڑھا تو میرے حواس باختہ ہوگئے، مجھے لگا لینن پاکستان کی کسی گلی میں رہتا ہے اور ہماری آج کی جمہوری حکومت کے بخیے ادھیڑ رہا ہے۔ ہم من حیث القوم لینن کے مذکورہ تجزیے میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ ہمارامعاشرہ پس ماندہ اور ناخواندہ ہونے کی وجہ سے آمریت یا موجودہ جمہوری نظام کے تانے بانے کو بالکل نہیں سمجھتا۔ ناخواندگی اور جاہلیت کی وجہ سے وہ اپنے دوست کو پہچان سکتے ہیں نہ دشمن کو‘ انہیں ایک ووٹ کی اہمیت کا علم ہے نہ اس کے دوررس نتائج کا۔ اجتماعی طورپر ہم ایک ایسا ہجوم ہیں جو تمدنی اور تہذیبی طورپر اس منزل سے ابھی بہت دور ہے جہاں لوگ اپنے لیڈروں اور سچے نمائندوں کو پہچان سکتے ہیں۔ ہمارے ہم وطن غریب اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی بوجوہ اُسی لوٹ کھسوٹ والے کلچر کے دلدادہ ہیں جو اوپر والے طبقات اور حکمرانوں میں رائج ہے۔ ایک غریب عورت یا مرد اپنا ووٹ پانچ کلو آٹے کے عوض بیچنے کو تیار ہے۔ فوجی آمر آئے تو وہ اپنے ہر صحیح یا غلط فیصلے پر آمنا وصدقنا کہنے والی خودساختہ اسمبلی جمع کرلیتاہے۔ بغیر وردی کے صدر یا وزیراعظم آئے تو وہ بھی فصلی بٹیروں کو جمہوری کہہ کر اپنے گرد جمع کرلیتا اور جھوٹے ووٹوں کی صندوقچیاں بھرکر اپنا مغل دربار سجاتا ہے۔ پانچ کلو آٹے یا ایک ہزارروپے میں بکنے والے ووٹر کو پاتال میں اتاردیا جاتا ہے‘ اس کے لہو پہ پلنے والے مقتدر کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ووٹرکی بھوک ننگ سے تنگ آکر کی گئی خودکشی کی خبر ہی پڑھ لے۔ پاکستان بنا تو میں اور میری ہم عمر سہیلی گڈے گڈی کی شادی رچارہے تھے۔ میں پاکستان سے بڑی ہوں اور اس کے تمام نشیب وفراز کو تفصیل سے جان چکی ہوں۔ ہم پینسٹھ برسوں میں تمدنی‘ فکری اور تعلیمی سطح پر 1947ء سے پیچھے جاچکے ہیں۔ انگریز نے ہمیں اپنے جس طرز حکومت کے تحت لُوٹا اپنی انگریزی قوم اور انگلستان کی خاطر لوٹا لیکن ہمارے وڈیرے‘ خان‘ سردار‘ کارخانہ دار اور فوجی آمر نے ہمیں انفرادی مفادات کے لیے لُوٹا۔ لینن یہ بھی کہتا ہے کہ جس ملک میں امن وامان نہ ہو وہ ترقی کرسکتا ہے نہ جمہوریت قائم کرسکتا ہے۔ جو جمہوریت ہم پچھلے پانچ برس سے دیکھ رہے ہیں یا جو مختصر اوقات کے لیے پہلے دیکھتے رہے ہیں اس میں وہی خوشامدی اور لالچی ٹولے شیروانی بدل کر جمہوریت کا جھنڈا لہرانے لگتے ہیں۔ نغمہ ایک ہی ہوتا ہے‘گانے والے بدل جاتے ہیں۔ ہماری آمریتیں بھی عوام الناس سے لاتعلق ہوتی ہیں اور جمہوریتیں بھی۔ میں خود بھی طویل مارشل لا ئوں کے دورانیوں میں جمہوریت جمہوریت کے نعرے لگاتی رہی ہوں لیکن جب کوئی شلوار کرتے والا بابا یا بی بی آئے ان کی آمریت اور عوام کی حق تلفی خاکی والوں سے بھی دو ہاتھ آگے رہی۔ جی چاہتا ہے سیاچن کے پہاڑوں میں جاکر آوازیں دیں کہ کوئی ہے جو ہمیں خرکاروں کے اس کیمپ سے باہر نکالے؟ لینن کی تشخیص کے مطابق تمدنی اور فکری طورپر ہم ابھی اس منزل سے بہت دور ہیں جہاں گورنمنٹ آف دی پیپل‘ فاردی پیپل‘ بائی دی پیپل بنائی جاتی ہے۔ ہم غلامی کے عادی ہو چکے ہیں۔ قدیم مصری غلاموں کی طرح ہماری پیٹھوں پر ٹنوں بوجھ لاد دیں‘ ہم اس کے نیچے آکر دم دے دیں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے ’’اب بس‘‘۔ کیا یہاں کوئی ماں، مخلص اور درددل رکھنے والا محب وطن لیڈر پیدا نہیں کرے گی؟ روس، فرانس اور چین کے لوگ اپنے ملکوں کو نئی زندگی دینے کی خاطر خون میں نہائے‘ سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور اپنی اقوام کو آزادی اور ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں کردیا۔ مفلسی کی ماری پاکستان کی زرخیز عورت کب ایسے بچے پیدا کرے گی؟