"AMK" (space) message & send to 7575

مہنگے کھانے

پچھلے دنوں دوستوں کے ساتھ لگی ایک شرط ہارنے پر مجھے انہیں لاہور کے سب سے مہنگے چائنیز ریسٹورنٹ میں ڈنر پر لے جانا پڑا۔ ہم تین دوست ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔ استقبالیہ پر کھڑی ایک خوبرو لڑکی نے میرا نام نوٹ کر لیا۔ اس وقت تقریباً دس بارہ لوگ انتظار کر رہے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ بیس سے پچیس منٹ انتظار کرنا پڑے گا۔ میرے ساتھ ایک دوست سرکاری افسر تھا۔ افسر بھی اس محکمہ کا جس کا اس طرح کے ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں وغیرہ سے براہ راست تعلق رہتا ہے۔ 
میرا وہ دوست آگے بڑھا اور اس خاتون کے آگے پڑی اونچی میز پر جھک کر اسے اپنا تعارف کروایا۔ ہم وہ گفتگو سن تو نہیں سکے مگر یہ اندازہ ضرور ہوا کہ میرا وہ دوست اس پر اپنے عہدے اور محکمے کا رعب جھاڑ رہا ہے۔ وہ لڑکی مسکرائی اور سر ہلایا جیسے وہ ٹھیک ٹھاک مرعوب ہوئی ہو۔
ہم انتظار کرتے رہے۔ پندرہ منٹ بعد میرا دوست دوبارہ اس لڑکی کے پاس گیا اور شاید پھر اپنا مطالبہ بلکہ ناجائز مطالبہ دہرایا۔ میں اپنے دوست کے اس مطالبے کو ناجائز سمجھ رہا تھا کہ ہم اپنی باری سے پہلے اندر کیوں جائیں۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر انتظار نہیں کرنا تو چلو کسی اور ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں۔ دونوں دوست میری اس تجویزپر مسکرانے لگے کہ شاید میں اپنے پیسے بچانا چاہتا ہوں کیونکہ وہ شہر کا سب سے مہنگا چائنیز ریسٹورنٹ تھا۔ مزید پندرہ منٹ انتظار کے بعد ہمیں ایک خالی میز پر بیٹھنے کی دعوت ملی۔
میرا اب بھی یہ موقف ہے کہ ہمیں اپنی باری پر ہی میز دی گئی تھی‘ جبکہ میرا دوست اس بات پر اصرار کر رہا کہ اس کے سرکاری عہدے اور محکمے کی وجہ سے ہماری باری جلدی آئی ہے۔ میز پر بیٹھنے کے بعد ہم سب مینو کارڈ دیکھنے لگے۔ اپنی پسند کے کھانے کا آرڈر دیتے وقت میری نظر کھانوں کی قیمتوں پر پڑی۔ چار پانچ ماہ قبل میں یہاں آیا تھا تو زیادہ تر کھانوں کی قیمت تقریباً آٹھ نو سو روپے تھی۔ شدید سردی کے باوجود میرے ''پسینے چھوٹ گئے‘‘۔ اب ان کی قیمت ایک ہزار‘ گیارہ سو روپے تھی۔ 
''غضب خدا کا چار ماہ کے اندر پچیس سے تیس فی صد اضافہ‘ کوئی حد ہوتی ہے ظلم کی‘‘ میں نے درد بھری آواز میں دہائی دی۔ پاء بشیر میری تکلیف بھانپ کر بولا: پتر جی شرط ہارے ہو اب بھگتو۔ میں بولا: نہیں یار‘ یاد ہے پچھلی بار جب ہم یہاں آئے تھے تو یہی سوپ 850 روپے کا تھا‘ جو اب 1050 روپے کا ہے۔ پاء بشیر کسی ماہر معیشت دان کی طرح ہمیں لیکچر دینے لگا کہ قیمتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے‘ اور کیسے طلب اور رسد کے زیر اثر قیمتیں کم یا زیادہ ہوتی ہیں۔ پاء بشیر کے پورے لیکچر سے مجھے صرف یہ بات سمجھ آئی کہ جب تک اس ریسٹورنٹ میں اسی طرح رش لگا رہے گا، لوگ انتظار کر کے‘ منتیں‘ ترلے اور سفارش کر کے میز حاصل کرتے رہیں گے، یہاں کھانے کی قیمت بڑھتی رہے گی۔ یہاں آنا کسی کی مجبوری تو نہیں؟ یہاں ڈنر کرنا کوئی بنیادی ضرورت تو نہیں؟ اس ریسٹورنٹ کی نسبت سستے کھانے بھی میسر ہیں۔ جو یہاں کا کھانا افورڈ کر سکتا ہے وہی آتا ہے اور میرے نزدیک یہاں کھانا کھانا ایک عیاشی ہے۔ 
''اب تیری یہ خواہش کہ تم عیاشی بھی کرو اور بچت بھی‘‘ پاء بشیر نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بارہ ہزار روپے کی ہے۔ خوبصورت بھی ہے۔ ٹھیک ٹائم بتاتی ہے۔ مگر کچھ گھڑیاں بارہ بارہ لاکھ کی بھی ملتی ہیں۔ اور شاید اس سے بہت زیادہ قیمت والی بھی ہیں۔ اب کوئی یہ کہے کہ اسے بارہ لاکھ والی گھڑی دو لاکھ میں ملے‘ کتنا خرچہ آتا ہے اس کے بنانے پر؟ کتنا منافع ہونا چاہیے؟ اس بات کا تعین کرنا فضول بلکہ نا مناسب بات ہے۔ اس دوران ویٹر آرڈر لینے کے لیے آ گیا۔ میں نے کہا: پاء جی پہلے آرڈر دے لیں پھر آپ کا لیکچر سنتے ہیں۔ پاء بشیر نے قہر آلود نظروں سے مجھے گھورا اور پھر آرڈر دینے لگا۔ آرڈر دینے کے بعد پاء بشیر نے گلا صاف کرتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا ''بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول ہونا چاہیے۔ حکومتی اداروں کو ان اشیا کی کم قیمت پر فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ دنیا کے اکثر ممالک کی حکومتیں ان بنیادی اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول بھی کرتی ہیں اور سبسڈی بھی دیتی ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹل میں چائے کا ایک کپ شاید ایک ہزار روپے میں ملتا ہے۔ اب کوئی ''سیانا‘‘ یہ کہے کہ اتنا ظلم! کتنی لاگت آتی ہے ایک کپ چائے پر؟ دس روپے۔ چلو جی آپ بیس روپے کر لیں۔ باقی کرسی میز کا کرایہ ڈال کر دوگنا یعنی چالیس روپے‘ عمارت اور اس ماحول کی خوبصورتی پر مزید دوگنا۔ یعنی اسی روپے۔ باقی خرچے ڈال کر 200 روپے اور کوئی ریاستی ادارہ فائیو سٹار ہوٹل کا ''مناسب‘‘ منافع ڈال کر اس چائے کے کپ کی قیمت 300 روپے مقرر کر دے۔‘‘ پاء بشیر کی تقریر ابھی جاری تھی کہ ویٹر سوپ لے کر آ گیا۔ میں نے پاء بشیر سے معافی مانگی۔ ساتھ توبہ کی کہ آئندہ کبھی ایسی نا معقول بات نہیں کروں گا۔ 
سوپ پیتے ہوئے بھی پاء بشیر کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ بولے ''اب بتائو اس سوپ میں کتنے روپے کا چکن اور دیگر اشیاء ہوں گی؟‘‘ میں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ''پاء جی مجھے معافی دیں اور سوپ پئیں‘‘۔ میری معذرت تو پاء بشیر نے قبول کر لی اور خاموشی سے سوپ پینے لگا‘ مگر چوہدری نے مجھے اپنے موقف سے رجوع کرتے اور دفاعی پوزیشن لیتے دیکھ کر موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی اور بولا: اے تسی کی گل کیتی اے (یہ آپ نے کیا بات کی ہے) کچھ چیزوں کا قیمتی ہونا ہی ان کی خوبی ہوتی ہے۔ اور ان کو امارت کی نشانی (Status Symbol) سمجھا جاتا ہے۔ آسودہ حال لوگ ان پر خرچہ کر کے تسکین اور انفرادیت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے ہی تو حکومت ٹیکس وصول کر کے غریبوں کی بہبود پر خرچ کرتی ہے۔ یہاں کا کھانا بھی شہر بھر میں سب سے لذیز ہوتا ہے۔ یہاں کا ماحول اور خوبصورتی دیکھ کر طبیعت ہشاس بشاش ہو جاتی ہے۔ یقینا اس کا اشارہ ہمارے ارد گرد کی میزوں پر بیٹھے ہوئے دیگر مہمانوں کی طرف تھا۔ اس ماحول اور خوبصورتی کی قیمت بھی تو کھانے کی قیمت میں ڈال کر دیکھیں۔ پھر کھانوں کی یہ قیمتیں زیادہ محسوس نہیں ہوں گی۔ 
وہ مزید بولا: اسلام میں امیر ہونے پر کوئی پابندی تو نہیں لگائی گئی۔ ہاں اصراف اور نمود و نمائش کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اس طرح کے کاروبار جیسا کہ مہنگے ریسٹورنٹ، مہنگے کپڑے، مہنگی گاڑیوں وغیرہ پر منافع کی شرح کتنی ہونی چاہیے‘ یہ ان اشیاء کی طلب و رسد اور مارکیٹ میں موجود اس معیار کی دیگر اشیاء کی قیمتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ حکومت اس ریسٹورنٹ کے مالک کی آمدنی سے انکم ٹیکس وصول کرتی ہے اور دیگر بھی کئی قسم کے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہم سے بل کے ساتھ وصول کئے جائیں گے۔ حکومت اگر چاہے تو کسی خاص حد سے زائد بل پر مزید ٹیکس عائد کر سکتی ہے‘ مگر اس ریسٹورنٹ میں کھانوں کی قیمتیں صرف اس وقت کم ہوں گی یا بڑھنا بند ہوں گی جب یہاں لوگوں کا رش کم ہوا یا پھر اس معیار کا کوئی دوسرا ریسٹورنٹ شہر میں قائم ہو جائے گا۔ مجھے اس دوست سے بھی اپنی بے وقوفی پر معافی مانگنا پڑی اور میں نے کہا: ''یار ہون تے میری جان چھڈ وی دیو‘‘ ( یار اب تو میری جان چھوڑ دیں)۔
یاد رہے کہ یہ وہی ریسٹو رنٹ تھا جس میں کچھ عرصہ پہلے ایک اعلیٰ شخصیت تشریف لائی اور ہال میں موجود لوگ خوش گوار حیرت میں ڈوب گئے تھے۔ مہمانوں اور سٹاف نے اس اعلیٰ شخصیت کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ ریسٹورنٹ انتظامیہ کو مبارک باد کہ اس اعلیٰ شخصیت کا دھیان کھانوں کی قیمتوںکی طرف نہیں گیا اور ''غریب عوام‘‘ کو اس مہنگے ریسٹورنٹ کے ''مظالم‘‘ سے بچانے کے لیے ''جہاد‘‘ شروع نہیں ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں