امیر تاجر ہسپتال میں آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اس کا بیٹا اس کی موت کا شدت سے منتظر تھا کہ کب یہ فوت ہو اور مجھے تمام جائیداد اور کاروبار حاصل ہو۔ اس نے اپنے والد کو لگی آکسیجن کی نالی پر پائوں رکھ دیا اور بولا: ابا جی مجھے بتائیں کہ میں آپ کی کیا خدمت کروں؟ والد بولا: بیٹا خدمت چھوڑو تم میری آکسیجن کی نالی سے پائوں اٹھا لو‘ یہی کافی ہے۔
ہمارے ملک میں دو اداروں میں اب بھی نوکری کے حصول کے لئے انصاف اور میرٹ رائج ہے۔ یہاں کسی حد تک شفافیت، انصاف، میرٹ اور مساوات قائم ہے۔ ان میں پہلا فوج اور دوسرا سول سروس ہے۔ ان دونوں اداروں میں نئے افسران کے انتخاب کے لیے ایک کڑا نظام موجود ہے۔ ان میں عام لوگوں کے بچے بھی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ شعبے تا حال اشرافیہ کی دسترس سے محفوظ ہیں اور مجموعی طور پر ان اداروں کے لیے انتخاب کے مراحل شفاف قرار پاتے ہیں۔
یہاں بات صرف سول سروس کی کروں گا۔ سول سروس‘ مرکزی و صوبائی کے‘ یہ افسر سخت امتحانات، انٹرویوز اور دیگر مراحل کے بعد سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ بچے عام گھروں سے آتے ہیں۔ کوئی کسی استاد کا بچہ ہے تو کوئی کسی سرکاری افسر کا۔ ان میں بہت سے بچے غریب گھرانوں سے بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ وہی بچے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کے 24/25 سال اس معاشرے میں عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ عام سکولوں اور کالجز سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جہاں انہیں اساتذہ کرام اچھا انسان اور مسلمان بننے کا درس دیتے ہیں۔ ان کے گھروں سے بھی انہیں ایسی ہی تعلیم دی جاتی ہے۔ سکول میں یہ سب بچوں کے ساتھ مل کہ ''لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘ پڑھتے ہوئے جوان ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے معاشرے، گھر اور تعلیمی اداروں سے عاجزی کا درس ملتا ہے۔ دوسروں کی مدد کرنا، انصاف کرنا اور حرام و حلال کی تمیز کرنا سکھایا جاتا ہے۔ پچیس سال کی تعلیم و تربیت میں انہیں انسانوں سے محبت، مفلس و نادار کی مدد ، بھائی چارہ ، میانہ روی، رحم دلی اور سچ بولنا سکھایا جاتا ہے۔ اعلیٰ سول سروس کے لیے منتخب ہونے والے یہ بچے معاشرے کے ذہین اور اچھے بچے ہوتے ہیں۔ وہ دیگر افرادِ معاشرہ کی طرح اس معاشرے میں ہونے والی نا انصافی، ظلم و زیادتی پر نالاں بھی رہتے ہیں۔ وہ بطور طالب علم نظام کے اندر پائی جانے والی خرابیوں پر کڑھتے ہیں۔ وہ افسر شاہی اور پولیس کے رویے سے بھی نالاں ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اس نا انصافی اور پولیس کی بد تمیزی کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ کیسے سڑکوں پر پولیس عام آدمی کی تذلیل کرتی ہے اور کیسے لوگ تھانے میں جانے سے گھبراتے ہیں۔ ان کو اگر کسی کام کے لیے سرکاری دفتر میں جانا پڑے تو وہ اس بات کا خود مشاہدہ کرتے ہیں کہ کیسے سرکاری اہل کار اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں اور بعد ازاں خود سرکاری افسر بن جاتے ہیں۔
پھر اچانک ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے کہ وہ بھی ویسے ہی بن جاتے ہیں جیسا کہ پہلے سے موجود نظام۔ ان فسران کو اگر کوئی بتائے کہ جناب پولیس ناکوں پر شریف شہریوں سے بد تمیزی کرتی ہے تو وہ افسران جو خود کبھی ایسی ہی بد تمیزی کا شکار ہوتے رہے ہیں‘ یہ بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ان کے دفاتر میں عام آدمی ان سے مل نہیں سکتا۔ عوام کی خدمت کے لیے انہیں ان عہدوں پر بٹھایا جاتا لیکن یہ ان عوام سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے کی بجائے یہ اپنے اہل کاروں کا تحفظ کرنے لگتے ہیں۔ انصاف مظلوم کی دہلیز پر پہنچانا تو دور کی بات‘ یہ صرف ان کی بات توجہ اور ہمدردی سے سن لیں یہی کافی ہے۔ یہ معاشرے کے پڑھے لکھے اور ذہین بچے ہوتے ہیں، اپنی سوچ رکھتے ہیں اور اس نظام کی تبدیلی کے سب سے زیادہ خواہش مند ہوتے ہیں۔
یہ غریب، متوسط، عزت دار اور پڑھے لکھے گھروں سے آنے والے اچھے اور ذہین بچے بعد ازاں اپنے دفاتر میں بے حس بن جاتے ہیں‘ جہاں عام لوگوں کا ان سے ملنا مشکل ہوتا ہے۔ پھر یہ لوگ عوام کی شکایات سننے کے لیے '' کھلی کچہری‘‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ لوگ فریادی بن کر ان کے سامنے انصاف کی دہائی دیتے ہیں۔ یہ افسر کمال مہربانی سے ان کی داد رسی کرتے ہیں۔ کھلی کچہری میں انصاف دینے کی بجائے یہ اپنے دفاتر کے دروازے عام لوگوں کے لئے کھول دیں تو کسی کھلی کچہری کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ عوام کی داد رسی اور عوام کی خدمت ان کی ہر وقت کی ذمہ داری ہے۔ یہ اسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ یہ صرف اپنے دفاتر کے دروازے کھول دیں۔
حضرت عمر ؓجب کبھی کسی علاقہ میں حاکم مقرر فرماتے تو تین ہدایات جاری فرماتے:
1۔ پرندے کا گوشت نہیں کھائو گے۔
2۔ ریشمی لباس نہیں پہنو گے۔
3۔ دربان نہیں رکھو گے۔
دربان دراصل شان و شوکت اور تکبر کی نشانی ہوتا ہے۔ آج کل ان دربانوں کو پروٹوکول کا نام دیا جاتا ہے۔ 25 سال کی عام فرد کی حیثیت سے ملنے والی تعلیم و تربیت صرف تین سال کی ٹریننگ میں زائل ہو جاتی ہے۔ آخر اس تین سال کی ٹریننگ میں ان اچھے بچوں کو کیا سکھایا جاتا ہے کہ وہ عام فرد سے بے نیاز افسر بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ عاجزی کی اداکاری کرتے ہیں اور اپنے دفاتر سے باہر عاجزی اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عاجز ہوتے نہیں بلکہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ عاجزی اختیار کون کرتا ہے؟ وہی جو اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اسے عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں اپنے آپ کو حاکم اور عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔
میرے جیسے اساتذہ کرام، والدین اور علماء کی پچیس سال کی تعلیمات صرف دو سال کی ٹریننگ میں ختم۔ نوکری ملنے کے تین چار سال بعد ان افراد کو ملیں تو آپ کو بالکل نیا فرد ملے گا۔ پہلے وہ سرکاری دفاتر میں ہونے والی نا انصافی پر لیکچر دیتے تھے، اب وہی اس نظام کا دفاع کرتے اور عوام کو برا بھلا کہتے دکھائی دیں گے اور کوئی ایک آدھ مثال پیش کر کے وہ تمام عوام کی جہالت، بے ایمانی اور بد دیانتی کا ذکر کرتے ہیں۔ سب کو ایک جیسا قرار دیتے ہیں اور آخر میں ''ہم سب اس میں قصور وار ہیں‘‘ کہہ کر بطور سرکاری افسر اپنے گندے کردار کو اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان افسران کی ٹریننگ پر توجہ دی جائے۔ جب تک ان کے دماغ سے یہ خیال نہیں نکالا جائے گا کہ آپ ایک برتر مخلوق ہیں، یہ عوام سے ایسا ہی رویہ رکھیں گے۔ انہیں پہلے دن سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ آپ دوسروں سے الگ ہیں۔ آپ بڑے لوگ ہیں، آپ حاکم ہیں۔ کبھی بھی ان کو یہ باور نہیں کروایا گیا کہ آپ نے جس نوکری کا انتخاب کیا ہے یہ نوکری عوام کی خدمت ہے اور خدمت میں عظمت ہے۔ آپ نے اس عہدے اور مقام سے لوگوں کے لیے باعث رحمت بننا ہے اور روز قیامت آپ کو حاصل ان اختیارات کی بابت سوال ہو گا۔ آپ نے انصاف کرنا ہے، آپ نے قانون اور ضابطوں کی پابندی کرنا ہے اور ان قواعد و ضوابط کو عوام کے حق میں استعمال کرنا ہے۔ آپ کا دفتر عوام کے لیے ہے اور آپ کا دفتر ہی ''کھلی کچہری‘‘ ہے۔ جو مرضی جب مرضی اپنی درخواست لے کر آپ کے دفتر میں آ سکتا ہے۔ آپ نے اپنے دفتر میں پروٹوکول کے نام پر ''دربان‘‘ نہیں رکھنے۔ آپ کو حاصل یہ اختیارات اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ آپ نے ان اختیارات کو حکومت کے مفاد اور عوام کی سہولت کے لیے استعمال کرنا ہے۔ آخرت میں آپ کو حاصل ان اختیارات کا حساب دینا ہو گا۔