''میں‘‘ میرے جسمانی وجود اور میری شخصیت کا مجموعہ ہے۔ اس ''میں‘‘ کے اندر میں اکیلا نہیں ہوں۔ میرے اپنے بھی اسی ''میں‘‘ میں شامل ہیں۔ مجھے میسر میرے حالات بھی اسی ''میں‘‘ کا حصہ ہیں۔ اس ''میں‘‘ کو اللہ نے وجود بخشا۔ مجھے نہیں پوچھا گیا۔ میری مرضی نہیں جانی گئی۔ بس ''میں‘‘ اپنے اللہ کی مرضی سے وجود میں آیا۔ میرا زمانہ، میرا ملک، میری قوم، میرے ماں باپ، میرے بھائی بہن، دیگر رشتہ دار اور میرے حالات یہ سب میری قسمت ہے‘ میری تقدیر ہے۔ میرے لئے اپنی قسمت کے اس حصے کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ میرے مسائل اور مشکلات کا ایک حصہ میری اس قسمت سے جڑا ہوا ہے۔ میری کاوش، صلاحیتوں اور محنت کی ایک حد ہے۔ میں نے اسی حد میں رہتے ہوئے ترقی کرنا ہے اور وہ حالات جو میری کوشش، محنت اور صلاحیت سے بھی تبدیل نہیں ہو سکتے‘ مجھے انہی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اور ان کے ساتھ ہی خوش رہنا ہے۔ جو میری تقدیر ہے اور بقول حضرت واصف علی واصف ''خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے‘‘۔
میں جن والدین کے گھر پیدا ہوا، جس قوم میں پیدا ہوا وہی میرا تعارف بنا۔ مجھے اپنے تعارف پر کوئی شرمندگی نہیں اور نہ ہی کوئی فخر یا تکبر ہے۔ پھر مجھے جیسا میں ہوں ویسا ظاہر کرنے میں کیوں جھوٹ کا سہارا لینا پڑے۔ بناوٹی رویہ، شو بازی میرے کھوکھلے پن کا اظہار ہے۔ دوسروں کو متاثر کرنے اور انہیں مرعوب کرنے کے لئے مجھے خود کو بڑا اور توپ چیز ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے میرا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
میں خود پسند ہوں، اس لئے کہ مجھے میرے اپنے پسند ہیں کیونکہ وہ میرے ''خود‘‘ کا حصہ ہیں اور مجھے ان سے پیار ہے۔ میرا اپنوں سے پیار ہی میری خود پسندی ہے۔ میرے اپنے ہی میری تقدیر ہیں۔ میرے اپنوں میں زیادہ وہ ہیں جن کو اللہ نے مجھے عطا کیا۔ وہ میری تقدیر ہیں۔ یہ سب ماحول، یہ سب کچھ مجھے جو ملا ہے، یہ میرا ہے۔ میرا اپنا۔ یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ مجھے ان کو چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے قبول کرنا ہے۔ تو پھر میں ان سے پیار نہ کروں اور اگر انہیں پسند نہ کروں تو کیا کروں؟ میری یہ شکل، میرے یہ حالات، صلاحتیں، میرے مسائل، میری خوشیاں، میری صحت، میرا جسمانی وجود، میرا رنگ، میری شکل، میرا قد کاٹھ یہ سب مجھے میرے اللہ کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ میرے جسم میں بہت سے نظام ہیں۔ ان میں سے کچھ شاید دوسروں سے کمزور ہوں اور شاید کچھ میرے پیدائشی نقائص بھی ہو سکتے ہیں۔ جو کچھ اچھا یا برا میرے پاس ہے یہ میرا ہے۔ مجھے اس کے ساتھ مطابقت بنانی ہے۔ ان کمزوریوں کا ادراک کر کے اپنی عادات اور طور طریقوں سے ان کمزوریوں کے برے اثرات کو کم کرنا۔
میرے رشتہ دار جیسے بھی ہیں۔ مجھے نہ تو ان پر فخر یا تکبر ہے اور نہ ہی کوئی شرمندگی۔ مجھے ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ یہ بہت اچھے ہیں۔ مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔ یہ سب ''میں‘‘ ہوں۔ اس لئے میں ان سب سے پیار کی بنیاد پر ان سب کو پسند کرتا ہوں۔ میں ان کو چھوڑ نہیں سکتا۔ تبدیل نہیں کر سکتا۔ کچھ رشتے ہم خود بھی اپنے لئے منتخب کرتے ہیں جیسا کہ دوست احباب۔ اس معاملے میں‘ میں آزاد ہوں، اپنی مرضی کا مالک ہوں، مجھے ان رشتوں کے انتخاب میں احتیاط کی ضرورت ہے۔
اپنی عقل اور اپنی پسند کے مطابق مجھے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے زندگی کو ترتیب دینا ہے۔ وہ حالات جو مجھے میرے اللہ کی طرف سے ملے ہیں‘ ان پر صبر نہیں بلکہ شکر کرنا ہے۔ صبر کیا ہے؟ کسی مصیبت پر اُف نہ کرنا، شکایت نہ کرنا اور اپنے اوپر آنے والی مشکل کو اپنی قسمت سمجھنا اور اگر کوئی اس مشکل کو مشکل نہ سمجھے تو پھر صبر کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اسی لئے صوفی صبر نہیں شکر کرتا ہے۔ ہر وقت شکر کرتا ہے۔ صبر تو وہ تب کرے اگر کسی صورتحال کو اپنے لئے مصیبت سمجھے۔ اسی لئے صوفی خواہشات نہیں رکھتا۔ شکایت نہیں کرتا۔ وہ اپنے آپ کو کوئی رعایت نہیں دیتا۔ وہ ہر وقت شکر کرتا ہے۔ یہی عظمت کا راستہ ہے۔
میری تدبیر، محنت، صلاحیت اور بہتر رویے سے میرے حالات بدل سکتے ہیں۔ ہر کسی کو اس کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ تقدید تو وہ ہوتی ہے جس کی تبدیلی میرے لئے ممکن نہیں۔ تدبیر اور حکمت سے مشکل کا حل میرے اختیار میں ہے کہ میں تقدیر کے اثرات کو کیسے اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہوں۔ وہ حالات جن کو میں تبدیل نہیں کر سکتا یا اپنی تمام تر صلاحیتوں اور کاوش کے باوجود تبدیل نہیں کر سکتا‘ مجھے انھیں پر قناعت کر کے خوش رہنا ہے۔ قناعت ایک بے مثال اور اہم قدر (Value) ہے۔ یعنی جو کچھ مل گیا ہے اس پر شکر کرنا اور خوش رہنا۔ مگر کبھی کبھی قناعت کی غلط تفہیم ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ ہر کسی کو اپنے حالات اور مشکلات کو قبول کرتے ہوئے ان میں بہتری کی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ حالات سے سمجھوتہ کر کے ان کو اپنی قسمت سمجھ کر بہتری کی کوشش نہ کرنا اور اپنی تقدیر سمجھ لینا قناعت کی غلط تفہیم کا نتیجہ ہے۔ انسان کی تقدیر کا وہ حصہ جو نا قابل تبدیل ہے‘ اسی سے سمجھوتہ کرنا قناعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے حاصل صلاحیتیں بھی میری تقدیر ہیں۔ ان صلاحیتوں کا ادراک ان صلاحیتوں کا بہترین استعمال اور ان کی محدودات کا فہم میرے دائرہ اختیار میں ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق کسی انسان کو حاصل ذہانت میں اضافہ ممکن نہیں۔ مگر میں ان صلاحیتوں کو دریافت کر کے ان کی محدودات کو سمجھتے ہوئے ان سے مکمل استفادہ تو کر سکتا ہوں۔ معاملات اور حالات میں بہتری کے لئے کوشش میں عادات کا بہت بڑا دخل ہے۔ میری عادات اور میرے رویے ہی میری شخصیت کا اظہار ہیں۔ میں اپنی عادات کو بہتر بنا سکتا ہوں‘ جن سے میرے حالات میں بہتری کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ اپنی موجودہ صورت حال پر دکھی رہنا اور اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہر وقت گریہ زاری کرتے رہنا، اپنی نا کامیوں اور مشکلات کا ذمہ دار تقدیر یا دوسروں کو سمجھنا اپنے آپ کو اذیت میں مبتلا کرنا ہے۔
انسان میں موجود خوابیدہ صلاحیتوں کا ادراک اور پھر ان صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرنا تعلیم کا ایک اہم وظیفہ ہے۔ اس لئے تعلیم کا ایک مقصد بچے کے اندر موجود خوابیدہ صلاحیتوں کا ادراک کرنا اور ان صلاحیتوں کو جلا دینے کے لئے ایسے مواقع اور سرگرمیاں ترتیب دینا بھی ہوتا ہے تاکہ بچہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے مطابق اپنے لئے عملی زندگی کے حوالے سے مناسب شعبۂ زندگی کا انتخاب کر سکے۔ والدین اپنی خواہشات اور عقل کے مطابق بچے کے لئے بہترین شعبۂ زندگی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی عقل اور اپنے وسائل کے مطابق بچوں کے لئے بہترین تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں اور بعد ازاں پیشہ ورانہ تعلیم کا فیصلہ بھی عمومی طور پر والدین ہی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں والدین کسی ماہرِ تعلیم یا نفسیات کی بجائے اپنے احباب سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس مشاورت کے بعد پیشے کا انتخاب بسا اوقات درست نہیں ہوتا اور بد قسمتی سے اس کا خمیازہ اسے ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے۔
اپنے رویّوں میں توازن اور خوبصورتی پیدا کرنا، اپنی عادات کو بہتر بنانا، اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنا، اپنی صحت کا خیال رکھنا، سوچ بچار کرنا تو ہر کسی کے لئے ممکن ہے۔ اس حوالے سے ترقی یا مثبت تبدیلی کے لئے خواہش رکھنا اور پھر اس خواہش کی تکمیل کے لئے کوشش کرنا ہی مطلوب ہے۔ اس باب میں متوازن رویہ یہی ہے کہ انسان تقدیر کے نا قابل تبدیل حصے کے ساتھ مطابقت پیدا کر کے اور قناعت کرتے ہوئے اپنی کوششوں سے اپنے حالات بہتر بنائے۔