اگر آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو پہلے اس مسئلے کی وجوہات پر غور کریں۔ اس کے بعد اس مسئلے کے تمام ممکنہ حل تلا ش کریں۔ پھر ایک ایک کرکے تمام فیصلوں کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں۔ اگر آپ کسی ایک فیصلے پر نہ پہنچ سکیں اور ابہام کا شکار ہوں تو پھر اللہ سے خصوصی مدد مانگیں۔ دو رکعت نماز نفل برائے حاجت ادا کریں۔ اللہ سے دعا کریں کہ یا اللہ! مجھے درست فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرما اور پھر جیسا بیوی کہے ویسے کریں۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اگر وہ فیصلہ درست ثابت ہوا تو پھرآپ کی خیر نہیں۔ پھر تو آپ کی زندگی کی تمام کامیابیاں اگر ہیں تو وہ سب بیوی کے فہم و فراست سے بھرپور مشوروں کی وجہ سے یا پھر کم از کم آپ کو حاصل آسودگی کی اصل وجہ تو وہی ہے کیونکہ صدیوں سے اس خطے کے رہنے والوں کے ہاں عورت کو لکشمی یعنی دولت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مردوں کی زندگی میںآسودگی عورت لاتی ہے۔ ویسے تو ہمارے خیال میں تنگ دستی کی وجہ بھی عورت ہی ہوتی ہے۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ مردوں کے ساتھ ہونے والا ''اچھا یا برا‘‘ سب عورت کی وجہ سے ہے۔ مردوں کی زندگی میں عورت کے مقام پر بات کرنا کچھ لا حاصل سی بحث لگتی ہے کیونکہ مردوں کی زندگی تو ہوتی ہی عورت کے لیے ہے۔ دنیا بھر کے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں سب سے گہرا رشتہ ماں کا ہوتا ہے جو کہ عورت کا بلند ترین مرتبہ ہے۔ بچے کے لیے باپ کی عزت کرنا بھی تو ماں کے ہی موہون منت ہوتا ہے۔ بعد ازاں اس رشتے سے ہی باقی سارے رشتے وجود میں آتے ہیں۔ یہ رشتہ ہی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہم نے ستر ستر سال کے بوڑھوں کو اپنی ماں کو یاد کر کے بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب اس عورت یعنی ماں کو مزید کیا مقام دیا جا سکتا ہے۔
ماں کو اپنے بیٹے سے شکایت بھی تو دوسری عورت یعنی بیوی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں شاید ہی کوئی مرد ماں اور بیوی کے مقام کے بارے میں ابہام کا شکار ہو۔ اگر کسی موقع پر ماں زیادتی کی مرتکب ہو رہی ہو تو مرد کے لیے یہ صورتحال شاید زندگی کی سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ وہ تو ماں کی تصحیح بھی نہیں کر سکتا۔ وہ جس سے بھی بات کرے گا آگے سے فیصلہ ماں کے حق میں ہی آئے گا۔
عورت کا دوسرا اہم روپ بیٹی کا ہے۔ باپ تو اپنی ساری زندگی بچی کی شادی کی تیاریوں میں ہی گزار دیتا ہے۔ مردوں کے لیے اس کی ماں، بہن اور بیٹی کی ناموس اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے جس کے لیے ہزار بیٹے بھی قربان کئے جا سکتے ہیں۔ مردوں کے لیے ان کی عورتوں کی توہین ہی گالی ہوتی ہے۔ ہماری جیلیں ایسے مردوں سے بھری پڑی ہیں جو اپنی عورتوں کی توہین پر مشتعل ہو کر کوئی مجرمانہ اقدام کر گزرے۔ عورت کا ایک اور اہم روپ محبوب کا ہے۔ اگر اردو شاعری کی بات کریں تو شعراء کے لیے عورت کا شاید صرف یہی روپ اس کرہ ارض پر موجود ہے۔ دیگر زبانوں کا تو کچھ علم نہیں مگر ہمارے شعراء نے تو اس باب میں کمال ہی کر دیا ہے۔ کلاسیکل شعراء سے لے کر عصر حاضر کے جدید شعراء تک ان کے ہاں صرف ایک ہی موضوع ملتا ہے اور وہ عورت بطور محبوب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے علاوہ عورت کا مردوں سے اور کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔ اردو شاعری میں ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے رشتوں کے لیے مردوں کے جذبات کی عکاسی کم ملتی ہے۔ باپ، بیٹا، بھائی کے بارے میں جذبات اور احساسات کو شاید ہی کسی شاعر نے موضوع بنایا ہو۔ عورت اس حوالے سے مردوں کے اعصاب پر سوار دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورتوں کو بطور ماں، بیوی، بہن اور بیٹی کے تو عمومی طور پر وہ مقام ملتا ہے جس کی وہ حق دار ہیں لیکن اس کے علاوہ معاشرے میں عورت کے دیگر کرداروں میں اس کے احترام میں اضافے کی ضرورت ہے۔
کچھ مردوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ وہ شاید عورت سے کوئی برتر مخلوق ہیں۔ مذہبی حوالے سے بھی صرف گھر کی حد تک خاوند کو بیوی پر ایک درجہ برتری حاصل ہے۔ یہ برتری خاوند کو بیوی پر حاصل ہے نہ کہ مرد کو عورت پر۔ اس کے بر عکس عورت کو بطور ماں مردوں پر برتری حاصل ہے۔ اس حوالے سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ عورت کا مقام مردوں سے بلند ہے۔ عورت اور مرد کے صرف ایک رشتے میں برتری کی بنیاد پر مرد کیسے عمومی طور پر برتر قرار دیا جا سکتا ہے۔
انسانی تمدن کے ابتداء سے ہی خوراک کا بندوبست مرد کا فریضہ رہا ہے جو جسمانی مشقت اور طاقت کا متقاضی ہے۔ جسمانی طاقت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر برتری عطا کی ہے۔ مردوں کا دوسرا اہم فریضہ اپنے خاندان کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی جسمانی طاقت کی ضرورت ہے۔ اب یہ فریضہ ریاست ادا کرتی ہے۔ معاشروں اور اقوام میں قانون کی موجودگی میں مردوں کا یہ فریضہ باقی نہیں رہا۔ اب خوراک کے حصول کا انحصار صرف جسمانی طاقت پر نہیں رہا۔ اب اس کا زیادہ تر انحصار ذہنی صلاحیتوں پر ہے اور ذہنی صلاحیتوں کے باب میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اب مردوں کو اپنے صدیوں پرانے اس کردار اور اپنی اس برتری کے احساس سے نکل جانا چاہیے۔ اب مردوں کو معاشرے میں عورتوں کو احترام کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور اب انہیں ان کی صلاحیتوں کا معترف ہونا ہو گا۔
معاشرے میں عورت کے دیگر کردار مثلاً کلاس فیلو، ساتھی ورکر، ماتحت، افسر، استاد، شاگرد وغیرہ کی حیثیت سے احترام دینا مردوں کا فرض ہے۔ فطری اعتبار سے ایک عورت کے لیے اس کا گھر ہی پہلی ترجیح ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے وہ باہر کے معاملات اور معاشی سرگرمیوں پر مردوں سے قدرے کم توجہ دے پاتی ہے۔ کیا یہ کسی عورت کے لیے ممکن ہے کہ گھر میں اس کا بچہ بیمار ہو اور وہ سکون سے اپنی دیگر ذمہ داریاں پوری کر سکے؟ عورتوں کے کام کی نگرانی پر مامور مردوں کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے۔ بہر حال معاشی سرگرمیوںمیں حصہ لینا زیادہ تر عورت کی مجبوری ہوتی ہے۔ مرد سب سے بڑا ظلم یہ کرتے ہیں کہ عورتوں کو حقیر اور کم تر سمجھتے ہیں۔ مردوں کی اس سوچ کو بدلنا ہی مقصود ہے۔ مردوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر عورت کسی معاشی سرگرمی میں حصہ لیتی ہے تو وہ دراصل مردوں کی ذمہ داری پوری کرتی ہیں۔ مردوں کو تو عورتوں کے اس اضافی کردار پر ان کا ممنون ہونا چاہیے کہ بچوں کی پرورش کے علاوہ وہ مردوں کی معاشی ذمہ داری میں بھی مدد فراہم کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر مردوں کو بھی گھر کے کام میں عورتوں کا تھوڑا بہت ہا تھ بٹانا پڑے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ پچھلے دنوں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر لاہور میں عورتوں کے احتجاج پر ہمارا ''ہاسا‘‘ نکل گیا اور بچپن میں سنی ہوئی ایک پرانی کہانی یادآ گئی جس میں ایک ''ظالم جن‘‘ کی جان ایک طوطے میں تھی۔ عورتوں کا اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ وہ طوطا اس ''ظالم جن‘‘ سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کو جائز مقام نہیں دے رہا۔ ویسے بھی عورتوں پر زیادہ ظلم عورتیں ہی کرتی ہیں۔ مرد تو اکثر اس ظلم کے آلہ کار بنتے ہیں۔ زیادہ تر مرد یہ ظلم عورتوں کی ایما اور خوشنودی کے لیے کرتے ہیں۔
مردوں کا ریموٹ کنٹرول عورتوں کے پاس ہوتا ہے۔ جو عورتیں اس ریموٹ کنٹرول کا ٹھیک استعمال جانتی ہیں وہ ہر جگہ ہر روپ میں ہر کردار میں مردوں پر حکومت کرتی ہیں۔