اگر کسی کا بچپن بہت زیادہ تکلیف میں نہ گزرا ہو تو وہ اپنے بچپن کو یاد کرتا ہے۔ بچپن کی یادیں ، دوست ، واقعات اور وہ تمام مقامات یاد آتے ہیں جہاں بچپن اور جوانی میں وقت گزرا تھا۔ بڑی عمر کے لوگ اپنے دور کو یاد کرتے ہیں اور آہیں بھرتے ہیں۔ ان یادوں میں ماں کا پیار اور والد کی شفقت خصوصی طور پر ذہن میں نقش رہتی ہیں اور موت تک ساتھ رہتی ہے ۔
ان یادوں سے یہ وابستگی قدرتی امر ہے ۔ مگر انسانی تمدن میں ہونے والی ترقی اور آج کل کے موجود ہ رہن سہن میں آسانیاں اس دور سے کہیں زیادہ ہیں ۔ اب ماضی کی نسبت زندگی زیادہ آسان اور آرام دہ ہے۔
انسانی رویوں میں کچھ منفی تبدیلیاں بھی آئی ہیں ۔ کچھ انحطاط بھی ہے مگر اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں ہماری عمر کے لوگوں کا زیادہ ہاتھ ہے ۔ وہ ایسے بات کرتے ہیں جیسے معاشرہ ان کے زمانے میں جنت نظیر تھا اور اب اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ رہنے کے قابل نہیں رہا ۔ اپنی ماضی کی یادوں کے اسیر ہو کر وہ پہلے دور کو ہر لحاظ سے بہتر اور موجودہ دور کو بد ترین قرار دیتے ہیں اور اس طرح اپنی رائے میں توازن پر قائم نہیں رہتے ۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں امن و امان کی صورتحال بہتر تھی ۔ بچے کی تربیت کے مواقع آج کی نسبت زیادہ تھے ۔ گھروں میں بچوں کی تعداد آج کل کے گھروں کی نسبت زیادہ ہوتی تھی۔ ہر گھر میں چار پانچ بچے ہوتے تھے ۔
آپ کسی بڑی عمر کے فرد سے اس کے بہن بھائیوں کی تعداد کا پوچھیں تو آپ کو ایسی صورتحال ہی ملے گی۔ اس دور میں گھر میں پانچ چھ بہن بھائیوں کا ہونا ایک عام حالت (Normal Situation) تھی وہ بھی سب تقریباً ہم عمر ہوا کرتے تھے ۔ آج کل تو گھروں میں عمومی طور پر ''بچے دو ہی اچھے‘‘ والا معاملہ رائج ہے ۔ اس کے اپنے بہت سے فوائد ہوں گے مگر آج کل گھروں میں بچے تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کسی بچے کو بڑا بھائی نہیں ملتا تو کسی کی بڑی بہن نہیں ہوتی، کسی کو چھوٹے بھائی کی شرارتوں سے واسطہ نہیں پڑتا تو کوئی چھوٹی بہن کے لاڈ پیار سے محروم رہ جاتا ہے۔ کسی بچے کو بھائی نہیں ملتا تو کوئی بہن کے پیار سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب یہ موجودہ بچے والدین بنیں گے تو ان کے بچوں کے لیے رشتوں کی تعداد مزید محدود ہو جائے گی ۔ کسی کی خالہ نہیں تو کوئی بچہ چچا کی شفقت سے محروم رہ جائے گا اور کوئی پھوپھی کے رشتے سے نا واقف ہو گا۔
آج کل کے خاندان میں دو یا تین بچے ہوتے ہیں وہ بھی ''وقفہ بہت ضروری ہے‘‘ کے سنہری اصول کے تحت۔ بچوں کی عمروں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ان کے معمولات اور دلچسپیوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک بچے کی کھلونوں سے کھیلنے کی عمر ہے تو دوسرے بچے کی دلچسپی کرکٹ کے ساتھ ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے تانے بانے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں میں چچا زاد رشتے محدود ہوتے جا رہے ہیں ۔
ان حالات میں بچوں کے لیے سرگرمیاں (Activities) نسبتاً کم ہوتی جا رہی ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسروں سے میل جول کم ہو جاتا ہے ۔ پہلے زمانے میں روزگار کے مسائل کم تھے‘ لیکن ایک فرد کی کمائی پورے گھر کی کفالت کے لیے کافی تھی۔ زندگی میں آسائشیں کم تھیں اور اس طرح نسبتاً خرچے بھی کم تھے ۔ ضرورت کی اشیاء میں زیادہ تنوع نہیں تھا۔ سب لوگ ایک جیسی اور ایک ہی معیار کی اشیاء استعمال کرتے تھے۔ ایک طرح سے وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے‘ جس کی وجہ سے ان کے گھر کا خرچہ کم ہوتا تھا اور کم آمدنی میں بھی پورے گھرانے کا گزارہ ہو جاتا تھا۔ اکثر گھروں میں مائیں روز گار کے مسائل سے آزاد ہوتی تھیں اور اپنا سارا وقت بچوں کی پرورش پر صرف کرتی تھیں۔
اس بات کو بھی ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ بچے باہر گلی یا محلے میں کھیلنے جایا کرتے تھے جہاں ان کی جان کو کوئی خطر ہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ محلے میں ہر کوئی ہر بچے کو جانتا تھا۔ کون کس گھر سے آیا ہے اور کس کا بیٹا ہے گلی محلے کے بڑے بزرگ سب بچوں پر نظر بھی رکھا کرتے تھے۔ بچوں کے رویے میں کوئی خرابی دیکھتے تو موقع پر ٹوکتے تھے اور اگر ضرورت محسوس کرتے تو ایک دو تھپڑ بھی رسید کر دیا کرتے تھے۔ اگر کوئی کسی بچے کی اس کے والد سے شکایت کرتا تو والد آگے سے اس سے شکوہ کرتے کہ آپ نے خود اس کی اسی وقت مرمت کیوں نہیں کی؟
گھر میں اور گھر سے باہر بچوں کو بے شمار سرگرمیوں کے مواقع ملتے تھے۔ یہ سرگرمیاں سیکھنے کا باعث بنتی تھیں۔ تربیت میں رہی سہی کسر اس دور کے سکول پوری کر دیا کرتے تھے ۔ سکولوں کے اندر اساتذہ کرام کو اپنی اصل ذمہ داریوں کا احساس تھا۔ ویسے بھی سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کی افادیت کے باعث ایسی سرگرمیوں پر بہت زور دیا جاتا تھا ۔ سرکاری سکولوں کے میدان شام کے وقت آباد ہوتے تھے۔ کھیلوں کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں بھی بچے مصروف رہتے تھے۔ اس وقت کے والدین کا بڑا مسئلہ یہ ہوا کرتا تھا کہ ان کا بچہ ہر وقت کھیلتا رہتا ہے پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا۔ ہم ہر ڈانٹ پر یہ شعر سنتے تھے ؎
کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب
پڑھو گے لکھو گے بنو کے نواب
اب معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اب بچے ہر وقت پڑھائی کرتے ہیں۔ بہن بھائیوں سے کھیلنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ گھر سے باہر گلی محلے کے بچوں سے کھیلنے کا بھی ''نو چانس‘‘۔ شہروں میں زیادہ بچے پرائیویٹ سکولوں میں جاتے ہیں جہاں زیادہ تر میں کھیل کود کے لیے مطلوبہ میدان ہی میسر نہیں ہوتے۔ سرکاری سکولوں میں میدان تو موجود ہیں مگر کھیلوں کی سرگرمیاں سربراہ ادارہ کی عدم دلچسپی اور وسائل کی کمی کے باعث ناپید ہو چکی ہیں ۔ ہمارے زمانے میں کھیل کود کے علاوہ ڈانٹ پڑنے کی دوسری بڑی وجہ ناول اور رسالے پڑھنا ہوا کرتی تھی۔ گلی محلوں میں ''آنہ لائبریری‘‘ ہوتی تھیں۔ بچے چھپ چھپ کر وہاں سے کتابیں گھر لا کر پڑھتے تھے۔ والدین سے اکثر ڈانٹ پڑتی تھی۔ اکثر اوقات تدریسی کتب کے اندر کوئی رسالہ یا ناول چھپا کر پڑھا جاتا تھا۔
لگتا ہے کہ اس وقت کے والدین کی دعا سنی گئی۔ اب بچے کتاب کے نزدیک نہیں جاتے۔ اب بچوں کے لیے کتاب کا مطلب صرف نصاب کی کتاب ہی رہ گیا ہے۔ کتاب کی اہمیت سے سب واقف ہیں ۔ لٹریچر اور فکشن کا پڑھنا بچوں کی متوازن شخصیت سازی کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ یہ جنوں بھوتوں کی کہانیاں ، یہ شہزادوں اور بادشاہوں کے فرضی قصے بچوں کے تخیّل (Imagination)، سوچنے کی صلاحیت اور نئے خیالات (Innovation) کو بیدار کرتے ہیں۔ آج کل کے جدید دور میں بھی تخیل پر مبنی ''ہیری پوٹر‘‘ کی کتابیں مغرب میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ابتداء سے ہی انسان کہانی سے دلچسپی رکھتا ہے۔ ہر کہانی میں ایک ہیرو ہوتا ہے۔ یہ ہیرو جو کہ اعلیٰ انسانی اوصاف کا حامل ہوتا ہے بچوں کا ہیرو بنتا ہے اور بچے اس جیسا بننے کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے عمدہ رویوں کی نقالی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان حالات میں جب بچے کے لیے سیکھنے کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں سکولوں کی ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی ہیں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ بچے سرگرمیوں سے سیکھتے ہیں۔ جنتی زیادہ سرگرمیاں (Activities) اتنے زیادہ سیکھنے کے مواقع۔ ان حالات میں والدین کو گھروں میں بچوں کو نسبتاً زیادہ وقت دینا چاہیے۔ بچوں کے لیے ان کی دلچسپی کے مطابق کتابیں فراہم کی جائیں۔ اس سے ان کی تعلیمی کارکردگی پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ بچوں کے لیے محفوظ کھیل کود کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ ایسے سکول کا انتخاب کیا جائے جہاں پڑھائی کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی مناسب توجہ دی جاتی ہو۔ اس سے بچے کے اندر چھپی صلاحیتیں ابھر کر اور نکھر کر سامنے آتی ہیں اور اس کی مستقبل سازی میں بڑی مدد ملتی ہے۔