شاپنگ مال میں ایک نوجوان جوڑا اپنے پانچ سالہ بچے کے ساتھ داخل ہوا ۔ ان کا خیال تھا کہ آج مہینے بھر کے لیے شاپنگ کر لی جائے لیکن بچہ ضد کرنے لگا ۔ منع کرنے پر زور زور سے چیخنے لگتا ۔ پڑھے لکھے مہذب والدین کے لیے یہ صورتحال خاصی شرمندگی کا باعث بن رہی تھی ۔ وہ شاپنگ بھول کر اپنے بچے کو سمجھاتے رہے۔ لیکن جیسے جیسے وہ بچے کو پیار سے سمجھاتے بچہ مزید بد تمیزی کرتا۔
یہ صورتحال دیکھ کر شاپنگ مال کا منیجر ایک خاتون کے ساتھ ان کے پاس آیا اور بولا سر! یہ ہماری ماہر نفسیات ہیں۔ آپ اپنا بچہ ان کے حوالے کر دیں اور سکون سے اپنی شاپنگ مکمل کر لیں۔ والدین نے بچہ اس ماہر نفسیا ت کے حوالے کر دیا۔ وہ بچے کو لے کر اپنے کمرے میں لے گئی۔ اس کمرے کی کھڑکیاں شاپنگ ہال کی طرف تھیں۔ چند منٹ کے بعد اس نے کھڑکیوں پر پڑے پردے ہٹا دئیے تاکہ والدین اپنے بچے کو دیکھ سکیں۔ بچہ نہایت اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا۔ والدین بہت خوش ہوئے۔ آرام سے شاپنگ کی‘ واپسی پر بچے کو کمرے سے بلایا ۔ گھر جانے سے پہلے والد نے سوچا کہ میں اس ماہر نفسیات سے دریافت تو کروں کہ آخر اس نے اس قدر ضدی بچے کو کیسے کنٹرول کیا؟
وہ منیجر کے کمرے میں گئے اور ماہر نفسیات سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ ماہر نفسیا ت کو بلایا گیا۔
والد نے پوچھا کہ آخر آپ نے علم نفسیات کی کون سی تکنیک استعمال کی جس سے بچہ کنٹرول ہوا؟
ماہر نفسیات خاتون سکون سے بولی: کچھ خاص نہیں بس میں نے اسے صرف اتنا کہا کہ ''انسان بنو ورنہ ٹانگیں توڑ دوں گی‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنائی ۔ انسان تخلیق کیا اور اس کی فطرت بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ڈر انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے ۔ اگر ڈر انسان کی فطرت میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن میں اپنے بندوں کو نہ ڈراتا ۔ انبیاء کرام بھی قیامت کی منادی کرتے ہوئے یہ پیغام نہ دیتے کہ جو کوئی اللہ کے اس پیغام کو قبول کرے گا وہ آخرت میں اپنی من پسند زندگی گزارے گا اور جو کوئی اس پیغام کو قبول نہیں کرے گا اسے قیامت والے دن اللہ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مسلمانوں کے عقائد میں قیامت اور اس کے بعد جزا و سزا ایک بنیادی نکتہ ہے۔ انسان کی فطرت میں ڈرنا اور خوف کھانا رکھا گیا ہے۔ یہی خوف اسے کسی قسم کا غلط رویہ اختیار کرنے سے روکتا ہے۔ ہمارے ہاں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جسے بچپن میں ماں یا باپ سے مار نہ پڑی ہو۔ ایسا کوئی بھی نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ مجھے بچپن میں اپنے والدین کا کوئی خوف نہیں تھا۔ ہمارے ہاں تو جوانی میں بھی والد سے ڈانٹ کھانا عام سی بات ہے۔ کبھی کبھار تو کسی بزرگ کو بھی اپنے والد سے مار پڑنے کے واقعات سننے کو مل جاتے ہیں۔
اس معاملے میں ہم ان خوش نصیبوں میں شمار ہوتے ہیں جو والد صاحب کی'' تربیت‘‘ کے کڑے امتحان سے گزرے ہیں اور اکثر یہ ''تربیت‘‘ سر عام ہوا کرتی۔ مگر کبھی بھی ہماری انا کو ٹھیس نہیں پہنچی۔ کبھی ہماری ذہنی نشوونما پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ بلکہ اب یاد آتا ہے تو دل سے ان کے درجات کی بلندی کی دعا نکلتی ہے۔ کیا کسی نے کبھی اپنے والد یا استاد کے پٹائی کرنے کے ''جرم‘‘ میں ان کے لیے کوئی منفی الفاظ ادا کئے ہیں؟
والد کے علاوہ تائے، چاچے، مامے اور بڑے بھائی سب ہی بچے کی'' تربیت‘‘ میں حسب توفیق اپنا حصہ ڈالا کرتے تھے۔ غلط رویے یا شرارت کی صورت میں تو محلے کے بزرگ بالخصوص دوستوں کے والدین جہاں اپنے بچے کو دو تھپڑ رسید کرتے وہیں ہم بھی اپنے حصے کا ایک تھپڑ شکریے کے ساتھ ہی وصول کیا کرتے تھے۔ یہ ہمارا کلچر تھا کہ اگر کوئی بڑا کسی کے بچے کی شکایت کرتا تو بچے کا والد آگے سے شکوہ کیا کرتا کہ آپ نے اسی وقت اس کی ''تربیت‘‘ کیوں نہیں کی۔ کیا وہ آپ کا کچھ نہیں لگتا؟
خیر خواہی کے جذبے کے تحت اساتذہ کرام بھی مطلوبہ نتائج اور رویے میں مثبت تبدیلی کے لیے بچوں پر سختی کیا کرتے تھے۔ میرے والد صاحب مجھے چھٹی جماعت میں داخل کروانے کے لیے سکول لے گئے تو ہیڈ ماسٹر صاحب سے خصوصی درخواست کی کہ اسے کسی ایسے سیکشن میں داخل کریں جہاںماسٹر صاحب سخت ہوں۔ اساتذہ کرام اور والدین کا اپنے بچوں کو سزا دینا مشرقی ممالک کا کلچر ہے۔ پاکستان، ہندوستان، عرب ممالک، جاپان، چین وغیرہ کے معاشرے استاد کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ کسی حد تک بچوں کو جسمانی سزا دے سکتے ہیں۔
سکولوں میں والدین سے بچے کی شکایت کا رجحان نہیں تھا۔ اگر کوئی بچہ پڑھائی پر توجہ نہ دیتا یا کوئی غلط رویہ اختیار کرتا تو اساتذہ کرام خود اصلاح کرنا اپنا فرض سمجھتے اور ضرورت محسوس کرنے پر اسے جسمانی سزا بھی دیتے۔ کبھی کبھار کچھ اساتذہ کرام اس میں اعتدال سے تجاوز بھی کر جاتے اور سزا تشدد کا روپ اختیار کر لیتی جسے اس زمانے میں بھی قابل نفرت سمجھا جاتا تھا۔
آج کل ماہرین تعلیم و نفسیات نے ایسے طریقے وضع کر لیے ہیں‘ جن سے سزا کے بغیر ہی مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ''مار‘‘ کو مطلوبہ نتائج کے حصول میں آخری حربے کے طور پر ہی رکھا جانا چاہیے۔ استاد کے کام کی نگرانی پر مامور ہیڈ ماسٹر صاحب جو خود بھی استا د ہی ہوتے ہیں‘ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ کس استاد نے بِلا ضرورت بچے کو جسمانی سزا دی ہے۔ کیا اس سزا کے بغیر بھی استاد اپنا مقصد پورا کر سکتا تھا؟ کیا سزا کے عمل میں اعتدال کو مد نظر رکھا گیا ہے؟ بہرحال وہ استاد جو سزا کے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل کرتے ہیں وہ ان اساتذہ کرام سے بہتر ہیں جو سزا کا سہارا لیتے ہیں۔
آج کل کے بچے ہمارے دور کے بچوں کی طرح اتنے ڈھیٹ اور ''اتھرے‘‘ نہیں رہے۔ ان کو تو ڈرانے کے لیے صرف دھمکی ہی کافی ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ استاد کے ہاتھ میں چھڑی جس کے استعمال کی شاید ہی کبھی نوبت آئے۔ مارنے کی شاید ہی کبھی ضرورت محسوس ہو؛ تاہم اساتذہ کرام سے بھی گزارش ہے کہ مارنے کے علاوہ سزا کی دیگر صورتیں اختیار کیا کریں۔ مثلاً کلاس میں کچھ دیر کے لیے کھڑا کرنا، تفریح یا بریک پر پابندی، دیر سے چھٹی، وغیرہ وغیرہ۔ ان اقدامات سے بھی استاد اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ چونکہ ان اقدامات میں استاد کو بھی تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے اس لیے بعض اساتذہ کرام آسان طریقے یعنی جسمانی سزا کا سہارا لیتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سکولوں کے اساتذہ کی اس حوالے سے تربیت کی جائے تاکہ وہ جسمانی سزا کے بغیر بھی مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں۔ تشدد تو کسی خیر خواہی کے جذبے کے باوجود بھی گوارا نہیںکیا جا سکتا۔ جن معاشروں سے ''مار نہیں پیار‘‘ کا تصور لیا گیا ہے وہاں تو ماں کے پاس بھی بچے کو مارنے کا اختیار نہیں ہوتا‘ حالانکہ یہ زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے کہ کوئی بھی ماں اصلاح کے جذبے کے علاوہ اپنے بچے کو سزا نہیں دے سکتی۔ اگر ماں کے پاس یہ اختیار نہیں تو پھر ظاہر ہے کہ کسی دوسرے یعنی والد یا استاد کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ہمارے کلچر میں والدین اور اساتذہ کی مار ہی پیار کا اظہار ہوتا ہے اور ہماری مذہبی و معاشرتی روایات میں استاد کا مقام والد کے برابر سمجھا جاتا ہے۔
بہرحال بچوں پر سزا کا خوف رہنا چاہیے۔ یہ کردار سازی کے لیے ایک مؤثرہتھیار ہے۔ حکومت نے اپنا نظامِ تعلیم درست کرنے کی بجائے بچوں کے دوران تعلیم سکول چھوڑ جانے کی بہت سی وجوہات میں سے صرف جسمانی سزا کو ہی بنیادی وجہ سمجھا اور سکولوں میں ''مار نہیں پیار‘‘ کا نعرہ بلند کیا‘ جس سے بچوں کے سکول چھوڑ جانے کی شرح میں تو شاید کوئی کمی نہیں ہوئی؛ البتہ استاد اپنے تعلیم و تربیت کے فرض سے لا تعلق ہو گیا ہے۔ اب اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی بچہ مطلوبہ نتائج دیتا ہے یا نہیں۔ اب استاد کا مقام ایک والد جیسا نہیں بلکہ ایک ملازم جیسا ہو گیا ہے۔