بوڑھا انگریز جھیل کے کنارے بیٹھا کانٹے سے مچھلیاں پکڑ رہا تھا۔ ایک نوجوان بینکار اس کے پاس آیا اور ہیلو بول کر ساتھ بیٹھ گیا۔ اس نے بزرگ سے پوچھا کہ آپ روزانہ کتنی مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں؟ بزرگ نے جواب دیا کہ دو مچھلیاں‘ اور جب تک دو مچھلیاں نہیں پکڑ لیتا ایسے ہی کانٹا جھیل میں ڈالے انتظار کرتا رہتا ہوں۔ وہ نوجوان بولا: آپ ان دو مچھلیوںکا کیا کرتے ہیں؟ وہ بولا کہ ایک مچھلی وہ گھر کھانے کے لیے لے جاتا ہے جبکہ دوسری مچھلی بازار میں فروخت کر کے دیگر اشیائے ضرورت خرید لیتا ہے۔ نوجوان بولا ''کیا یہ آپ کی ضرورت کے لیے کافی ہوتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اس کے گھر میں صرف وہ اور اس کی بیوی رہتے ہیں اور یہ ہم دونوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہم دونوں بہت خوش ہیں اور پر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔ اس پر نوجوان نے مشورہ دیا کہ وہ بینک سے قرضہ لے کر کشتی اور جال خریدے اور زیادہ مچھلیاں پکڑے۔ وہ بزرگ بولا ''تو پھر؟‘‘ نوجوان بینکار نے اپنے منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پھر آپ زیادہ پیسے کما سکیں گے ۔ وہ بزرگ دوبارہ بولا ''تو پھر؟‘‘ نوجوان نے کہا کہ پھر آپ امیر ہو جائیں گے اور پھر آپ ہنسی خوشی باقی زندگی گزار سکیں گے۔ وہ بزرگ اطمینان سے بولا: میں ایسے ہی بہت خوش ہوں، پُرسکون زندگی گزار رہا ہوں۔
انسان کی ضروریات کا احسن انداز میں پورا ہونا خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔ انسان اور حیوان میں جو بے شمار فرق ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان حیوانوں سے کہیں زیادہ لطف اور خوشی کا متقاضی رہتا ہے۔
یہ بات بھی انسانی نفسیات میں شامل ہے کہ کسی ترقی کے بعد وہ زیادہ دیر خوش نہیں رہتا‘ وہ خوشی اور ترقی سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے اور بعد ازاں اسی ترقی سے پہلے جیسی خوشی محسوس نہیں کرتا اور وہ اس سہولت کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ پھر وہ اس سے بڑھ کر مزید سہولت کا خواہش مند ہوتا ہے۔ جو خوشی کسی نعمت کے ملنے پر ہوتی ہے وہ پھر بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور اس کے لیے ضرورت بن جاتی ہے، بعد ازاں وہ مزید کا متمنی ہوتا ہے۔
خوشی اور خوشی کا حصول انسانی تگ و دو کا بنیادی محور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانی ضرورت کا تمام سامان مہیا کر رکھا ہے اور انسانی فطرت کے مطابق دنیا میں خوشی مہیا کرنے والے سارے اسباب موجود ہیں۔ ہر کوئی اپنی محنت ،صلاحیت کے بہترین استعمال اور اچھی عادات سے اپنے لئے ضروریات زندگی حاصل کرتا ہے۔ غربت بنیادی ضروریات کے پورا نہ ہونے کا نام ہے۔
انسان اپنے وسائل بڑھانے ، آسائش کے حصول ، وقار اور اختیارات میں اضافہ کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔ غلبہ اور خود نمائی انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ اگر اس جبلت کے آگے قانون اور اخلاقیات کا بند نہ باندھا جائے تو غلبے کی یہ خواہش انسان کو بے مہار کر دیتی ہے اور وہ جائز اور ناجائز کی تمیز بھول کر ظلم کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
انسان خواہشات رکھتا ہے اور ان خواہشات کی تکمیل پر خوشی محسوس کرتا ہے۔ یہ خواہشات بڑھتی جاتی ہیں اور وہ مزید خوشی کا متلاشی رہتا ہے۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے اور پھر خواہشات کا بہت زیادہ ہونا اسے ان کا اسیر بنا دیتا ہے ۔ پہلے سے موجود خوشی کے وافر اسباب کے باوجود وہ ناخوش اور بے چین رہتا ہے۔ خواہشات اور ضروریات کے محدود ہونے سے پہلے سے موجود نعمت وافر محسوس ہوتی ہے جو خو شی کا باعث بنتی ہے۔ خوشی مہیا کرنے والے اسباب بے شمار ہیں اور یہ اسباب معروضی ہوتے ہیں۔ یعنی ہر کوئی اپنی شخصیت اور پسند کے مطابق مختلف اسباب سے خوشی محسوس کرتا ہے۔ جیسا کہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فنکار لوگوں کی ستائش اور ناموری سے خوش ہوتا ہے، تو کوئی تخلیق کار اپنے تیار کردہ شاہکار سے مسرور ہوتا ہے۔ کوئی محقق نئی دریافت سے خوشی محسوس کرتا ہے، کسی نظریے یا سوچ کا پرچار کرنے والوں کے لیے ان کی سوچ یا نظریے کے حامیوں کی تعدا د میں اضافہ اس کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے۔
سیاسی لوگ انتخابات میں کامیابی سے خوش ہوتے ہیں تو ادبی ذوق رکھنے والے کسی خوبصورت نثر ، شاعری ، موسیقی یا ادبی شاہکار سے لطف محسوس کرتے ہیں۔ تاہم خوشی مہیا کرنے والے یہ اسباب کسی کی شخصیت اور مزاج کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں ۔ کچھ اسباب ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر کسی کے لیے خوشی کا باعث ہوتے ہیں جیسا کہ اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس بندے کو مسرور کرتا ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے سے اور دوسروں کو خوش کرنے سے بھی خوشی ملتی ہے۔ یہ احساس کہ کوئی دوسروں کے لیے مفید ہے، خوشی کا باعث بنتا ہے۔ اپنے پیاروں کی قربت سے بھی خوشی ملتی ہے۔ ان کے خوش ہونے سے خوشی ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کے لیے خوشی پہنچانے والے تمام اسباب مہیا کر رکھے ہیں۔ یہ تمام خوبصورتی اللہ کی عطا ہے تا کہ انسان اس سے لطف محسوس کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے نوازا ہے تا کہ وہ اپنے لیے مزید خوشی کا سامان مہیا کرتا رہے۔
یہ تمام اسباب انسان کو خوشی مہیا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ کوئی اپنے باطن کو درست نہ کرے۔ تمام آسائشیں ، وسائل ، رتبہ ، عزت ،ترقی، اختیار اور صحت کسی کو خوشی نہیں دے سکتے جب تک وہ قناعت اور شکر گزاری کے جذبات اپنے باطن میں نہیں رکھتا۔ بے شمار دولت ، اعلیٰ ترین رتبہ اور اختیارات بھی بعض اوقات خوشی مہیا نہیں کرتے جب تک کہ پہلے سے موجود نعمت پر شکر نہ کیا جائے۔ بعض افراد قناعت نہیں کرتے‘ اسے اللہ کی رحمت کی بجائے اپنی قابلیت اور محنت کا ثمر سمجھ کر اپنا حق تصورکرتے ہیں اور مزید توقعات رکھتے ہیں ۔ ان توقعات کا بڑھتے چلے جانا اسے پہلے سے موجود بے شمار نعمتوں سے لطف اندوز ہونے سے بھی روک دیتا ہے۔ وہ غیر مطمئن اور نا شاد رہتا ہے ۔ خواہشات اور ضروریات کا بڑھتے جانا اسے ان نعمتوں کا حریص بنا دیتا ہے اور وہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود احساس محرومی میں مبتلا ہو کر ہر وقت شاکی رہتا ہے۔
محرومی سے پاک کوئی بھی نہیں ہوتا۔ احساس محرومی ایک تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے ۔ منفی سوچ کے حامل ، حسد کرنے والے ، تکبر میں مبتلا ، حاصل نعمت کو اپنا حق سمجھنے والے ، ہر کسی سے ناخوش ، اپنے آپ کو بہت با صلاحیت اور ''توپ‘‘ چیز سمجھنے والے‘ زیادہ توقعات رکھنے والے ، اپنی بجائے دوسروں کے فرائض گنوانے والے، اپنی ضروریات بڑھاتے چلے جانے والے تمام تر نعمتوں کے باوجود خوش نہیں ہو سکتے۔
خوشی کا تعلق خارج سے زیادہ باطن سے ہوتا ہے۔ اگر صرف وسائل اور دولت ہی خوشی کا باعث ہوتے تو دنیا میں زیادہ لوگ نا خوش ہوتے ۔ اگرچہ مال و دولت بھی خوشی کا باعث ہوتی ہے تاہم یہ واحد ذریعۂ خوشی ہرگز نہیں۔
عاجزی ، قناعت پسندی ، شکر گزاری ، دوسروں سے ہمدردی ، پُر امیدی، خیر خواہی، تندرستی اور مثبت سوچ وہ بنیادی شخصی اوصاف ہیں جن کی موجودگی کے بعد ہی خارجی عوامل خوشی کا باعث بن سکتے ہیں۔ زندگی میں بڑے اہداف کی بجائے چھوٹے اہداف کا حصول قدرے زیادہ سہل اور ممکن ہوتا ہے۔ یہ مسرت کا باعث بنتا ہے۔ حضرت واصف علی واصف کے بقول سکون اور خوشی اسی وقت ملے گی جب ''جو پسند ہے اسے حاصل کر لو یا جو حاصل ہے اسے پسند کر لو‘‘۔
تمام آسائشیں ، وسائل ، رتبہ ، عزت ،ترقی، اختیار اور صحت کسی کو خوشی نہیں دے سکتے جب تک وہ قناعت اور شکر گزاری کے جذبات اپنے باطن میں نہیں رکھتا۔ بے شمار دولت ، اعلیٰ ترین رتبہ اور اختیارات بھی بعض اوقات خوشی مہیا نہیں کرتے جب تک کہ پہلے سے موجود نعمت پر شکر نہ کیا جائے۔