انسان کو حیوان سے ممتاز کرنے والی بے شمار خصوصیات میں ایک اظہار بھی ہے۔ انسان کو حیوانِ ناطق بھی کہا جاتا ہے۔ ویسے تو جانور بھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں‘ لیکن عقل و شعور سے عاری ہونے کی بنیاد پر وہ خوبصورت اظہار کی قوت نہیں رکھتے۔ وہ بولتے ہیں‘ آپس میں بات چیت کرتے ہیں‘ مگر ان کی آپس کی گفتگو چند ضروریات کیلئے ہوتی ہے۔انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی ایک اہم خوبی انسان کی حسِ جمالیات بھی ہے۔جانوروں میں پائی جانے والی خوبصورتی اللہ کی عطا ہے‘ جو اس نسل کے ہر جانور میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے جیسا کہ کسی پرندے کی سریلی آواز۔ یہ آواز اس نسل کے ہر پرندے میں پائی جاتی ہے۔کچھ پرندے بہت خوبصورت گھونسلہ بناتے ہیں۔ یہ خوبی اس نسل کے ہر پرندے میںموجود ہوتی ہے‘ جبکہ انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔
ہر انسان ایک جیسی سریلی آواز نہیں رکھتا ۔ ہر انسان کی جمالیاتی حس دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ ایک اہم صلاحیت ہے۔ انسان جانوروں کے برعکس خوبصورتی کا شعور رکھتا ہے اور اسی خوبصورتی کے حصول کے لئے کوشش بھی کرتا ہے۔جانوروں میں شاید ہی کوئی اپنے لئے مادہ کے انتخاب میں خوبصورتی کو معیار بناتا ہو۔ حیوان اخلاقی وجود نہ ہونے کی وجہ سے اچھے اور برے کی تمیز سے بھی عاری ہوتے ہیں۔
انسان سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ سوچنے کے عمل کے نتیجے میں احساسات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں اور پھروہ ان جذبات کا ا ظہار کرتا ہے۔ شروع شروع میں انسان واقعات اوراپنے مشاہدات بیان کرتا تھا اورلوگ عقل اور شعور کی مختلف صلاحیتوں کی بنیاد پر کسی ایک ہی واقعہ کو مختلف زاویے سے دیکھنے کے بعد مختلف انداز میں بیان کرتے تھے۔ دوسرے ان کی بات دلچسپی سے سنتے تھے اور وہ اپنی بات خوبصورت اندازسے بیان کرتے اور بطور قصہ گو مشہور ہو جاتے۔ کہانی سننا اور سنانا شروع سے انسان کی دلچسپی کا باعث رہا ہے۔
پھر رفتہ رفتہ یہی کہانی یا قصہ بیان کرنے والے اپنی بات کو مزید دلچسپ بنانے کے لئے مبالغہ آرائی کرتے رہتے جو بڑھتے بڑھتے غیر حقیقی کہانی کے طوروجود میں آئی۔ مقصد اپنی کہانی کو لوگوں کے لئے دلچسپ بنانا تھا۔ لو گ اس طرح کے قصے کہانیاں سن کر خوش ہوتے تھے ۔ بعدا زاں تخیل کے نتیجے میں فرضی قصے کہانیاں بیان ہونا شروع ہوئے جو افسانہ اور فکشن کہلائے۔ آج کل کے جدید دور میںبھی مغرب میں مافوق الفطرت کردار ہیری پوٹر کے تخیل پر مبنی ناول دنیا میں لاکھوں کی تعدادمیں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔
انسان نے جب لکھنا شروع کیا تو ابتدا میں صرف ضروری احکامات یا حساب کتاب ہی لکھا جاتا تھا۔رفتہ رفتہ سوچنے والوں نے لکھنا شروع کیا۔ جس کے بعد اظہارمیں خوبصورتی آتی چلی گئی ۔ تحریری شکل میں نثر اور نظم وجود میں آئے ۔وہی بات جو زبان سے بیان کی جاتی تھی‘ وہی بات خوبصورت انداز سے لکھنا شروع ہوئی۔ اسی اظہار کی خوبصورتی سے ادب کی ابتدا ہوئی ۔ پھر ادب کی مختلف اصناف وجود میں آئیں۔ نظم ‘ غزل‘ رباعی ‘ مرثیہ آزاد نظم وغیرہ۔ نظم کی مختلف اصناف ہیں۔ جس میں سوچنے والے اپنی بات خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں جو پڑھنے والوں پر خصوصی اثرات مرتب کرتی ہے اور ان کے لئے باعث مسرت ہوتی ہے۔ جذبات ‘ احساسات ‘ سوچ اور تخیل کے اس خوبصورت اور دلکش اظہار سے ہی تمدن کا ارتقا ہوا۔ یہ سوچنے والے مفکر ہی اس دنیا میں رائج قدرتی قوانین کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ عقل انسانی کے ذریعے سے ہی علم کا حصول اور دنیا میں کار فرما قوانین کا ادراک حاصل ہوا اور علم کے حصول کا اہم ذریعہ یعنی فلسفہ کی بنیاد پڑی۔ اسی فلسفہ سے سائنس اور سائنسی قوانین دریافت ہوئے۔
معاملہ صرف اپنے جذبات‘سوچ اور احساسات کے خوبصورت اظہار تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کو معاشرے میں بہتری اور ترتیب کے لئے ایک موثر طریقہ کے طورپر استعمال کرنے پر زور دیا جانے لگا اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ان شعرا اور ادیب حضرات کی بات بہت غور اور دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے اور پڑھنے والوں پر خصوصی اثرات مرتب کرتی ہے؛چنانچہ اس کو معاشرے کی تربیت کے لئے بھی استعمال ہونا چاہیے۔ یہاں سے ''ادب برائے زندگی‘‘ کا خیال پیدا ہوا ۔جبکہ دوسرا طبقہ یہ موقف رکھتا ہے کہ کسی نے اپنے جذبات ‘سوچ اور احساسات کا خوبصورت طریقہ سے اظہار کر دیا‘لوگوں نے پڑھ لیا اور ان کے لئے یہ باعث راحت ہوا۔ یہی لکھنے والوں کا مقصود تھا۔ لوگوں کی تربیت کرنا معاشرے کے دوسرے طبقات کی ذمہ داری ہے۔ معاشرہ اس کام کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرتا ہے ۔ علما اکرام لوگوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں یا پھر حکومت اور ارباب اختیار تربیت کے کام کے دیگر ادارے قائم کرتے ہیں‘ لہٰذا ادب کو ادب ہی رہنے دیا جائے۔ یہ ــ''ادب برائے ادب‘‘کا تصور کہلاتا ہے۔
بہرحال یہ بحث تا حال جاری ہے ۔ دونوں اطراف کے لوگ موثر دلائل رکھتے ہیں۔ ہماری شاعری کی روایت میں دونوں نظریات کی حامل شاعری موجود ہے اور زیادہ تر شعر ا نے ادب برائے زندگی یعنی تربیت کے نقطہ نظر سے شاعری کی ہے۔ حضرت علامہ اقبال کی شاعری ''ادب برائے زندگی‘‘کے نظریہ کی معراج ہے۔ علامہ اقبال کے ہاں شاعری کا بڑا حصہ قوم کی اصلاح ‘ تربیت اور بیداری پر مشتمل ہے۔ اسی لئے علامہ اقبال کی بڑی پہچان شاعر کے ساتھ ایک مفکر اور مصلح کی ہے اور کچھ لوگ تو ان کو روحانی راہنما کے طو ر پر بھی دیکھتے ہیں۔
لکھنے کے علاوہ بھی لوگوں نے اظہار کے مختلف انداز اختیار کیے۔ بت تراشی ‘ مصوری اور رقص وغیرہ اس کی مختلف شکلیں ہیں۔اظہار کی ایک اہم شکل چہرے کے تاثرات اور بدن بولی(باڈی لینگوئج) بھی ہوتی ہے۔جسمانی حرکات سے اپنی بات دوسروں تک پہچانے کا عمل اس دور میں شاید زیادہ موثر تھا جب انسان نے زبان اور ابلاغ کے معاملہ میں زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ اس دور میں اشاروں اور بے ربط آوازوں سے اپنی بات دوسرے تک پہنچاتے تھے۔ بعد ازاں یہی آوازیں الفاظ بنے اور ان الفاظ سے زبانیں وجود میں آئیںاور ان جسمانی حرکات سے اظہار رقص کہلاتا ہے۔اس طرح اپنی آواز سے لوگوں کو خوش کیا گیا۔ جانوروں کی آوازیں نکالے کی کوشش میں انسان آج کل کی گائیکی تک پہنچا ۔ ان خوبیوں کو فن قرار دیا گیا اور ان فنون کو فنون لطیفہ کہا جاتا ہے۔ یہ انسان کی ضرورت ہے۔
تمام خوبصورتی اللہ تعالی کی نعمت ہے جو انسان کی جمالیاتی حسن کی تسکین کا سامان ہیں۔ان سے لطف اندوز ہونا‘ راحت پانا اللہ کی رحمت اور نعمت کی شکر گزاری ہے ۔ یہ تتلی ‘یہ جگنو‘ یہ شبنم کا قطرہ‘ یہ پھول ‘ یہ خوشبو‘ یہ موتی‘ یہ باد صبا ‘ یہ پہاڑ ‘ یہ پرندوں کا چہچہانا یہ دریائوں کی روانی یہ سمندر کا سکوت ‘ صحرا کی ویرانی‘ یہ خوبصورت آواز ‘یہ دل کش مناظر ‘یہ خوبصورت چہرے ‘یہ معصوم بچے‘ یہ سب انسان کی جمالیاتی حسن کی تسکین کرتے ہیںاور انسان کے لئے سکوں اور راحت کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ان سے دلوں کے اندر خوبصورت جذبات اور احساسات پیدا ہوتے ہیں اوردل نرم ہوتے ہیں۔ انسان پیار ‘ محبت‘ امن‘ سکون اور راحت محسوس کرتا ہے۔جب معاشروں سے یہ سب چیزیں نا پید ہو جاتی ہیں توان معاشروں میں غصہ‘نفرت اور عناد بھر جاتا ہے۔ پھرانسان بات بات پر لڑائی کرتا ہے۔ شدت پسندی زیادہ ہو جاتی ہے اور برداشت کم۔
اللہ تعالی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ جسمانی صفائی اور پاکیزگی کی تعلیمات بھی اسی خوبصورتی کے حصول کی ایک کڑی ہے۔ کسی حد تک اعتدال کے ساتھ زیبائش کا حکم بھی اسی تناظر میں دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کو خوشبو بہت پسند تھی۔ جسمانی صفائی‘ پاکیزگی اور زیبائش کے بارے میں آپ ﷺ کی خصوصی ہدایات احادیث کی شکل میں موجود ہیں‘تاہم حسن پرستی اور خود پسندی غیر متوازن رویے ہیں۔ حسن پرستی سے مراد ہر معاملے میں حسن اور خوبصورتی کو ہی معیار مقرر کر لینا ہے‘ جبکہ خود پرستی تکبر کی ایک علامت ہے جو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔