جب ہم نصاب کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد سکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب (Text Books) ہی ہوتی ہیں۔ یعنی بچے کے پہلے دس بارہ سال کی پڑھائی جو عام طور پر 17/18 سال کی عمر تک مکمل ہوتی ہے۔ اس کے بعد بچے گریجوایشن اور اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرتے ہیں جن کے نصاب میں عملی زندگی کے متعلقہ شعبہ جات کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ابتدائی تعلیم میں بچوں کو جو کچھ پڑھانا یا سکھانا مقصود ہوتا ہے وہ نصابی کتب کی صورت میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس نصاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ تعلیم کے بنیادی مقصد کی تکمیل کیلئے ہے‘ جبکہ دوسرے حصے میں بچے کو ابتدائی اور بنیادی مہارتیں‘ جیسا کہ لکھنا، پڑھنا، حساب اور سائنس کے مضامین کے بنیادی تصورات وغیرہ‘ سکھائی جاتی ہیں۔ آج ہمارا موضوعِ بحث نصاب کے پہلے حصے سے متعلق ہے۔ تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ معاشرہ یا ریاست بچوں کو تعلیم کیوں دینا چاہتی ہے؟
یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ کوئی بھی معاشرہ، ملک یا قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ اب قوم کے بچوں کو تعلیم دینا مقصود ہے۔ بچوں کو کیا تعلیم دی جائے؟ یہ بظاہر ایک سادہ سا سوال ہے مگر اس کی گہرائی میں جانے کے بعد معلو م ہو گا کہ یہ کتنا مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ بچے کو کیا تعلیم دی جائے؟ مطلب بچے کو کس درجے یا جماعت میں کیا پڑھایا جائے؟ یعنی اس کا نصاب کیا ہو گا؟ نصاب دراصل طے شدہ مقاصدِ تعلیم کی بنیاد پر ہی تشکیل پاتا ہے‘ یعنی پہلے مقاصدِ تعلیم کا تعین ہو پھر نصاب کا۔
اب مقاصدِ تعلیم کیسے طے ہوتے ہیں؟ کون مرتب کرتا ہے؟ مقاصدِ تعلیم کن کن بنیادوں پر ترتیب پاتے ہیں؟ کیا ہر قوم کے مقاصد تعلیم الگ الگ ہو سکتے ہیں یا پھر ایک ہی قسم کے مقاصدِ تعلیم پوری دنیا کی تمام اقوام کے لیے یکساں ہوں گے؟ یاد رہے کہ اگر مقاصدِ تعلیم یکساں ہوں گے تو نصاب بھی یکساں ہو گا‘ کیونکہ نصاب تو مقاصدِ تعلیم کے حصول کا ایک بنیادی ذریعہ ہوتا ہے۔ ان بنیادی سوالوں کے جواب کے لیے ہمیں تعلیم کی تعریف کی طرف آنا پڑے گا۔
اس سے قبل کہ ہم ماہرین تعلیم کی طے شدہ تعریفوں کی طرف آئیں قوم کی تعریف کے حوالے سے جدید تصورات پر بات کرتے ہیں۔ موجودہ زمینی حقائق کے مطابق موجودہ نسلِ انسانی نے ایک خطہ ارضی میں رہنے والوں کو ایک قوم قرار دیا ہے۔ یعنی اس وقت پوری دنیا کے انسان ممالک میں منقسم ہیں اور یہ ممالک ہی اقوام کہلاتے ہیں۔ رنگ ونسل، زبان یا نظریات کی بنیاد پر دنیا میں کوئی قوم موجود نہیں۔ دو سو سے زائد ممالک یا اقوام میں صرف دو ریاستیں ایسی قرار دی جاتی ہیں جن کا قیام نظریے کی بنیاد پر ہوا۔ وہ ریاستیں پاکستان اور اسرائیل ہیں۔ قیام تو ان اقوام اور ممالک کا نظریہ کی بنیاد پر ہوا مگر امر واقع یہ ہے کہ ان ممالک میں موجود ہ حالات میں نظریہ کی بنیاد موجود نہیں ہے۔ کیا پاکستان صرف مسلمانوں کا ملک ہے؟ کیا یہاں کے بسنے والے غیر مسلم پاکستانی قوم کا حصہ نہیں ہیں؟ یقینا پاکستان میں رہنے والے غیر مسلم بھی اسی پاکستانی قوم کا حصہ ہیں ۔لہٰذا ایک قوم کے لیے چندا ستثنیٰ کے ساتھ ایک جیسے ہی مقاصدِ تعلیم ہوں گے اور پھر ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہی نصاب رکھنا ہو گا۔
تعلیم کی تعریف کے مطابق تعلیم کا ایک مقصد ''اقدار کی نسل در نسل منتقلی ہوتا ہے‘‘
اب یہ اقدار کیا ہوتی ہیں؟ قدر کی جمع اقدار ہے جو کہ پسندیدہ اور نا پسندیدہ رویوں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ یعنی افراد‘ معاشرہ جس رویے کو پسندیدہ سمجھتے ہیں یا اچھا کہتے ہیں‘ اسے وہ اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں‘ اور جو رویہ یا قدر یا خوبی افرادِ معاشرہ کی نظر میں ناپسندیدہ ہو اس سے روکنا چاہتے ہیں۔ انہی اقدار کی تعلیم دینے اور سکھانے کے سلسلے میں معاشرہ بچوں کے لیے تعلیم کا اہتمام کرتا ہے۔
کسی قوم کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ اقدار کیسے ترتیب پاتی ہیں یا طے ہوتی ہیں؟ کچھ اقدار یعنی پسندیدہ اور نا پسندیدہ رویے تو پوری دنیا میں یکساں ہیں۔ جیسا کہ لوگوں سے بہتر رویہ، قانون کی پابندی وغیرہ وغیرہ پوری دنیا میں پسندیدہ قدریں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کچھ اقدار پوری دنیا میں یکساں طور پر نا پسند کی جاتی ہیں جیسا کہ چوری کرنا، جھوٹ بولنا، غیر قانونی کام کرنا، جرم کرنا وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا یہ اقدار تمام اقوام کے لیے یکساں ہیں۔ تمام قوم اپنے مقاصدِ تعلیم اور بعد ازاں نصاب تعلیم میں ان قدار کی نسل در نسل منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے نصاب میں ایسا مواد شامل کرتی ہیں تا کہ بچے اچھے انسان اور اچھے شہری بن سکیں۔
اسی نکتے پر ہمارے اکثر ماہرین تعلیم اور مفکرین یونیورسل مقاصد تعلیم کی بات کرتے ہیں۔ اگر یہ پوری دنیا میں پسندیدہ رویے یا معروف ایک جیسے ہی ہیں تو پھر پوری دنیا کی ہر قوم ان معروف کی بنیاد پر ایک جیسا نصاب تشکیل دے۔ مقاصدِ تعلیم کا تعین کسی بھی قوم کے نظام اقدار پر مبنی ہوتا ہے اور یہ نظام اقدار اس قوم کے نظریات، تاریخ و تمدن اور معاشرت وغیرہ کے صدیوں کے اثرات سے ترتیب پاتا ہے۔
ہماری اقدار پر ہمارے مذہبی نظریات کے گہرے اثرات ہیں اور یہ امر واقع ہے کہ ہمارا یہ نظام اقدار یعنی پسندیدہ اور ناپسندیدہ رویے ہمارے دین اسلا م کے ہی احکامات کا مجموعہ ہیں‘ لہٰذا پاکستانی قوم کے لیے جو نصاب بھی ترتیب دیا جائے گا، جو بھی مقاصد تعلیم طے ہوں گا، وہ اچھا مسلمان بنانے کے لیے ہوں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر مقاصد تعلیم اچھا مسلمان بنانا ہے تو پھر نصاب بھی اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب پائے گا۔ یہ دینی نظریات تو تبدیل نہیں ہوں گے۔ یہ نظریات تو قیامت تک قائم و دائم رہیں گے۔جب بنیاد تبدیل نہیں ہو گی تو پھر مقاصدِ تعلیم کیسے تبدیل ہوں گے؟ جب مقاصدِ تعلیم تبدیل نہیں ہو سکتے تو پھر نصاب کیسے تبدیل ہو گا؟ یہ جو بچے سکو ل میں جاتے ہی ''لب پہ آتی ہے دعا‘‘ پڑھتے ہیں‘ یہ قیامت تک پاکستانی بچے پڑھتے رہیں گے۔ تبدیلی کرنا مقصود ہے تو ''لب پہ آتی ہے دعا‘‘ نکال کر اسی طرح کی کوئی اور نظم ڈال دی جائے۔
ہماری معاشرت میں ہمارے مذہب کی تعلیمات کے مطابق کسی انسان پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا قرار دیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں ماں کی عزت ایک پسندیدہ قدر ہے مگر مسلمان معاشرے میں یہ ناصرف پسندیدہ قدر ہے بلکہ اس کو ہماری تعلیمات میں بنیادی قدر قرار دیا جائے گا‘ کیونکہ ماں کے حقوق کے بارے میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے بہت ہی تاکید فرمائی ہے اور آپﷺ کی تاکید ہی ہمارے نظام اقدار کی بنیاد قرار پائے گی۔ سیرت النبیﷺ ہی ہمارے نظام اقدار کا محور ہے۔ یہ مرکز یا محور تبدیل نہیں ہو سکتا تو مقاصد تعلیم بھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ اور اگر مقاصد تعلیم تبدیل نہیں ہوں گے تو پھر نصاب کیسے تبدیل ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ مقاصد کے حصول کے لیے نصاب میں پہلے کوئی اور کہانی یا نظم شامل تھی اب اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی دوسرا مواد شامل کر دیا جائے۔
نصاب کا دوسرا حصہ جو مہارتوں سے متعلق ہے اس کو عصر حاضر کے تقاضوں اور جدید تحقیق کی روشنی میں ہر 3 یا 5 سال بعد تبدیل کیا جانا چاہیے۔ حساب کے مضمون میں جمع تفریق پہلے جماعت چہارم میں سکھائی جاتی تھی اب آپ اسے جماعت دوم کے نصاب میں شامل کر دیں۔ یہ بنیادی مہارت کو سکھانے کے لیے پہلے جو طریقہ اساتذہ کرام کو بتایا گیا تھا اس کو جدید تحقیق کے مطابق تبدیل کر دیا جائے۔ سائنسی تصورات کی تعلیم ابتدائی تعلیم کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اس میں عصرِ حاضر کی جدید تحقیقات کے مطابق تبدیلی ضروری ہے۔ اسی طرح ماہرین تعلیم کی جدید تحقیق کے مطابق بچوں کو پڑھانے اور سکھانے کے عمل میں جدت لائی جائے اور اسے زیادہ موثر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس ضمن میں نصاب کی تبدیلی سے زیادہ اس امر کی ضرورت ہے کہ موثر طریقۂ تدریس اختیار کیا جائے اور اساتذہ کرام کی تربیت پر توجہ دی جائے۔
اگر ہم اپنے نصاب کے اس حصے کا دیگر اقوام کے نصاب سے موازنہ کریں تو ہمارے ہاں نصاب کا یہ حصہ پہلے ہی بچوں کی عمر کے لحاظ سے کچھ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کا اہتمام کرنا ہی تعلیم کے اصل مقاصد کے حصول میں بہترین نتائج دے سکتا ہے۔