''سومنات کا مندر کس نے توڑا‘‘ سکو ل کے معائنہ کے لیے آئے ہوئے انسپکٹر سکولز نے کلاس کے ایک بچے سے سوال کیا۔
''اللہ کی قسم سر جی میں نے نہیں توڑا‘‘ بچے نے جواب دیا۔ انسپکٹر صاحب نے قہر آلود نظروں سے کلاس میں موجود ماسٹر صاحب کی طرف دیکھا۔
ماسٹر صاحب کی سِٹی گم ہو گئی۔ ہڑبڑا کر بولا: جناب آپ ہیڈ ماسٹر صاحب کے دفتر میں تشریف رکھیں‘ انہی میں سے کسی نے توڑا ہو گا‘ میں ابھی ان کی کھال کھینچتا ہوں‘ وہ خود ہی بولے گا جس نے بھی توڑا ہے۔ انسپکٹر صاحب غصے سے پائوں پٹختے ہوئے ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے اور پورا ماجرا ان کو سنایا۔ اس دوران وہی ماسٹر صاحب دو ''ملزمان‘‘ بچوں کو کان سے پکڑے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتے، ہیڈ ماسٹر صاحب غصے سے بولے ''ماسٹر نذیر احمد! پہلے بھی آپ کی کلاس کی بہت شکایات ملی ہیں‘ اس بار معافی نہیں ملے گی‘ میں آپ کی تنخواہ سے اس نقصان کی رقم پوری کروں گا‘‘۔
ماضی میں اس طرح کے بے شمار لطیفے مشہور تھے۔ اس سے ایک بات تو ظاہر ہے کہ معیارِ تعلیم کو جانچنے کے لیے سکولوں کے معائنہ کا نظام رائج تھا۔ میں خود سرکاری سکول میں اس طرح کے معائنے کا عینی شاہد بھی ہوں۔ میں نے اپنے بچپن میں ایسے چھاپوں کے دوران اپنے اساتذہ کرام کو کانپتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ معائنے باقاعدگی سے ہوتے تھے۔ معائنہ سے قبل بچوں سے سکول اور کلاس رومز کی خوب صفائی کروائی جاتی۔ کلاس رومز میں چارٹ آویزاں کئے جاتے۔ بچوں کو خوب تیاری کروائی جاتی۔ اور کبھی کبھار اچانک ''چھاپہ‘‘ بھی پڑ جاتا تھا۔ عام طور پر معائنہ کار سکول لگنے سے پہلے ہی پہنچ جاتے۔ جب ہم کسی تانگے میں سوار سوٹ میں ملبوس بابو ٹائپ معزز سے افسران سکول کی طرف جاتے دیکھتے تھے، تو ہمیں پتہ چل جاتا تھا کہ آج چھاپہ پڑے گا۔ ہم اس صورتحال سے خوب لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ آج سے تقریباً 45 سال قبل محکمہ تعلیم کا اپنے سکولوں کے معیار کو جانچنے کا طریقہ کار ہوا کرتا تھا۔ اب سرکاری سکولوں میں تعلیم ہی موجود نہیں تو پھر معیارِ تعلیم کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ تعلیم و تدریس کے عمل میں بچوں کے علاوہ سب سے بنیادی کردار استاد کا ہوتا ہے۔ سکول کی عمارت، فرنیچر اور دیگر سہولیات ضمنی باتیں ہیں۔ جب استاد ہی موجود نہ ہو تو پھر کیسی تعلیم اور کیسا معیارِ تعلیم۔
اس وقت شہروں میں بالعموم اور دیہات میں بالخصوص اکثر سرکاری سکولوں میں استاد کی مطلوبہ تعداد ہی پوری نہیں ہے۔ اگر پوری ہے تو اساتذہ کرام سکول میں حاضر ہی نہیں ہوتے۔ اگر حاضری پوری ہو تو انہیں پڑھانے کے علاوہ دیگر فرائض کی انجام دہی کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پولیو کے قطرے پلانا، ووٹر لسٹ بنانا، مردم شماری، خانہ شماری، انتخابات، امتحانات کی نگرانی، پرچہ جات کی مارکنگ وغیرہ۔ اگر یہ ڈیوٹی نہ ہو تو پھر بھی کسی نہ کسی حکمران کے استقبال اور دیگر سرکاری کاموں کے لیے محکمہ تعلیم کے اساتذہ کو ہی زحمت دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اساتذہ یہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اپنی اصل ذمہ داری کی قربانی دیتے ہیں‘ جس سے بچوں کا تعلیمی عمل متاثر ہوتا ہے۔
صوبہ پنجاب کی آبادی 11 کروڑ ہے اور اس میں ہر سال 2.13 فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سادہ الفاظ میں بیاں کیا جائے تو ہر سال صوبہ پنجاب میں تقریباً 23 لاکھ 43 ہزار بچوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر 500 بچوں کے لیے ایک سکول قائم کیا جائے تو ان اضافی بچوں کے لیے ہر سال 4 ہزار 6 سو 86 سکول کا اضافہ درکار ہے۔ 4 ہزار 6 سو سکول سالانہ یعنی ماہانہ 383 نئے سکول بنائے جائیں تو پھر کہیں اضافی ضرورت پوری ہو سکے گی۔ اگر ایک سکول میں 30 بچے فی کلاس اور ایک استاد فی کلاس ہو تو اس حساب سے 16 اساتذہ فی سکول درکار ہوں گے اور سالانہ 73600 اور ماہانہ 6133 اساتذہ کی آسامیاں پیدا کرنا ہوں گی۔
اساتذہ کرام کے علاوہ دیگر عملہ مثلاً ہیڈ ماسٹر، کلرک، نائب قاصد اور چوکیدار وغیرہ بھی درکار ہوں گے۔ 45 ہزار 6 سو سکول قائم کرنے پر اٹھنے والے تعمیراتی اخراجات کے حوالے سے کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سکول جس میں تقریباً 500 بچوں کی تعلیم کا اہتمام کیا جائے گا‘ اس میں بحساب 30 بچے فی کلاس 16 کلاس رومز درکار ہوں گے۔ ہر کلاس روم اگر 150 مربع فٹ ہو تو صرف کلاس رومز کے لیے 2400 مربع فٹ تقریباً تعمیر درکار ہو گی۔ کلاس رومز کے آگے برآمدے، بچوں کے لیے دیگر سہولیات، پرنسپل آفس، سکول آفس، سٹاف روم وغیرہ کے لیے بھی تقریباً اتنی ہی تعمیر درکار ہو گی۔ کُل 5000 مربع فٹ عمارت کی تعمیر پر بحساب 1500 روپے فی مربع فٹ تقریباً 75 لاکھ روپے فی سکول اخراجات ہوں گے۔ سالانہ 4 ہزار 600 سکولوں کی تعمیر پر ساڑھے 34 ارب روپے اضافی درکار ہوں گے۔ جو ان 23 لاکھ سالانہ اضافی بچوں کے لیے ہوں گے۔ اگر نئے اساتذہ کرام اور دیگر سکول سٹاف کی تنخواہوں پر اٹھنے والے اضافی سالانہ اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ بھی اربوں روپے ہے۔
کیا موجودہ یا سابقہ حکومتوں نے پنجاب میں نئے آنے والے ان بچوں کی پرائمری تعلیم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس کا اہتمام کیا ہے؟ اہتمام کرنا تو دور کی بات کیونکہ اس کے لیے وسائل درکار ہیں‘ کیا کبھی محکمہ تعلیم نے اس کو اپنا ہدف بھی مقرر کیا ہے؟ اس کے بارے میں سوچا ہے؟
یہ سب اہتمام کرنے کے بعد معیار تعلیم کا مرحلہ درپیش ہو گا۔ حکومت تو وسائل کی کمی کے باعث یہ سالانہ اضافی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ اس مجبوری کا ادراک کرتے ہوئے حکومت پنجاب نے کل 36 ہزار سرکاری پرائمر ی سکولوں میں سے 4250 سرکاری سکول پہلے ہی پرائیویٹ اداروں کے سپرد کر رکھے ہیں‘ جس کے بہتر نتائج نکلے ہیں۔
پہلے سے موجود سرکاری پرائمری سکولوں میں لڑکوں کے سکولوں میں 145 بچے فی سکول اور لڑکیوں کے سکولوں میں 120 بچے فی سکول زیر تعلیم ہیں۔ ان 36 ہزار سکولوں کے لیے اساتذہ کی تعداد پوری نہیں ہے۔ یہ خواہش کہ غریب کا بچہ بھی ایچیسن سکول کے معیار کی تعلیم پائے بہت دل فریب اور پرکشش محسوس ہوتی ہے‘ مگر موجودہ زمینی حقائق میں نا مناسب اور قبل از وقت ہے۔ معیار کا معاملہ تو بہت بعد کی بات ہے ابھی تو حکومت کے پاس اساتذہ ہی پورے نہیں ہیں۔
پہلے مرحلے میں گھوسٹ سکولوں کی لسٹ۔ پھر گھوسٹ اساتذہ کی فہرست۔ پھر ہر سکول میں بچوں کی تعداد اور کلاس کے مطابق اساتذہ کرام کی تعیناتی۔ پھر ان اساتذہ کی حاضری۔ پھر اس کے بعد دیکھا جائے کہ بچوںکو دی جانے والی تعلیم کا معیار کیا ہے؟ اس میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟ حکومت اپنے پہلے سے موجود 36 ہزار سکولوں کے موثر انتظام سے قاصر ہے اور انہیں پرائیویٹ اداروں کو منتقل کیا گیا تھا۔ اچھا ہو اگر موجودہ حکومت ان زمینی حقائق کا ادراک کرے اور اس بات کو سمجھے کہ پرائیویٹ سکول مجبوری ہیں۔ یہ پرائیویٹ سکول نہ ہوں تو شرح خواندگی میں اضافے کی بجائے ہر سال کمی واقع ہو گی اور قوم مزید جہالت کے اندھیروں میں دھنستی چلی جائے گی۔
پرائیویٹ شعبے میں قائم سکولوں کو کسی ضابطے کا پابند بنانا حکومت کا فرض ہے۔ اس حوالے سے پرائیویٹ سکولوں کو اساتذہ کرام کی قابلیت، پڑھائے جانے والے نصاب، ہم نصابی سرگرمیوں اور بچوں کی صحت اور سلامتی سے متعلق معیارات کا پابند بنانا حکومت کا اولین فرض ہے۔ لیکن حکومت کو اس مخمصے سے نکلنا ہو گا کہ پرائیویٹ سکول قوم کی ضرورت ہیں یا قوم کے لیے ناسور یا حکومت کی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں معاون ہیں یا بوجھ۔ اس کے بعد ہی حکومت پرائیویٹ سیکٹر کے کردار کا تعین کر کے ان سے متعلق موثر پالیسی بنا سکے گی اور ان کو جائز سہولیات فراہم کر نے لیے غور کرے گی۔