ہزاروں سال پہلے انسان جانوروں کی طرح جنگلوں میں آباد تھا۔ اپنی فطرت کے باعث انسان ابتدا سے ہی گروہوں میں رہتا تھا۔ اس پر اس کے حیوانی مطالبات کا غلبہ تھا۔ اس کا اخلاقی وجود ابھی کمزور تھا۔ انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی اخلاقی معیار اور اچھے بُرے کی تمیز سے عاری تھا۔ اس کے نزدیک جائز اور ناجائز کا تصور بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی کوئی قانون تھا جو اسے زیادتی سے روکتا۔ صرف جنگل کا قانون رائج تھا۔ ایسے میں افراد اور معاشرے کے درمیان تنازعات کا جنم لینا ناگزیر تھا‘ اور طاقت ہی ان تنازعات کا فیصلہ کرتی۔ انسانی تمدن نے مزید ترقی کی‘ مختلف گروہ کسی نہ کسی عصبیت کی بنیاد پر متحد ہوتے چلے گئے اور قبائل بنتے چلے گئے۔ ابتدا میں یہ عصبیت ایک خاندان کی تھی۔
انسان کے اخلاقی وجود کو بیدار کرنے اور اس کے تزکیہ نفس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ابتدا سے ہی انبیا کرام کا اہتمام فرمایا جو لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت کرنے کا درس دیتے اور ساتھ ہی قیامت کی منادی کے علاوہ انسان کے تزکیہ نفس کا فریضہ بھی انجام دیتے۔ ان الہامی ہدایات اور اجتماعی دانش سے رفتہ رفتہ انسان کے اخلاقی وجود کا اظہار ہوا۔ انسان نے اچھے اور بُرے، جائز و ناجائز اور انصاف و ظلم میں فرق کو سمجھنا شروع کر دیا۔ دوبارہ ایسے تنازعے کی صورت میں کیا فیصلہ ہو گا یہ طے ہوا‘ جو قانون کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ پہلے حق اور حق تلفی کی تعریف طے کی گئی پھر اس حق تلفی پر فیصلہ ہوا اور انہی انصاف پر مبنی فیصلوں سے قانون وجود میں آیا۔
معاشروں یا گروہوں کے اندر افراد اور معاشرے کے مابین حقوق طے ہوئے اور پھر کچھ حد تک ظالم کو قابل تعزیر بنایا گیا۔ جرم پر سزا کا تصور قائم ہوا۔ اس طرح انسانی معاشرے ترقی کرتے چلے گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسان قبائلی تمدن سے بستیوں میں آباد ہوتے گئے‘ مختلف قبائل نے آبادیوں کی شکل اختیار کر لی‘ کسی ایک قبیلے کے حق ملکیت کا تصور پیدا ہوا اور پھر وسائل پر تصرف کی خواہش نے مختلف قبائل کے درمیان تنازعات پیدا کئے۔ ان تنازعات کا فیصلہ بھی طاقت کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا۔ فاتح قبائل کا ظلم ہی انصاف قرار پایا کرتا تھا اور فاتح قبائل تمام وسائل پر قبضہ کر لیتے۔ ان کے بچوں کو غلام بنا لیا جاتا اور عورتوں کو لونڈیاں۔ مردوں کو قتل کر دیا جاتا اور اس طرح دنیا میں جنگل کا قانون رائج رہا۔ آہستہ آہستہ ان بستیوں نے ایک قوم کا روپ دھار لیا جو بعد میں ممالک قرار پائے۔ جس طرح ابتدا میں انسان حیوانی جبلت کے باعث بزور طاقت دوسروں کی ملکیت اور وسائل پر قبضہ کر لیتا تھا، اسی طرح طاقتور ممالک نے بھی کمزور ممالک کے وسائل پر قبضہ کر کے دنیا میں ظلم، نا انصافی اور فساد برپا کئے رکھا۔ ان ممالک کے درمیان باہمی تنازعات کے لیے کچھ اصول مرتب ہوئے؛ تاہم ان کے درمیان بھی طاقت ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی تمدن ترقی کرتا گیا۔ قبائلی تمدن سے آگے بڑھ کر اقوام کی تشکیل ہوئی۔ اقوام نے مخصوص خطۂ ارض کو اپنی سرحد قرار دیا۔
انیسویں صدی کے آغاز تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔ معاشروں کے اندر انصاف قائم رہا کیونکہ انصاف کے بغیر معاشرہ قائم ہی نہیں رہ سکتا اور قانون و انصاف ہی افراد کو ایک اکائی کی صورت میں متحد رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ جن اقوام اور ممالک کے ہاں انصاف تھا، قانون کی حکمرانی تھی وہاں امن رہا اور ان ممالک میں ترقی کی رفتار قدرے بہتر رہی۔ موجودہ دور میں بھی اس کے کچھ اثرات ملتے ہیں یعنی کسی طاقتور ملک نے کسی خطے کے افراد کو بزور طاقت غلام بنا رکھا ہے‘ جیسا کہ کشمیر اور فلسطین۔
طاقتور اقوام نے بھی وہی حیوانی جبلت والا رویہ اختیار کئے رکھا اور کمزور اقوام کے وسائل پر قبضہ کر کے انہیں اپنی حدود میں شامل کرتی رہیں اور ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار رہیں۔ یہ صورت حال ابھی تک موجود ہے۔ پہلے زمین پیداوار کا ایک ہم ذریعہ ہوتی تھی‘ اس لیے کمزور ممالک کی زمین پر قبضہ کیا جاتا تھا۔ اس کے وسائل پر قبضے کے علاوہ افراد کو محکوم بنا کر اس خطے کے بسنے والوں سے بھاری ٹیکس وصول کیا جاتا اور مال و دولت لوٹ لیا جاتا تھا۔ ہر زمانے میں اقوام اور ممالک‘ دونوں فاتح اور مفتوح کی حیثیت سے کرہ ارض پر موجود رہے۔ اقوام عالم نے اس بات کا احساس کیا اور اس طرح دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی‘ جس نے اقوام کے مابین حق ملکیت کو طے کیا ۔ اس وقت یہی انتظام دنیا میں رائج ہے۔
اگر اقوامِ عالم کے درمیان انصاف پر مبنی نظام موجود ہوتا تو دنیا میں امن قائم ہو جاتا۔ ممالک کے درمیان جنگیں نہ ہوتیں۔ انصاف ہی ظلم، بد امنی، جنگ و جدل کو روکنے کا واحد حل ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ دنیا کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ صرف امریکہ کی خواہشات کا تابع ہو کر محض اسی کے مفادات اور اسی کی بدمعاشی کو قانونی تحفظ دینے والا ادارہ بن گیا۔ اس صورتحال میں مظلوم اقوام کے اندر افراد میں بے چینی پیدا ہونا لازمی امر تھا۔ اسی بے چینی کے نتیجے اور ظلم کے رد عمل میں ان مظلوم اقوام میں سے ایسے گروہ پیدا ہوئے جو بزور طاقت بالا دست اور طاقتور اقوام کے خلاف مسلح کارروائی کرنا شروع ہوئے۔ پھر ان گروہوں نے اپنے فہم کے مطابق ان ظالم اقوام کے بے گناہ افراد کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائیاں کیں، بلکہ اپنی حکومت اور اپنے افراد کے خلاف بھی برسر پیکار ہوئے۔ ان تنظیموں کے مقاصد جتنے مرضی اعلیٰ ہوں‘ مگر طریقہ کار غلط ہے۔ اگر کسی پر ظلم ہو رہا ہو تو کیا یہ مناسب ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے بے گناہ نہتے لوگوں کو مارنا شروع کر دے اور خود بھی ظلم کا مرتکب ہو جائے۔ ایسا کرنا کسی بھی مذہب کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے اپنے طور پر جہاد کا اعلان کر رکھا ہے اور اسے مذہبی حکم سے تعبیر کرتی ہیں۔ یہ ان کا غلط فہمِ دین ہے‘ جو ان کو اور پوری قوم کو نقصان میں مبتلا کئے ہوئے ہے اور دنیا بھر میں فساد کا باعث ہے۔
اہل مذہب ایسے گروہوں سے اظہار لا تعلقی کرتے ہیں اور دہشت گردی کی ہر کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ایسے گروہوں کا مستقبل سوائے ان کی اپنی بربادی کے کچھ نہیں۔ عالمی سطح پر انصاف کے حصول کے لیے یہ طریقہ مظلوم اقوام کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے اور نتیجہ یہ کہ اب ان مظلوم اقوام کا درست موقف بھی دنیا تسلیم نہیں کرتی۔ یہ تنظیمیں مظلوم اقوام کے موقف کو کمزور کرتی ہیں۔ میرے خیال میں دہشت گردی دنیا میں ہونے والی نا انصافی کا غلط رد عمل ہے۔ نیوزی لینڈ میں جو کچھ ہوا‘ سب اس سے آگاہ ہیں۔ دیگر پُر امن ممالک میں بھی اس سے ملتا جلتا رد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اب اگر اس رد عمل پر مزید رد عمل ہوا تو یہ بہت خطرناک بات ہو گی اور یہ دنیا کسی کے لیے بھی رہنے کے قابل نہ رہے گی۔ پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں مختلف نظریات کے حامل لوگ اکٹھے آباد نہ ہوں۔
یہ ابلاغ کا دور ہے۔ اپنی بات اور موقف کو دلیل کے ساتھ پیش کرنا ہی جہاد ہے۔ میڈیا ہی محاذ جنگ ہے اور مظلوموں کے جائز موقف کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا ہی جہاد ہے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان اور دنیا کے دیگر خطوں کے عوام پر ہونے والے مظالم اور نا انصافی کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے موثر انداز میں دلیل کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا۔ دنیا سے اپنی بات گولی یا بندوق سے نہیں بلکہ دلیل اور ثبوت سے منوائی جا سکتی ہے۔
دنیا کی غالب اقوام انصاف قائم کر کے اس دہشت گردی کو روک سکتی ہیں۔ ان کے تھنک ٹینک اپنی حکومتوں کو کیوں اس بات پر آمادہ نہیں کرتے کہ اس دہشت گردی کا موثر اور دیرپا حل صرف اقوام کے مابین انصاف ہے۔