غلام حسین کے گھر کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ گھر میں بچوں کی بھرمار تھی۔ ان سب کی روٹی پوری کرنا ہی بہت مشکل تھا ۔ اگر گھر میں کوئی بیمار پڑ جاتا تو علاج کے وسائل نہ ہونے کے باعث بیمار تکلیف برداشت کرتے کرتے خود ہی ٹھیک ہو جاتا۔ کہیں سے کوئی صدقہ خیرات مل جاتا تو بچے پیٹ بھر کھانا کھا پاتے ۔ غلام حسین محلے کے تمام آسودہ حال افراد کا مقروض تھا۔ اب تو اسے مزید قرض ملنے کی بھی امید نہ تھی ۔ اوپر سے قرض خواہ واپسی کا تقاضا کرتے رہتے۔ غلام حسین کو سگریٹ پینے کی عادت تھی۔ وہ اس پر روزانہ 200 روپے خرچ کرتا قرض خواہ غلام حسین کی اس عادت پر بھی اعتراض کرتے تھے۔
کوئی کسی دوسرے کے معمولات اور طرز زندگی پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا ماسوائے قرض خواہ کے۔ وہ اسے اسراف سے بچنے کی تلقین کرتے اور اپنے معاملات میں میانہ روی اختیار کرنے کا تقاضا کرتے تاکہ ان کی اقساط وقت پر واپس مل سکیں۔
قرض خواہ مطالبہ کرتے کہ وہ اپنی کمائی بڑھانے کی کوشش کرے۔ وہ اسے آمدنی بڑھانے اور بچت کرنے کے طریقے بھی سکھاتے۔ یہ بات غلام حسین اور بالخصوص اس کی بیوی کو سخت ناگوار گزرتی۔ وہ ان مطالبات میں دشمنوں کی سازش تلاش کرتے۔ اس کی بیوی گھر میں فریج ، ٹی وی ، ایئر کنڈیشنر حتیٰ کہ گاڑی کا مطالبہ کرتی رہتی جس کے لیے غلام حسین مزید قرضہ لیتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اقساط کی ادائیگی کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا۔ ان حالات میں بھی اس کی بیوی نے اپنی روش تبدیل نہ کی۔ لوگوں نے اسے مزید قرضہ دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اس نے اقساط وقت پر واپس نہ کیں تو وہ غلام حسین کو ''نادہندہ‘‘ قرار دے کر اس سے قطع تعلق کر لیں گے۔
غلام حسین خوب جانتا تھا کہ اسے ایسی صورتحال کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ محلے میں اس کا اور اس کے بچوں کا آنا جانا بند ہو جائے گا ۔ اس نے بیوی بچوں کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ انھیں اپنے خرچے کم کرنے اور آمدنی بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ وہ خود بھی کوئی کام کرے تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ بیوی نے یہ بات تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
غلام حسین کے بڑے بیٹے نے طیش میں آ کر قرضے کی واپسی کا مطالبہ کرنے والوں کو سبق سکھانے کا عندیہ دیا۔ اس نے سوچا کہ پچھلے سال اس کے والد نے جو بندوق خریدی تھی وہ کس دن کام آئے گی۔ غلام حسین نے اپنے پُر جوش اور جوان بیٹے کو سمجھایا کہ بیٹا اگر ہم نے ایسا کیا یا ہمارے قرض خواہ دوستوں کو ہمارے اس ارادے کی بھنک بھی پڑ گئی تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ ان لوگوں نے ہماری ضرورت کے وقت مدد کی تھی‘ ہمیں قرضہ دیا تھا۔ اب اپنے محسنوں کے بارے میں یہ رویہ ہماری مذہبی تعلیم اور سماجی روایات کے بھی خلاف ہے۔ مزید یہ کہ ہم پورے محلے سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تو میرے قریبی رشتے دار بھی ہمارا ساتھ نہیں دیں گے۔ اگر ہمیں قرض کی قسط بر وقت جمع کروانی ہے تو ہمیں مزید قرضہ لینا پڑے گا اور ہمیں مجبوراً ان کی شرائط تسلیم کرنا پڑیں گی۔ ویسے بھی ان کی شرائط ہمارے اپنے مفاد میں بھی ہیں ۔ ان کی تجاویز پر من و عن عمل کرنے سے نہ صرف ان کے قرضوں کی اقساط وقت پر اداکر سکیںگے بلکہ ہمارے اپنے مسائل بھی حل ہو جائیں گے‘ لیکن اس کے بیوی بچوں نے یہ بات کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ پہلے جیسی عیاشی چاہتے تھے۔ جب غلام حسین نے تھوڑی سختی کی تو بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی۔
سماجی معاملات کی طرح عالمی سطح پر اقوام کے مابین بھی کچھ ایسا معاملہ ہی ہوتا ہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ اقوام کے باہمی تعلقات میں بنیاد باہمی مفادات بھی ہوتے ہیں۔ اقوام عالم میں آسودہ حال اور طاقت ور اقوام با اثر قرار پاتی ہیں جیسا کہ امریکہ ، یورپ ، جاپان ، روس اور چین وغیرہ۔ یہ اقوام جس قدر (Value) کو اچھا قرار دیں وہی پوری دنیا کے لیے پسندیدہ رویہ بن جاتی ہے اور یہ با اثر اقوام جس رویے کو نا پسندیدہ قرار دیں وہ پوری دنیا کے لیے قابل نفرت اور قابل مذمت بن جاتا ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں اقوام کے مابین رائج اصول و ضوابط با اثر اقوام کے طے کردہ ہیں۔ ان کے نزدیک کسی قوم یا معاشرے میں جمہوریت ، انصاف ، مساوات ، شخصی آزادی ، آزادیٔ رائے اور قانون کی بالا دستی جیسے اصول رائج ہوں تو وہ قوم اور وہ معاشرہ ‘ دونوں با عزت قرار پاتے ہیں۔
ان کے معیارات کے مطابق ہر وہ قوم با عزت ہے جو اپنے افراد اور پورے معاشرے کے لیے تعلیم ، صحت ، اچھی خوراک ، روزگار اور صفائی کا اہتمام کرتی ہے۔ ان کے نزدیک وہ ممالک جو انسانیت کے لیے کوئی مفید دریافت یا ایجادات کرتے ہیں وہ معزز ہیں۔ مذہب یا نظریے کی بنیاد پر معاشرے میں کسی فرد یا گروہ سے امتیازی سلوک بھی ان اقوام کے نزدیک قابل مذمت ہوتا ہے۔ دنیا میں رائج طاقت کے اصول کے تحت وہ اقوام بھی با اثر ، موثر اور معزز قرار پاتی ہیں جو جنگی قوت سے مالا مال ہوں۔ ان تمام عوامل کے علاوہ ایک مزید معیار بھی اس میں شامل ہو چکا ہے۔ وہ یہ کہ کون سی قوم یا ملک بڑی منڈی ہے جس کی وجہ سے ان کا تیار کردہ مال اچھے داموں فروخت ہو سکے گا اور با اثر اقوام کو مالی مفادات حاصل ہو سکیں گے۔ طوعاً و کرہاً ہمیں ان معیارات کے زیر اثر ہی اپنے معاملات کو چلانا ہے۔ جس طرح ایک فرد پیدائش سے لے کر موت تک دوسروں کا مرہون منت رہتا ہے۔ اسی طرح ہم بحیثیت قوم بھی دوسری اقوام سے تعامل پر مجبور ہیں ۔ ہم ان تمام معیارات سے لا تعلق نہیں رہ سکتے ۔ وبائی امراض کا خاتمہ پوری دنیا کا مطالبہ ہے ۔ اگر کوئی پاکستانی کسی دوسرے ملک جانا چاہتا ہو تو اسے اس بات کی یقین دہانی کروانا پڑے گی کہ اسے کوئی ایسا مرض لاحق نہیں جو وہ میزبان ملک کے افراد کو منتقل ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے دنیا کا ہم سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ پولیو جیسی بیماری کے تدارک کے لیے اقدامات کریں۔ دیگر اقوام سے زیادہ یہ پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے مگر ہمارے کچھ نادان دوست اس میں بھی ہنود و یہود کی سازش تلاش کر لیتے ہیں۔ ماحولیات کا ایک اہم مسئلہ اس وقت دنیا کو درپیش ہے۔ دنیا اس وقت کرۂ ارض پر ہونے والی منفی تبدیلیوں پر تشویش میں مبتلا ہے اور ایسے اقدامات پر زور دیتی ہے جس سے ان منفی اثرات سے بچا جا سکے۔
ہمیں بطور ایک قوم ہر حوالے سے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے۔ اقوام عالم میں مقروض ، ان پڑھ ، غریب اور بد عنوان کی کوئی عزت نہیں ہوتی ۔ ترقی یافتہ اقوام میں قرضہ لینا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی بلکہ ان کا پورا نظام قرضوں پر استوار ہے ۔ کاروبار کے لیے قرضہ لینا اور اس قرض سے خود بھی فائدہ اٹھانا اور قرض خواہ کی منفعت کا بھی خیال رکھنا بنیادی اصول ہے۔ قرض ان کی طرز زندگی میں لازم و ملزوم والی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہی وہ دیگر اقوام کے لیے تجویز کرتے ہیں‘ مگر ان کے ہاں قرضہ لے کر وقت پر واپس نہ کرنا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہی رویہ وہ دیگر اقوام کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔ اس وقت شاید ہی کوئی ترقی یافتہ ملک ایسا ہو جس نے اپنی کاروباری ضروریات کے لیے قرضہ نہ لے رکھا ہو۔ قرض خواہ کے مطالبات تسلیم کرنا ہماری مجبوری ہے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ تمام قرضہ واپس کر دیا جائے اور مزید قرضے کے لیے دست سوال دراز نہ کیا جائے۔