ہم سب بہن بھائی سہمے ہوئے تھے۔ جنگی طیاروں کی خوفناک آوازیں تھیں اور گھر میں تنائو کا ماحول۔ یہ 1971 میں بھارت کے ساتھ جنگ کے زمانے کی بات ہے۔ یہ میرا بھارت سے پہلا تعارف تھا۔ اپنے بہن بھائیوں میں میرا نمبر پانچواں تھا۔ پانچ سال کی عمر میں اپنے سے دو سال چھوٹی بہن کو حوصلہ دینے کی بھاری ذمہ داری میرے اوپر تھی۔ میں ڈرتے ہوئے اسے توتلی زبان میں نہ ڈرنے کی تلقین کر رہا تھا۔
اگلے دن صبح والد صاحب اور والدہ میں تکرار سے آنکھ کھلی۔ ویسے تو یہ نظارہ اکثر دیکھنے کو ملتا مگر اس دن کچھ زیادہ ہی گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ والدہ کا اصرار تھا کہ والد صاحب دفتر نہ جائیں کیونکہ باہر جنگ ہو رہی ہے جبکہ والد صاحب میری والدہ کو اس طرح ڈرنے پر برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میری موت کا وقت آج ہی مقرر ہے تو کیا گھر بیٹھے موت نہیں آئے گی؟ بزدلوں کی طرح گھر بیٹھے موت کا انتظار کرنے سے بہتر ہے کہ میں اپنی ڈیوٹی کی انجام دہی میں موت کا سامنا کروں اور شہید ہو جائوں۔ ساتھ ہی میرے والد صاحب نے بھارت کو دو موٹی موٹی گالیاں بھی دیں کہ بھارت ہمیں ڈرانا چاہتا ہے تو کیا ہم ڈر جائیں؟ ویسے تو والد صاحب گھر میں گالیاں دینے سے گریز کرتے تھے مگر کبھی کبھار زیادہ ناراضگی کے اظہار میں ایک آدھ گالی سننے کو مل جاتی‘ اور جب والد صاحب گالی دیتے تو عام طور پر گھر میں لڑائی ختم ہو جاتی۔ سب خاموش ہو جاتے تھے‘ یعنی گالی کے بعد مزید کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ اس کے بعد کا مرحلہ لاٹھی چارج کا ہوا کرتا تھا جس کا موقع کم ہی آتا۔ یہ ہماری گھریلو لڑائی کا ڈراپ سین ہوا کرتا تھا۔
بھارت کے خلاف یہ نفرت بچپن سے لے کر جوانی اور پھر بڑھاپے میں پہنچ گئی۔ اب یہ نفرت، یہ دشمنی ہمارے خون میں دوڑتی ہے۔ گھر سے بھارت دشمنی کا سبق ملا۔ بھارت کو دی جانے والی گالی ہی رویے کی بنیاد بنی اور بعد میں رہی سہی کسر ہمارے میٹرک کے استاد محترم چوہدری منظور صاحب نے پوری کر دی۔ جذباتی رویے میںدلیل، منطق اور موزونیت کا کوئی دخل نہیں ہوا کرتا۔ اگر جذباتی رویے میں کوئی دلیل دی بھی جاتی ہے تو وہ صرف جذبات کی ہی عکاسی کرتی ہے۔ جب شعور بیدار ہوا تو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم و تحقیق کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال اور پروفیسر ندیم بھٹی نے اسی جذباتی رویے کو دلیل اور تاریخی حوالہ جات سے ایک شعوری رویے میں تبدیل کر دیا۔ اس حقیقت کا علم ہوا کہ ہماری غربت کی ایک بنیادی وجہ بھارت ہے جس کی وجہ سے ہمیں روٹی کے بجائے ڈنڈا خریدنا پڑتا ہے۔
جب شعور میں مزید پختگی آئی تو روشن خیال، ترقی پسند اور ''وکھری‘‘ ٹائپ کی باتیں کرنے والے دوستوں کی طرح ہم بھی یہ سوچنے لگے کہ دشمنی تو کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ وہ تمام لوگ جو بھارت سے دشمنی کو قوم کا ایک جذباتی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور بہت خلوص سے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں غربت کی بنیادی وجہ یہ دشمنی ہے‘ وہ پہلے تجارت اور اچھے تعلقات اور پھر مسئلہ کشمیر کی بات کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دوستی ہو گئی تو پھر مسئلہ کشمیر بھی حل ہو جائے گا۔ اللہ کرے ایسا ہو مگر اس کا موقع بھی تو بھارت نے فراہم کرنا ہے۔ یہ لوگ بھارت سے دوستی جیسے دلفریب نعروں سے قوم کو بھارت دشمنی سے دور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ بہت خوبصورت بات ہے جو کسی بھی پڑھے لکھے معقول شخص کے لیے کشش کا باعث ہو سکتی ہے۔ اکیس کروڑ عوام میں دو چار ہزار ایسے ''مفکرین‘‘ ہونے چاہئیں جو بھارت سے دوستی کا پرچار کریں، سرحدوں پر دیے روشن کریں۔ ایک ہوا، ایک زمین اور ایک موسم کی بات کریں۔ محبت‘ رواداری، دوستی، امن اور ثقافتی رشتوں کی بات کریں اور دشمنی ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ''روئے تسی وی او، تے روئے اسی وی آں‘‘ جیسی نظمیں لکھنے والے خلوص سے اس میں پاکستان کے عوام کا مفاد تلاش کرتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کی سالہا سال کی جدوجہد اور ہزاروں قربانیوں کا حاصل پاک بھارت سرحد کو ''لکیر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو اِن کے خیال میں مٹائی جانی چاہیے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں ایسی ''لکیریں‘‘ ہی ملکوں کی سرحدیں ہوتی ہیں۔ ایک سرحد کے اندر ایک قوم اور دوسری سرحد میں دوسری قوم۔ دنیا میں ایک جیسے رنگ و نسل، زبان، رہن سہن اور مذہبی نظریات کے باوجود الگ الگ اقوام ہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والے صرف اور صرف عقل کی بنیاد پر رویہ تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں۔ مگر بھارت کا شکریہ کہ اس نے کبھی پاکستانیوں کے دل میں اپنے لیے موجود دشمنی کو کم نہیں ہونے دیا۔ جس طرح گاڑی کی ٹیوننگ کی جاتی ہے تاکہ وہ پھر سے ''پہلے جیسی حالت‘‘ میں آ جائے اسی طرح بھارت بھی اپنی پاکستان دشمنی کے رویے کو ہر سال دو سال بعد ٹیوننگ کر کے اسے پھر سے ''پہلے جیسی حالت‘‘ میں لے آتا ہے۔
بھارت پاکستان سے آبادی کے اعتبار سے پانچ گنا بڑا‘ اور جنگی صلاحیت کے اعتبار سے تین گنا زیادہ طاقتور ملک ہے۔ اسے دوستی کے لیے پہل کرنا تھی۔ دوستی کا ہاتھ اسے بڑھانا تھا۔ چھوٹا اور قدرے کمزور ملک کیسے جارحیت کر سکتا ہے؟ لیکن بھارت کی یہ خواہش کہ پاکستان اس سے مرعوب ہو کر کشمیر کے معاملے میں خاموش ہو جائے‘ شاید دوستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اپنی طاقت کا گھمنڈ ہی بھارت کو بے قرار رکھتا ہے کہ اس کی اتنی بڑی جنگی قوت سے پاکستان مرعوب کیوں نہیں ہوتا؟
پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے وہ اکثر ایسی مہم جوئی کرتا رہتا ہے۔ پاکستان تو صرف بھارت سے اپنے دفاع کو ہی اپنا ہدف قرار دیتا ہے‘ اور اس ضمن میں پاکستان کی حملہ کرنے کی صلاحیت بھی دفاع کی ہی ایک موثر حکمت عملی ہے‘ کیونکہ Offence is the Best Defence۔ بھارت ایک دشمن ملک ہے اور دشمن کی نیت نہیں بلکہ صلاحیت پر نظر رکھی جاتی ہے۔
بھارت زیادہ آبادی اور بڑی منڈی کی وجہ سے اقوام عالم میں معزز مقام حاصل کر سکتا تھا اور شاید سلامتی کونسل کے مستقل ممبر کی حیثیت بھی اسے مل جاتی، مگر پاکستان دشمنی اور مسئلہ کشمیر پر اپنی روایتی ہٹ دھرمی کے باعث وہ یہ موقع بار بار کھو دیتا ہے۔
حالیہ جارحیت پر پوری دنیا کے علاوہ بھارتی اور پاکستانی قوم نے بھی یہ مشاہدہ کیا کہ کم از کم بھارت کے معاملے میں پوری پاکستانی قوم متحد ہے‘ اور افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ بھارت، پاکستان کو طاقت سے نہیں صرف اور صرف محبت سے جیت سکتا ہے۔ یہ قوم مٹ تو سکتی ہے مگر بھارت کی بالا دستی کبھی قبول نہیں کرے گی۔
دوستی کی بات کرنے والے یہ ''مفکرین‘‘ پوری قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ یہ کیسے جاہل لوگ ہیں جو کھیل میں بھی بھارت سے ہارنے پر اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ غلط ہیں یا صحیح۔ بس ایسے ہی ہیں۔
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
بھارت سے ہار تو کسی شعبہ میں گوارا نہیں۔ کھیل میں بھی نہیں۔ یہ بات فوج کا ہر ایک جوان اور افسر جانتا ہے۔ تو وہ کیسے بھارت کے مقابلے میں پیٹھ دکھا سکتا ہے۔ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اگر کبھی ایسا ہوا تو اس کی ماں اسے اپنا دودھ نہیں بخشے گی۔ اس کی بیوی اس کے لیے گھر کا دروازہ نہیں کھولے گی۔ اس کا بیٹا دوڑتا ہوا اس سے نہیں لپٹے گا۔ اس کا کوئی استاد اس کے سلام کا جواب نہیں دے گا۔ اگر کسی فوجی جوان کے والد ہمارے والد جیسے ہوئے تو شاید محاذ پر پیٹھ دکھانے کے جرم میں وہ خود ہی اس کی جان لے لیں۔ کیا کوئی بھارت اور پوری دنیا کو یہ بتائے گا کہ پاکستانی فوج نے بھارت کی جارحیت پر جیسا رد عمل دیا ہے‘ اس نے ایسا ہی کرنا تھا۔ جذبۂ شہادت سے سرشار فوج آئندہ بھی ایسا ہی کرے گی۔ جس قوم کے ہر دوسرے تیسرے گھر میں شہید رہتا ہو، اسے موت سے کیسے ڈرایا جا سکتا ہے؟