باپ نے اپنے بیٹے کے امتحانی نتائج دیکھتے ہوئے غصے سے کہا ''تمہارا رزلٹ دیکھ کر بہت افسوس ہوا‘ آج سے تم میرے بیٹے نہیں ہو‘‘۔ بیٹا بولا ''ابا جی یہ پراگریس رپورٹ ہے، ڈی این اے رپورٹ تو نہیں‘‘۔
ہمارے تعلیمی نظام میں امتحانات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اور اس پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی زور دیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں امتحانات یا تعلیمی جائزوں کی بنیاد پر ہی والدین یا شعبہ تعلیم کے ارباب اختیار اپنے تعلیمی نظام کے موثر ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یعنی ایسا تعلیمی ادارہ جس کے بچے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں وہ والدین کی نظر میں بہتر قرار پاتا ہے ۔ ان تعلیمی جائزوں یا امتحانات کے نتائج نے ہمارے پورے ابتدائی اور ثانوی تعلیمی نظام کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ بچے کی قابلیت ان امتحانات کے نتائج پر پرکھی جاتی ہے اور امتحانی نتائج کو اس حد تک اہمیت دی جاتی ہے کہ تعلیم کے اصل مقاصد نظر سے اوجھل ہو چکے ہیں۔
تعلیمی ادارے بھی والدین کی اس خواہش کے پیش نظر بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے اور بچوں کو ہر وقت امتحانات اور گریڈز کے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اساتذہ کرام اور والدین بچوں کے امتحانی نتائج کی بنیاد پر ہی ان سے باز پرس کرتے ہیں اور بچوں پر دبائو ڈالتے ہیں اور مطلوبہ امتحانی نتائج نہ دینے پر اکثر بچوں کو سزا بھی دیتے ہیں۔ جس سے بچے شدید ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات بچے اس دبائو کے باعث ڈپریشن کا شکار ہو کر گم سم رہنے لگتے ہیں یا پھر ان کے رویوں میں شدت کا عنصر شامل ہو جاتا ہے اور وہ Agressive رویہ اختیار کرتے لگتے ہیں۔ کچھ بچے تو پڑھائی سے باغی بھی ہو جاتے ہیں۔ اس ذہنی دبائو کے باعث اکثر حساس بچوں میں خود کشی کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ ہر سال امتحانات کے نتائج کے بعد بچوں کی خود کشی کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
اپنے والدین کی خواہشات کو پورا کرنا بچوں کی فطرت میں شامل ہوتا ہے لیکن جب والدین کی توقعات کے مطابق وہ امتحانی نتائج نہیں دے پاتے تو وہ خود کو ناکام تصور کرتے ہیں ۔ معاشرے میں ہر کوئی امتحان میں کارکردگی کو ہی قابلیت کا معیار قرار دیتا ہے۔ اس بناء پر والدین کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ ہی بچے کا سہارا بننے کی بجائے اسے زندگی میں فیل تصور کرتا ہے جس کا نتیجہ بعض اوقات کسی بھیانک حادثہ کا موجب بنتا ہے۔ نمبروں اور گریڈز کی اس دوڑ کا فائدہ تعلیمی ادارے اٹھاتے ہیں اور تعلیم کے اصل ہدف یا مقصد کو پورا کرنے کی بجائے صرف اور صرف امتحانات پر توجہ دیتے ہیں۔ بچوں کو امتحانات کے لئے پڑھانا اور اچھے گریڈز کے لئے تیار کرنا بہت ہی معمولی اور سہل ہدف ہے لیکن یہ ہدف استاد اور تعلیمی ادارے کی مکمل ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
داخلی نظام کے تحت اگر کسی جماعت کو پڑھانے والے استاد محترم خود ہی سوالنامہ (Question Paper) تیار کریں، خود ہی جوابی کاپی کی جانچ (Paper Marking) کریں اور خود ہی امتحان یا ٹیسٹ کی نگرانی کریں تو ایسے امتحانات قابل اعتبار نہیں رہتے۔ امتحانات استاد کی کارکردگی کا جائزہ بھی ہوتے ہیں۔ کوئی بھی استاد آسان سوالنامہ تیار کر کے اور فراخ دلانہ جانچ سے بچوں کو زیادہ نمبر دے سکتا ہے۔ لہٰذا داخلی امتحانی نظام (Internal Examination System) کسی طور پر بھی قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ امتحانات کا خارجی نظام (External Examination System) کسی حد تک بچوں کی قابلیت کا محدود جائزہ پیش کرتا ہے۔
امتحانات کے نتائج کسی بھی نظام تعلیم میں تعلیم کا ہدف نہیں ہوتے۔ تعلیمی نظام کا ہر جائزہ جس کو عرف عام میں امتحانات کہا جاتا ہے دراصل اساتذہ کرام کی کارکردگی کا جائزہ ہوتا ہے۔ کسی بھی استاد کی کارکردگی کو جانچنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اس کے بچوں کے امتحانات میں نتائج کیسے ہیں۔ ہمارے ہاں اس ایک معیار کو ہی اصل اور واحد معیار تصور کر لیا گیا ہے۔ والدین تو لا علمی کی وجہ سے ان امتحانات میں کارکردگی کو اصل تعلیم تصور کرتے ہیں۔ نہ صرف والدین بلکہ سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی نظام کی نگرانی کرنے والے ماہرین تعلیم بھی اسی کو بنیاد بناتے ہوئے کسی ادارے یا استاد کی کارکردگی پر حکم صادر فرماتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بچے اور اساتذہ کرام کے تمام تدریسی عمل کا ہدف صرف امتحانات کی تیاری کو سمجھا جاتا ہے۔
کوئی بھی معاشرہ یا قوم اپنے بچوں کے لئے تعلیم کا اہتمام کیوں کرتا ہے؟ کیا اس لئے کہ ان کے بچے مختلف مدارج میں اچھے نمبروں سے پاس ہوں اور بہتر روزگار کے قابل ہو سکیں؟ یہ تعلیم کے بہت سے مقاصد میں سے صرف ایک مقصد ہے۔ تعلیم کا ایک وظیفہ کامیاب انسان بنانا بھی ہے۔ ابتدائی درجے میں بچے کو کچھ مہارتیں اور ابتدائی علوم سکھانا بھی تعلیم کا ایک مقصد ہے جیسا کہ لکھنا، پڑھنا، بنیادی حساب کتاب وغیرہ۔ ان ابتدائی علوم کی بنیاد پر ہی بچہ بعد ازاں اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرتا ہے جو عملی زندگی میں اس کے لئے کامیاب اور بہتر روز گار کا باعث بنتا ہے تاہم تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس ایک مقصد کو ''ہی‘‘ تعلیم کا مقصد سمجھا جاتا ہے جس سے پورا نظام صرف امتحانات کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے ۔ نتیجتاً بچوں کے ذہن پر ہر وقت امتحانات کا خوف سوار رہتا ہے اور ان متحانات میں کارکردگی ہی بچے کے گھر اور معاشرہ میں جزا اور سزا کا معیار قرار پاتی ہے جبکہ تعلیم کے مقاصد اس سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہیں۔
تعلیم کا مقصد بچے کے رویوں کی پسندیدہ تشکیل ہے تاکہ وہ معاشرے میں سماجی مطابقت (Social Adjustement) پیدا کر سکے اور معاشرے کی اقدار کے مطابق اچھا فرد بن سکے۔ تعلیم کا ایک اہم مقصد بچے کے اندر موجود خوابیدہ خدا داد صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے ان سے بھر پور استفادہ کرنے کے قابل بنانا بھی ہے تاکہ وہ عملی زندگی میں کامیاب انسان بن سکے اور بہتر روز گار کمانے کے قابل ہو سکے۔
ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے تعلیمی ادارے بچوں کے لئے ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ جن سے ان کی سوچنے سمجھنے اور اظہار کی صلاصیت میں بہتری آتی ہے ۔ کامیاب انسان کے اندر بہت سی خوبیوں کے علاوہ معاملہ فہمی، مردم شناسی اور موقع شناسی جیسی خوبیاں بھی موجود ہوتی ہیں ۔ کامیاب انسان بین السطور (Between the Lines) اور کسی معاملے کو وسیع تناظر (Beyond the Canvas) دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ سب ہم نصابی سرگرمیوں سے ممکن ہوتا ہے جن سے بچوں کی یہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ ان کے رد عمل میں توازن اور برداشت پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین تعلیم اور نفسیات ابھی تک کوئی ایسا ٹیسٹ یا امتحان وضع نہیں کر پائے جو کسی انسان کے اندر اس کی تمام صلاحیتوں کا مکمل جائزہ پیش کر سکے۔ یہ امتحان اور ٹیسٹوں کی محدودات ہیں۔
ہمارا امتحانی نظام تو اغلاط سے بھرا ہوا ہے۔ پھر ان امتحانات کی بنیاد پر حاصل کردہ نتائج سے ہم کیسے کسی بچے کی قابلیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور کسی بچے کو کم تر یا نالائق قرار دے سکتے ہیں؟ عملی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب افراد میں اکثر ایسے لو گ ہوتے ہیں جو بطور طالب علم کبھی بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے ہوتے۔ آپ کو ان میں سے اکثر تو وہ ملیں گے جو بڑی مشکل سے ان امتحانات میں پاس ہوتے تھے۔ امتحانات میں اور بالخصوص ہمارے جیسے ناقص امتحانی نظام میں بچے کی کارکردگی کبھی بھی عملی زندگی میں ان کی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد نہیں بنتی ۔ زمانہ طالب علمی کے نالائق یا اوسط درجہ کے بچے ہی عملی زندگی میں اس دور کے لائق بچوں پر دنیاوی معیارات کے مطابق سبقت لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
والدین بچوں کو ان امتحانات میں بہتر کارکردگی کی طرف متوجہ کرتے رہیں اور ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کی سعی کرتے رہیں۔ نتائج پر زیادہ برہم ہونا اور بچوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنا اور انھیں ان امتحانی نتائج کی بنیاد پر ہی لائق یا نالائق سمجھنا غلط رویہ ہے۔