"AMK" (space) message & send to 7575

توقعات

زندگی آزمائش اور مسائل کا نام ہے۔ اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو ان پریشانیوں اور مسائل کا خاتمہ دراصل زندگی کا اختتام ہے۔ یہ پریشانیاں تو زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوں گی۔ زندگی میں بے شمار واقعات پیش آتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ یہ ہماری فطرتی مجبوری ہے۔ ان لوگوں میں کچھ لوگ ہم سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے وجود کا حصہ مانتے ہیں۔ ہمیں اپنی ملکیت سمجھتے ہیں۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ وہ اپنے رشتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ فلاں کے گھر بیٹا یا بیٹی پیدا ہوئی۔ ہمارے ہاں تو بچے کی پیدائش پر مبارک باد اس کا دادا، دادی، تایا، چچا، خالہ، ماموں، بھائی، بہن، پھوپھی حتیٰ کہ والد کے دوست وصول کرتے ہیں۔ بچے کا نام رکھنے کا سادہ سا عمل والد کے لئے اچھا خاصا مسئلہ بن جاتا ہے۔ میری پیدائش پر والد صاحب کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہوا۔ دادا نے حکم صادر فرمایا کہ بچے کا نام عبدالمنان ہو گا۔ پانچویں بچے کی پیدائش تک میرے والد صاحب کی اپنی بیوی یعنی میری والدہ سے اچھی خاصی انڈر سٹینڈنگ ہو چکی تھی۔ اپنے بچوں کے ساتھ ان کے ننھیال کی محبت دیکھتے ہوئے والد صاحب نے میرے ماموں کے تجویز کر دہ نام ''خرم‘‘ کو بھی میرے اصلی نام کے ساتھ لگا دیا۔
ہمارے ہاں رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ہم ان رشتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے سماج کی خوبصورتی ہے۔ ان رشتوں میں ضرورت سے زیادہ جذباتی وابستگی پائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ بھائی کی لاش دیکھ کر بہن کی حرکت قلب بند ہو گئی۔ خاوند کی وفات کے چند یوم کے بعد بیوی چل بسی۔ بچے کی وفات پر ماں کا زندگی بھر کے لئے دکھی ہونا تو شاید دیگر معاشروں میں بھی ہوتا ہو مگر ہمارے ہاں تو دوست کی موت پر دوست مر جایا کرتے ہیں۔ عشق میں ناکامی پر لڑکے اور لڑکی کا خود کشی کرنا تو معمول کی بات ہے۔
یہ رشتے ہی ہماری زندگی ہیں۔ ان رشتوں سے ہماری توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ عام طور پر جتنی گہری محبت اور جذباتی وابستگی ہو اتنی ہی زیادہ توقعات ہوتی ہیں۔ زندگی میں کچھ پریشانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم بہت کوشش اور محنت سے بھی دور نہیں کر پاتے ہیں؛ تاہم زیادہ تر دکھ یا پرAیشانیاں ہماری اپنے پیاروں سے وابستہ توقعات کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگر ہم یہ توقعات کم کر دیں یا ان میں سے نا جائز توقعات کو ختم کر دیں تو ہمارے آدھے دکھ ختم ہو سکتے ہیں اور باقی نصف کا تو باقی رہنا ضروری ہے جو ہماری وفات پر ہی ختم ہوں گے‘ کیونکہ یہ پریشانیاں ہی تو زندگی ہیں۔ ان رشتوں کا حق ادا کرتے کرتے ہم لوگ قبروں میں جا پہنچتے ہیں۔ اپنے سے زیادہ ان رشتوں کو بہتر زندگی دینے کے لئے ہی پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی کے بچے کو جان لیوا مرض لاحق ہو جائے تو اس بچے سے پہلے ہی اس کے والدین فوت ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی دیگر رشتوں کے باب میں ہوتا ہے۔
''شخصی آزادی‘‘ کا ہماری زندگیوں میں کوئی خاص مقام نہیں۔ ''میر ی زندگی‘‘ ''میری مرضی‘‘ ٹائپ کے دل فریب نعرے ہمارے ہاں بولے تو جاتے ہیں مگر حقیقت میں ایسی کسی ''میری مرضی‘‘ کا ہمارے زندگی میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ہم دوسروں کے لئے اور دوسروں کی مرضی سے ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے جیتے ہیں‘ پھر بھی ہم خوش اور شاد ہیں۔ آج کل تو بچوں کو اپنی مرضی کرنے کی کافی حد تک اجازت مل جاتی ہے۔ ہمارے بچپن میں تو اپنی مرضی کرنا دور کی بات‘ ایسا بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ہم پھر بھی خوش تھے۔ ہم کیسا لباس پہنیں گے۔ کس قدر چھوٹے بال ہوں گے؟ یہ سب والد صاحب کی مرضی سے ہوتا تھا۔ آج کل تو بچے اچھی خاصی آزادی کے باوجود شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے بڑے ہو کر کیا بننا ہے؟ یہ سوچنے کا بوجھ ہمارے سر پر نہیں تھا‘ بلکہ والد صاحب ہی یہ فیصلہ صادر فرماتے۔ بچے کا ذہنی رجحان دیکھنا اور بچے کی خدا داد صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے اس کے لئے مناسب شعبۂ زندگی کا انتخاب کرنا رائج نہیں تھا۔ بچوں سے ان کی پسند پوچھنے کا دستور نہیں تھا۔ بس والد صاحب کی جو خواہش تھی وہی ہمارے لئے انتخاب قرار پاتا۔ ہمارے والد صاحب کی زندگی ان کے والد صاحب نے جی لی اور ہماری زیادہ تر زندگی ہمارے والد صاحب نے۔ اس کے باوجود ہم نالاں نہیں ہیں۔ فطری طور پر بچے والدین کی توقعات پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امتحانات میں بچوں سے کلاس پوزیشن کی توقع رکھنا اور ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر مقابلے میں اول آئیں‘ عام سی بات ہے۔ کچھ بچے تو والدین کی توقعات کے بوجھ تلے دب کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بعض اوقات زیادہ سخت گیر والدین کے حساس اور جذباتی بچے ان توقعات کے پورا نہ ہونے پر خود کشی جیسے انتہائی اقدام کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں اور اپنے پیاروں سے وابستہ توقعات کم کر کے ان کی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں۔ اپنے بچوں سے توقعات دراصل والدین کے پیار اور وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ ہمارے والد صاحب ہم سے کتنی محبت کرتے تھے یہ بات جوانی تک ہم سے پوشیدہ رہی کیونکہ ہمارے زمانے میں والد صاحب کا یہ بھی خیال ہوا کرتا تھا کہ زیادہ لاڈ پیار سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا والد اپنے بچوں سے پیار کا اظہار کم کیا کرتے تھے۔ انھیں ہم سے کتنا پیار تھا اس بات کا علم اس وقت ہوا جب اپنے بچے پیدا ہوئے۔
بچوں کی شادی کے موقع پر بھی ان کی رائے لینے کا رواج نہیں تھا۔ لڑکے تو کسی حد تک دبے دبے الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کر دیتے تھے اور کبھی کسی کا مطالبہ تسلیم بھی ہو جاتا؛ تاہم لڑکیوں کے معاملے میں ان کی رائے جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ بچیاں اس کو اپنے اوپر کوئی ظلم تصور نہیں کرتی تھیں۔ ان کی سرے سے اپنی کوئی رائے ہی نہیں تھی۔ وہ یہ سمجھتی تھیں کہ ان کے والدین ان سے زیادہ عقل مند ہیں اور ان کے لئے بہترین انتخاب ہی کریں گے۔ اگر کبھی خدانخواستہ یہ انتخاب غلط بھی ثابت ہو جاتا تو بچیاں اپنے والدین کی عزت کی خاطر فیصلے کو خوشی خوشی نبھاتی تھیں۔ کبھی شکایت نہیں کرتی تھیں۔ بعد ازاں پانچ چھ بچوں کی ماں بننے کے بعد انہی گھروں میں راج کرتی تھیں۔
یہ رشتے ہی ''ہم‘‘ ہیں۔ ان کو ہم سے توقعات ہوتی ہیں۔ ہم بھی ان سے توقعات رکھتے ہیں۔ جب کبھی زندگی میں ان رشتوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو ہم دکھی ہو جاتے ہیں۔ مضطرب ہو جاتے ہیں۔ شکایت کرنے لگتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ شاید ہمارا بھی کوئی غلط رویہ کسی کے لئے دکھ کا باعث بنتا ہو۔ اگر زندگی میں خوشی مقصود ہو تو ان رشتوں کی مضبوطی میں کمی لائے بغیر اپنی توقعات کو محدود کر لیں۔ ویسے بھی ہر وقت ہر کسی کے رویے کی شکایت کرتے رہنا، ہر کسی سے دکھی رہنا، زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے۔ جن سے زیادہ محبت ہو ان کے لیے تو زیادہ درگزر اور زیادہ معافی ہونی چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں زیادہ جذباتی وابستگی زیادہ توقعات کا باعث بنتی ہے۔ جو جذبات ہمارے دل میں ہوتے ہیں دوسرا ویسے جذبات نہیں رکھتا یا اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرتا۔ اور بعض اوقات وہ اپنے رویے سے دل آزاری کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ یہ صرف توقعات کا ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ محبت کرنے والا دوسرے سے ویسی ہی محبت کی توقع رکھتا ہے جبکہ محبت تو غیر مشروط ہوتی ہے۔
''شخصی آزادی‘‘ کا ہماری زندگیوں میں کوئی خاص مقام نہیں۔ ''میر ی زندگی‘‘ ''میری مرضی‘‘ ٹائپ کے دل فریب نعرے ہمارے ہاں بولے تو جاتے ہیں مگر حقیقت میں ایسی کسی ''میری مرضی‘‘ کا ہمارے زندگی میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ہم دوسروں کے لئے اور دوسروں کی مرضی سے ان خواہشات کو پورا کرنے کے لئے جیتے ہیں‘ پھر بھی ہم خوش اور شاد ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں