"AMK" (space) message & send to 7575

کامیاب

ہر سال میٹرک کے تقریباً 20 لاکھ بچے پنجاب کے 9 بورڈز سے امتحانات کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ ان تمام بورڈز کے امتحانات ایک ڈیٹ شیٹ اور ایک ہی معیار کے تحت منعقد ہوتے ہیں۔
ان 20 لاکھ بچوں میں سے ہر سال ہر بورڈ کے 12 بچے پوزیشنز لیتے ہیں۔ یعنی ہر سال پنجاب کے تمام بورڈز سے 108 سب سے اچھے اور ذہین بچوں کا تعین ہوتا ہے۔ ان کو ہم امتحانی نتائج کی بنیاد پر سب سے زیادہ با صلاحیت، محنتی اور خوش قسمت کہہ سکتے ہیں۔ پھر یہی ذہین اور ''با صلاحیت بچے‘‘ اگلے مرحلے یعنی انٹرمیڈیٹ کے امتحانات بھی دیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میٹرک کے یہ 108 ذہین بچے ہی انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں پوزیشنز لیتے‘ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ سے زیادہ 25 فی صد ہی انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں پوزیشنز لے پاتے ہیں۔ ان 108 بچوں میں صلاحیت تو موجود تھی مگر محنت میں شاید کوئی کمی تھی اور اس طرح قسمت اس بار ان پر پہلے کی طرح مہربان نہ ہوئی اور ان امتحانات میں دوسرے بچوں نے ان کی جگہ لے لی۔ اب اگر صرف انٹرمیڈیٹ میں پری میڈیکل گروپ کی بات کریں تو ہر سال بورڈ کی 6 پوزیشنز ہوتی ہیں۔ اس طرح پورے پنجاب کے 9 بورڈز میں کل 54 بچے پوزیشنز لیتے ہیں۔
اب یہی 54 ''ذہین بچے‘‘ میڈیکل کالجز کے داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کا امتحان دیتے ہیں مگر دوبارہ حیران کن بات یہ سامنے آتی ہے کہ ان 54 بچوں میں سے انٹری ٹیسٹ میں شاید ہی کوئی بچہ پوزیشن لیتا ہو۔ دیگر بچے ان امتحان میں پوزیشنز لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
انٹر ی ٹیسٹ اور انٹرمیڈیٹ و میٹرک کے امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے میرٹ ترتیب دیا جاتا ہے اور بچے سرکاری اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں میرٹ کے اعتبار سے داخلہ لیتے ہیں۔ جہاں یہ بچے 5 سال میں 4 پروفیشنل امتحانات دیتے ہیں۔ ان امتحانات میں بھی پنجاب کے تمام میڈیکل کالجز کے لیے ایک ہی معیار پر امتحانات لئے جاتے ہیں۔ یہ امتحانات یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لیتی ہے۔ اب جو بچے میرٹ کے اعتبار سے صف اول کے ٹاپ میرٹ والے میڈیکل کالج میں داخل ہوئے تھے، ہونا تو یہ چاہئے کہ وہی پروفیشنل امتحانات میں پوزیشنز لیتے۔ مگر یہاں بھی کم میرٹ والے پرائیویٹ کالجز کے بچے پوزیشنز لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
میڈیکل کالج سے فارغ ہو کر کچھ بچے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں جبکہ کچھ بچے مزید پڑھائی کرتے ہوئے ماہر ڈاکٹر(Specialists) بننے کے لیے امتحانات کے مشکل مراحل سے گزرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ تعلیم کے دوران پوزیشنز لینے والے بچے ہی اس مشکل مرحلوں کو کامیابی اور آسانی سے طے کرنے میں کامیاب ہونے چاہئیں‘ مگر یہاں بھی میڈیکل کالج کے یہ ٹاپر (Topper) اس شرح سے کامیاب نہیں ہوتے جس کی توقع کی جاتی ہے۔ 
ماہر ڈاکٹر بننے کے بعد عملی زندگی میں تو ان سب ماہرین (Specialists) کی صلاحیت اور محنت یکساں ہوتی ہے تو پھر عملی زندگی میں کامیابی بھی یکساں ہونی چاہیے‘ مگر عملی زندگی میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ان یکساں قابلیت والے ماہرین میں سے بھی کچھ تو بہت معروف ڈاکٹر بنتے ہیں اور ان کی روزانہ کی آمدنی لاکھوں میں ہوتی ہے‘ جبکہ کچھ کی محض چند ہزار روپے تک محدود رہتی ہے۔ یکساں قابلیت کے باوجود پھر کیا وجہ ہے کہ چند ڈاکٹر ہی بہت کامیاب ہوتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے کبھی پوزیشن لی ہو؟ عملی زندگی میں ان کی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ دوران تعلیم بھی با صلاحیت اور ذہین تھے مگر وہاں تو کوئی پوزیشن نہیں لے پائے؛ تاہم عملی زندگی میں یہ بہت کامیاب بن گئے۔ پھر پڑھائی کے دوران ان کی صلاحیت اور ذہانت ظاہر کیوں نہیں ہوئی؟ کہاں جاتے ہیں یہ ذہین بچے؟ دوران تعلیم میٹرک کی ٹاپ پوزیشنز لینے والے انٹرمیڈیٹ اور انٹرمیڈیٹ میں پوزیشنز لینے والے پیشہ ورانہ تعلیم کے دوران پوزیشنز لیتے ہوئے کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔ صلاحیت تو موجود تھی مگر شاید محنت کی کمی یا پھر امتحانی نظام کی اپنی محدودات ہوں جس کی وجہ سے یہ صلاحیت کا مکمل احاطہ نہیں کر پاتا اور یہ امتحانی نظام عملی زندگی میںکامیابی کے لیے درکار صلاحیت کو جانچ نہیں سکتا۔ بہرحال یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ عملی زندگی میں یہ اس طرح ''کامیاب‘‘ نہیں ہو پاتے‘ جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ 
ماہرین نفسیات عملی زندگی میں کامیاب لوگوں کی کامیابی کا راز جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے بہت تجزیے اور تحقیق ہوئی ہے۔ بے شمار کتب لکھی گئی ہیں کہ کامیاب لوگوں کی کامیابی کا کیا راز ہوتا ہے؟ ہر شعبۂ زندگی کے کامیاب لوگوں کے حالات لکھے بھی جاتے ہیں اور شوق سے پڑھے بھی جاتے ہیں تاکہ کامیابی حاصل کی جا سکے۔ دنیاوی لحاظ سے زندگی میں کامیابی دراصل ایک معروضی اصطلاح ہے۔ ہر کسی کے لیے اس کا مفہوم الگ الگ ہو سکتا ہے۔ ایک نئے بھرتی ہونے والے فوجی افسر کے لیے اس کا جنرل ہی کامیاب اور آئیڈیل ہوتا ہے اور کسی کاروباری کے لیے اس کے اپنے شعبے کا بڑا کاروباری اس کی نظر میں کامیاب شخص ہوتا ہے۔ کسی کے لیے کوئی بڑا فنکار کامیاب قرار پاتا ہے تو کسی کے لیے ارب پتی سرمایہ دار، کوئی حکمرانوں کو کامیاب قرار دیتا ہے تو کوئی اعلیٰ عدالت کے کسی جج کو۔ عملی زندگی میں عمومی تعریف کے مطابق امیر، محترم، مشہور، با صلاحیت اور با اختیار لوگوں کو ہی کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ 
پیشہ ورانہ مہارت، قابلیت اور محنت کے علاوہ ہر کامیاب شخص میں کچھ دیگر خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ کامیاب لوگ بہتر تفہیم (Comprehension)، اچھا اظہار (Expression)، معاملہ فہمی، متوازن رویے، مردم شناسی، بین السطور ''Between the Lines‘‘ پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت، وسیع تناظر میں معاملے کو دیکھنے کی صلاحیت(Beyond the Canvas)، انسانی کاوش کی حدود سے آشنا، ٹھیک اندازے لگانے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کامیاب لوگوں میں حقیقت پسندی، خود شناسی، نئی سوچ، خطرہ مول لینے کا حوصلہ اور سب سے اہم بات کہ کامیاب ہونے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ 
عادات میں یہ کامیاب لوگ وقت ضائع نہیں کرتے۔ رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ ان میں حس مزاح بھی ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ملنسار ہوتے ہیں۔ وقت کی پابندی ان کی عادت ہوتی ہے۔ یہ لوگ محنت اور جدوجہد کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ خود پسندی اور خود ترحمی ان میں موجود نہیں ہوتی۔ خود پر کنٹرول رکھتے ہیں، درگزر کرنے والے رحم دل ہوتے ہیں، زبان پر کنٹرول ہوتا ہے، حسن سلوک اور مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں، اہداف کا تعین کر سکتے ہیں اور اہداف پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ سوچ بچار، جدت پسندی، خود اعتمادی کے حامل یہ لوگ اپنے فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور ناکامی سے سیکھتے ہیں۔ ناکامی میں حوصلہ نہیں ہارتے، چیلنجز قبول کرتے ہیں۔ اگر یہ قابلیت اور عادات کسی میں موجود ہوں تو کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں‘ لیکن کیا اپنے شعبے میں پیشہ ورانہ مہارت اور قابلیت کے علاوہ ان خوبیوں اور عادات کے حامل تمام افراد ہی کامیاب ہوتے ہیں؟ 
عملی زندگی میں ایسے بے شمار لوگ ملتے ہیں جو اوپر بیان کی گئی کامیابی کے لیے درکار تمام شخصی خوبیوں اور عادات کے حامل ہونے کے بعد بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ اس کا جواب صرف ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ ''قسمت‘‘ ہے۔ ایسے با صلاحیت لوگ خوش قسمت لوگوں کی نوکری کرتے پائے جاتے ہیں۔ کامیاب لوگ ''خوش قسمت‘‘ ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھنے والے ''کامیاب‘‘۔ خوش قسمت تو وہ ہوتا ہے جو اپنی قسمت، اپنے حالات اور خود پر ہونے والی اللہ کی رحمت پر خوش رہے۔ ہر وہ شخص کامیاب ہے جو مطمئن ہے اور قناعت اور صبر و شکر کی دولت سے مالا مال ہے۔ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ ہماری کم صلاحیت اور محنت کے باوجود اپنی رحمت سے کامیابیوں سے ہمکنار کرے اور قناعت اور شکر گزار ہونے کا عادی بنائے۔ 
اگر آسودگی اور وسائل صرف صلاحیت کی بنیاد پر عطا ہوتے تو ہمارے جیسے کروڑوں لوگ بھوکے مر جاتے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں