کسی سیانے کا قول ہے کہ ایک ہاتھ سے کام کرو اور دوسرے ہاتھ سے ڈھول بجائو کہ ''بہت کام ہو رہا ہے، بہت کام ہو رہا ہے۔‘‘ اور اگر پھر بھی کوئی کہے کہ کام نہیں ہو رہا تو پھر دونوں ہاتھوں سے ڈھول بجایا جائے کہ ''بہت کام ہو رہا ہے بہت کام ہو رہا ہے‘‘۔
تعلیمی ادارے اور اساتذہ کرام ہر معاشرے کے لیے ہمیشہ سے محترم قرار پاتے ہیں۔ پاکستانی قوم اپنی اقدار (values) زیادہ تر مذہب سے اخذ کرتی ہے‘ اس حوالے سے بھی استاد کی تکریم بنیادی خوبی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پوری دنیا کی تمام اقوام میں بالعموم اور مشرقی اقوام میں بالخصوص استاد کے احترام کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غیر مسلم مشرقی اقوام میں بھی اساتذہ محترم قرار پاتے ہیں۔
استاد کے علاوہ اپنے سابق تعلیمی ادارے کے ساتھ بھی ایک جذباتی وابستگی اور احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ اور اسی رشتے کو قائم رکھنے کے لیے اکثر بڑے تعلیمی اداروں میں سابق طلبہ کی میٹنگز ہوتی ہیں جہاں وہ اپنے پرانے سنہری دور کو یاد کرتے ہیں اور اپنے ادارے کی بہبود کے لیے منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ نظام رائج نہیں‘ لیکن بیشتر ممالک میں تعلیمی اداروں کے لیے یہی سابق طلبا وسائل کا اہتمام کرتے ہیں اور ان اداروں کے انتظامی معاملات میں سربراہِ ادارہ کے معاون بھی بنتے ہیں۔
بچوں کے والدین بھی ان اداروں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچوں کو انسان بنانے میں ان اداروں کا کردار سب سے نمایاں ہوتا ہے۔ مسلم معاشروں میں جہاں استاد کا احترام دینی حکم کی حیثیت رکھتا ہے وہاں اگر تعلیمی ادارے کو احترام کی نظر سے نہ دیکھا جا رہا ہو تو پھر اساتذہ کرام اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کو سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے؟ معاشرے کے کامیاب افراد کی کامیابی میں تعلیمی اداروں کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ پرائیویٹ سکولز اور کالجز کا وہی مقام ہوتا ہے جو کسی بھی مادر علمی کا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ان تعلیمی اداروں کو اس قدر احترام نہیں ملتا جس کے و ہ حق دار ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ یہ ادارے اپنی کامیابیوں اور معاشرے میں اپنے مثبت کردار کو مناسب طریقے سے اجاگر نہیں کر پاتے اور افراد معاشرے کو یہ باور کرانے میں ناکام ہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی ''بہت کام کر رہے ہیں‘‘۔
پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولز کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ سکول جو میٹرک کی تعلیم دے رہے ہیں جبکہ دوسرے وہ جو ''او لیول‘‘ اور'' اے لیول‘‘ کے لیے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے انگلش میڈیم سکولز کی فیس پہلی قسم (میٹرک) کے سکولز سے قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ شاید ان کے اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کے لیے سب سے زیادہ پر کشش اور محفوظ نوکریوں کے مواقع یہاں ہی میسرآتے ہیں۔ میٹرک کے امتحانات میں ان پرائیویٹ سکولز کے نتائج سرکاری سکولوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ میٹرک کروانے والے سکولز تو اپنی کامیابیوں کی خوب تشہیر کرتے ہیں‘ جبکہ دوسری قسم کے انگلش میڈیم سکولز اپنی اعلیٰ کارکردگی کی تشہیر پر کم توجہ دیتے ہیں‘ جس سے عام لوگ ان سکولز کی اعلیٰ کارکردگی سے بے خبر رہتے ہیں۔
پنجاب میں میٹر ک اور انٹر کے امتحانات لینے اور ان طلباء و طالبات کو اسناد جاری کرنے کے لیے بورڈز قائم ہیں‘ جو ہر سال لاکھوں بچوں کے جماعت نہم و دہم اور انٹرمیڈیٹ سال اول و دوم کے امتحانات لیتے ہیں۔ یہ نو عدد خود مختار بورڈز آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لاکھوں بچوں کے ایک ہی معیار پر امتحانات لیتے ہیں۔ بچوں کی کچھ تعداد بطور پرائیویٹ طلباء و طالبات بھی ان امتحانات میں شریک ہوتی ہے۔ ان بورڈز کے نتائج ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ پرائیویٹ سکولز کے بچے بورڈز میں ہر سال پوزیشنز لیتے ہیں۔ سرکاری سکولز اور کالجز کے بچوں کی پوزیشنز کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں یہ بات سرکاری تعلیمی اداروں کی کمزور کارکردگی کا پتہ دیتی ہے وہاں یہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بہتر کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
''او لیول‘‘ اور'' اے لیول‘‘ کا ایک دوسرا نظام تعلیم بھی ہمارے ہاں رائج ہے۔ اس نظام کے تحت بھی ہزاروں بچے امتحانات دیتے ہیں۔ یہ امتحانات پوری دنیا میں ایک ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے شہروں میں قدرے مہنگی فیس والے یہ انگلش میڈیم سکول اس نظام کے تحت بچوں کے لیے انٹر نیشنل معیار کی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان امتحانات میں پاکستانی طلباء کی کارکردگی نہایت شاندار ہے اور پوری دنیا کے طلباء کی بنیاد پر مرتب ہونے والے نتائج کے اعتبار سے پاکستانی طلباء ہر سال پوری دنیا میں پوزیشنز حاصل کرتے ہیں۔ جی ہاں پوری دنیا کے طلباء میں سے پاکستانی طلباء ہر سال مختلف مضامین میں پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ بطور دلیل ان کامیابیوں کا تھوڑا ذکر ہو جائے۔ 2009 میں ''اے لیول‘‘ کے امتحانات میں علی معین نوازش نے 22 اے گریڈز حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا اور دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا تھا۔ یاد رہے کہ ''A۔ لیول‘‘ میں کل تین مضامین ہوتے ہیں۔ یہ وہی علی معین نوازش ہیں جو اب کالم نگار بھی بن چکے ہیں۔
2011 کے ''او لیول‘‘ کے امتحانات میں 23 اے گریڈز حاصل کر کے ہونہار طالب علم ابراہیم شاہد نے ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ یاد رہے کہ ''او لیول‘‘ میں کل 6 مضامین ہوتے ہیں۔ چند ماہ بعد ہی 2011 کے دوسرے سالانہ امتحانات میں زوہیب اسد نے 28 اے گریڈز لے کر اپنے ہی ہم وطن ابراہیم کا 23 اے گریڈز کا ریکارڈ توڑا۔ 2013 میں پاکستان کے مایہ ناز طالب علم ہارون طارق نے اس ریکارڈ کو 47 اے گریڈزحاصل کر کے توڑ ڈالا اور نیا ورلڈ ریکارڈ بنایا۔
اب آتے ہیں پچھلے سال یعنی 2018 کے کیمبرج امتحانات کے نتائج کی طرف۔ پوری دنیا میں منعقد ہونے والے ان امتحانات کے لاکھوں بچوں میں سے 80 پاکستانی بچوں نے 97 غیر معمولی کارکردگی کے انعام (Awards) حاصل کئے۔ ان 80 بچوں میں سے 6 بچوں نے مختلف مضامین میں دنیا میں ٹاپ کیا۔ ان بچوں میں پاکستان کے سپوت حنین ضیاء نے 66 اے گریڈز حاصل کر کے دنیا میں ٹاپ کیا اور لاکھوں بچوں کے لیے مشعل راہ قرار پائے۔ ایسے شاندار نتائج دینے پر جہاں بچے تحسین کے لائق ہیں وہاں ان کے اساتذہ کرام اور تعلیمی ادارے بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
یقینا ایسی شاندار کارکردگی کے لیے ان اداروں کو خصوصی اہتمام کرنا ہوتا ہے اور ان خصوصی اقدامات پر اضافی اخراجات ہونا ناگزیر ہیں۔ ''او لیول‘‘ اور'' اے لیول‘‘ کے امتحانات کے لئے قائم انگلش میڈیم سکولز کی اس شاندار کارکردگی سے عام لوگ بے خبر رہتے ہیں۔ یہ ادارے بھی اپنی کارکردگی کا زیادہ ڈھنڈورا نہیں پیٹتے۔ بہر حال ان سکولز میں بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان اداروں کو والدین کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ ان بچوں، اساتذہ کرام اور تعلیمی اداروں کو حکومت کی طرف سے ایوارڈ کی شکل میں پذیرائی ملنی چاہیے۔ انعامات نہ سہی کم از کم ان سکولوں کی اعلیٰ کارکردگی کا اعتراف تو کیا جائے۔ اس کے برعکس کچھ والدین کی اس بے جا خواہش پر کہ کم قیمت پر اعلیٰ معیار میسر ہو جبکہ ان کے پاس دیگر کم فیس والے سکولوں کی آپشن بھی موجود ہے۔
ایکڑوں پر مشتمل سرکاری سکولوں میں اساتذہ کرام ہیں نہ بچے۔ ایسے سکول بھی ہزاروں میں ہیں جہاں عمارت تو موجود ہے مگر تدریسی سرگرمی ندارد۔ ان حالات میں یہ پرائیویٹ سکول ہی ہیں جو کسی حد تک پاکستان کا کچھ بھرم پوری دنیا میں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سکولز صرف گریڈز کے حصول پر ہی اپنی توجہ مرکوز نہ رکھیں بلکہ استاد کے اصل کام یعنی تزکیہ نفس پر بھی توجہ دیں۔ پڑھائی کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کا بھی زیادہ اہتمام کریں تاکہ بچوں کی کردار سازی میں مدد ملے اور عملی زندگی میں وہ اچھے انسان، بہترین مسلمان‘ ذمہ دار پاکستانی اور کامیاب افراد بن سکیں۔