پچھلے دنوں ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات میں یُو ٹرن پر بڑی زور دار بحث جاری رہی۔ ایک سیاسی جماعت کے قائدین اسے دنیا کی بد ترین غلطی سے تعبیر فرما رہے تھے جبکہ دوسری جماعت کے لوگ اسے اپنی بہت بڑی خوبی کے طور پر بیان کر رہے تھے۔ ''مختلف حالات و واقعات میں شاید دونوں ہی درست ہیں‘‘ میری یہ بات سن کر پاء بشیر آگ بگولہ ہو گیا اور بولا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک موقف، رویہ یا طریقہ کار ایک ہی وقت میں درست بھی ہو اور غلط بھی؟ میں نے نہایت تحمل سے جواب دیا! جی ہاں یہ ممکن ہے۔
اس بار سمجھانے کی نہایت مشکل ذمہ داری میری تھی کیونکہ پاء بشیر ہم میں نہ صرف سب سے ''سیانا‘‘ ہے بلکہ وہ اپنی اس خوبی کا مکمل ادراک بھی رکھتا ہے اور اپنی بڑی عمر‘ جو چند ماہ ہی زیادہ ہے‘ کا بھرپور فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ اکثر اوقات اپنی رائے کو ہمارے اوپر حکماً بھی نافذ کر دیتا ہے''بس کہہ دیا ناں‘‘۔
ہم میں سے کوئی اگر مزید اختلاف کرے تو پھر بڑے بھائی کو حاصل تمام اختیارات استعمال کرتا ہے‘ جس میں سب سے مؤثر ''ناراض‘‘ ہونا ہوتا ہے۔ ''چھڈو جی ایک لطیفہ سنو‘‘ میں نے پاء بشیر کے غصے کو بھانپتے ہوئے کہا۔
دو لوگ کسی اختلافی بات پر تکرار کر رہے تھے۔ ساتھ ہی پاء بشیر ٹائپ ایک ''سیانا‘‘ کھڑا تھا۔ پہلے شخص کی بات سن کر ''سیانا‘‘ بولا: تم ٹھیک کہتے ہو۔ پھر دوسرے نے اپنا موقف بیان کیا۔ ''سیانا‘‘ بولا: تم بھی ٹھیک کہتے ہو۔ اسی دوران وہاں موجود تیسرا شخص بولا کہ ایک ہی وقت میں دونوں متضاد موقف کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں؟ اس پر ''سیانا‘‘ بولا: تم بھی ٹھیک کہتے ہو۔ ''یہ تو تم نے میرے حق میں لطیفہ سنایا ہے‘‘ بھائی بشیر ہنستے ہوئے بولا۔''جی ہاں ایسا ممکن بھی ہے‘‘ میں نے جواب دیا ''میری بات تو پوری سن لو‘‘ ''اچھا تم سنا لو اپنی پوری بات‘‘ بھائی بشیر غصہ سے بولا۔
یُو ٹرن کا مفہوم اگر تو اپنی بات سے مکر جانے یا وعدہ پورا نہ کرنے کے حوالے سے ہے تو پھر پہلے فریق کی بات درست ہے اور اگر ''یُو ٹرن‘‘ سے مراد اپنی رائے یا موقف کی غلطی واضح ہو جانے کے بعد اپنی رائے سے رجوع کرنے اور اسے تبدیل کرنے کے ہیں‘ تو یہ ایک اعلیٰ خوبی ہے۔ تحقیق کا میدان ہو یا عملی زندگی کا کوئی شعبہ اس یُو ٹرن کی خوبی کے بغیر زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ ہٹ دھرمی، اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا، غلط طریقہ کار پر ہی اصرار کرنا، پلان بی کا نہ ہونا، نہایت غلط رویہ قرار پاتا ہے۔
اپنے موقف یا نظریہ کی غلطی واضح ہو جانے کے بعد پھر بھی غلط موقف پر قائم رہنا اور ''یُو ٹرن‘‘ نہ لینا ہی شاید ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی وجہ ہے۔ ہم لوگ دوسرے مسلک کا موقف سننے اور سمجھنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہوتے کہ کہیں ہمیں '' یُو ٹرن‘‘ نہ لینا پڑ جائے اور ہماری غلطی کی نشان دہی نہ ہو جائے۔ اسی لیے مختلف مکاتب فکر کے مدرسوں میں دوسرے مکتب فکر کی رائے بیان ہی نہیں کی جاتی‘ اور اگر بیان کی بھی جاتی ہے تو دوسرے مکتب فکر کے موقف کو اس کی اصل حالت میں نہیں بلکہ جیسا آپ سمجھتے ہیں اسی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مخالف موقف کو کھلے ذہن سے بغیر تعصب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اسی انداز اور دلیل کی بنیاد پر سمجھا جائے۔ اور اگر اس موقف میں معقولیت نظر آئے تو اپنی رائے سے رجوع کر لیا جائے۔
اپنی رائے سے رجوع کرنا، اپنی غلط رائے کو غلط قرار دینا تحقیق کے میدان میں بہت ہی پسندیدہ عمل قرار پاتا ہے۔ یہاں یُو ٹرن لینا اعلیٰ انسانی صفات میں شمار ہوتا ہے۔ بقول استاد محترم جناب ہارون الرشید 'افراد اور اقوام غلطی سے نہیں بلکہ غلطی پر اصرار سے تباہ ہوتی ہیں‘۔
تاریخ کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ماضی کے واقعات اور غلطیوں سے سبق سیکھا جائے اور اپنے رویے، موقف یا طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے۔
2008 سے 2013 تک ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ لوگوں نے 2013 میں اپنی رائے کو بدلا‘ ن لیگ کو ووٹ دیا اور ان کی حکومت بنی۔ اس کے بعد 2018 میں عوام نے دوبارہ اپنی رائے تبدیل کی اور پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دے دیا۔ تو کیا اب ہم یہ کہیں کہ عوام نے بار بار ''یُو ٹرن‘‘ لیا؟ اور غلط کیا ہے؟
عملی زندگی میں جیسا کہ کاروباری ادارے میں کسی کام کو سرانجام دینے کا ایک طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر اس طریقہ کار سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں تو پھر '' یُو ٹرن ‘‘ لینا پڑتا ہے اور کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کسی بھی شعبے کا سربراہ اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں فیصلے کرتا ہے۔ مینجمنٹ کی ایک تعریف فیصلہ سازی کا عمل بھی کی جاتی ہے۔ اکثر فیصلے تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔ "Hit & Trial"دراصل مینجمنٹ کی ہی ایک اصطلاح ہے۔ یعنی ایک فیصلہ کیا گیا یا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ اگر یہ طریقہ کار غلط ثابت ہوا۔ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو پھر دوبارہ کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ یعنی ''یُو ٹرین‘‘ لے لیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے انبیاء اکرام اور رسولوں کو مبعوث فرمایا جو ایک اللہ کی عبادت اور بندگی کا درس دیتے۔ ہر معاشرے میں ان انبیا اکرام کی شدید مخالفت کی جاتی رہی۔ لوگ اپنے ابائواجداد کے دین پر قائم رہتے ہوئے حق بات کی تردید کرتے رہے۔ تمام انبیاء اکرام اپنی بہترین صلاحیتوں سے دلیل کے ساتھ ان کو قائل کرتے رہے۔ کچھ لوگ اس دین حق پر ایمان لے آئے اور اپنے پہلے کے نظریات سے اظہار لا تعلقی کیا۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے بنیادی عقائد کے حوالے سے ان لوگوں نے ''یُو ٹرن‘‘ لیا اور نئے نظریا ت کو اختیار کیا۔
میری اس تقریر کے جواب میں پاء بشیر نے سرد آہ بھری اور بولا ''یار تم نے تو چھوٹے سے مسئلہ کو اتنا بڑا بنا دیا۔ صرف یہ بتائو کہ کیا حکومت کا بار بار یُو ٹرن لینا ٹھیک ہے؟‘‘
میں نے پھر عرض کیا کہ بات ٹھیک یا غلط کی نہیں۔ ''یُو ٹرن‘‘ لینا بعض اوقات ضرورت بلکہ مجبوری بن جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر ''یُو ٹرن‘‘ نہ لینا بہت بڑی غلطی کا باعث بنتا ہے۔ اگر حکومت نے پوری ایمان داری اور خلوص نیت سے عوام کے مفاد میں ایک فیصلہ کیا‘ اور وہ فیصلہ قابل عمل ثابت نہیں ہوا یا اس فیصلے کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلے تو پھر '' یُو ٹرن‘‘ لینا ہو گا۔ طے شدہ اہداف اور پھر ان اہداف کے حصول کے لیے اپنے ہی طے شدہ طریقہ کار کو بدلنا ہو گا۔ بعض اوقات اہداف کا بھی نئے سرے سے تعین کرنا پڑتا ہے اور ان کے قابل عمل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ اخلاص کا تقاضا ہے۔ اپنی غلطی پر اصرار کرنا اور پھر ''یُو ٹرن‘‘ نہ لینا ہٹ دھرمی کہلاتا ہے۔ میرے خیال میں حکومت کا بار بار ''یُو ٹرن‘‘ لینا اچھا ہے بلکہ مطلوب بھی۔
آپ صرف حکومت کی کوششوں کو دیکھیں۔ ان کاوشوں سے ہی حکمرانوں کی نیت اور خلوص کا اظہار ہوتا ہے۔ جب نیت ٹھیک ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کوششوں میں برکت ڈال دیتا ہے۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ حکومت کی تھوڑی یا قدرے کم صلاحیت کی حامل کوششوں میں ہی برکت ڈال دے اور قوم کے مسائل حل ہو جائیں۔
2008 سے 2013 تک ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ لوگوں نے 2013 میں اپنی رائے کو بدلا‘ ن لیگ کو ووٹ دیا اور ان کی حکومت بنی۔ اس کے بعد 2018 میں عوام نے دوبارہ اپنی رائے تبدیل کی اور پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دے دیا۔ تو کیا اب ہم یہ کہیں کہ عوام نے بار بار ''یُو ٹرن‘‘ لیا؟ اور غلط کیا ہے؟