قیدی جرنیل کی قید میں گیارہ دن

آج 12اکتوبر 2013ء کا دن چودہ سال کے بعد اس طرح سے آیا ہے کہ کمانڈو جرنیل‘ جس نے دو تہائی اکثریت والی حکومت کو رخصت کیا، اب اپنے ہی گھر میں قید ہے اور ضمیر کے قیدی سیاستدان ، جناب محمد نواز شریف ، وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ قدرت نے ہمیں مکافاتِ عمل کی وہ معجزاتی کیفیت دکھائی ہے کہ ہم قرآن پاک کی آیت ’’ تم اللہ کی نشانیوں پر غور کیوں نہیں کرتے‘‘ پر غور کرنے پر مجبور ہیں ۔ 12اکتوبر1999ء کو میں نے وزیراعظم نواز شریف کے پریس سیکرٹری کی حیثیت سے جو دیکھا‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا۔ اس روز میرے ہمراہ اس تکلیف دہ صورتحال کو بھگتنے والے تیرہ افسران ، جن میں موجودہ کیبنٹ سیکرٹری جناب سمیع سعید ، جناب حسین نواز اور بزرگ دوست اور نامور صحافی جناب نذیر ناجی شامل تھے، کو وزیراعظم ہائوس میں ہی قید کردیا گیا ۔ نذیر ناجی صاحب کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں اُڑائی گئیں مگر یہ حقیقت جلد آشکار ہوگئی کہ وہ ایک پروفیشنل اور قابل قلمکار کی حیثیت سے وزیراعظم کو تقریر لکھنے میں مدد فراہم کررہے تھے۔ کسی سازش میں شریک نہ تھے۔ اس دن کی صورتحال کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے مگر ایک چشم دید گواہ کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ آنے والی نسلوں تک اس دن کی حقیقت آشکار کردوں تاکہ تاریخ میں سند رہے۔ زبردست افواہوں کے دوران طلوع ہونے والا 12اکتوبر 1999ء کا دن اپنے اندر عجیب پراسراریت لئے ہوئے تھا۔ اس روز وزیراعظم نواز شریف کو شجاع آباد جانا تھا ۔ ملک میں افواہوں کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں 11اکتوبر کی رات ایک بجے ٹیلیفون پر وزیراعظم ہائوس کے پروٹوکول افسر شوکت عباس نے اطلاع دی کہ ’’ صبح آپ نے ساتھ نہیں جانا‘‘۔ ان نوکریوں میں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب آپ فارغ کردیے جائیں۔ میں نے غنودگی کی کیفیت میں پوچھا کہ کیایہ حکم صرف میرے لیے ہے؟ تو جواب ملا کہ نہیںساری میڈیا ٹیم کیلئے ہے اور یہ کہ میڈیا کے آپ کے دوسرے ساتھیوں کو اطلاع دے دی گئی ہے۔ چونکہ عامر الیاس رانا ، طارق ثمیر ، زاہد جھنگوی اور مسعود ملک ساتھ جاتے تھے اس لئے مجھے اطمینان ہوا کہ اب کسی کو اطلاع دینے کی ضرورت نہیں رہی۔ بعد دوپہر وزیراعظم کی واپسی کا انتظار شروع ہوا۔ وزیراعظم کے طیارے نے 2بج کر پچپن منٹ پر لینڈ کرنا تھا۔ میں بمشکل ایئرپورٹ پہنچا۔ چوہدری نثار علی خان کے بڑے بھائی جنرل افتخار علی خان مرحوم ، جو سیکرٹری دفاع تھے‘ بھی اسی وقت ایئرپورٹ پہنچے تھے۔ وزیراعظم آئے ، سیکرٹری دفاع کو گاڑی میں ساتھ بٹھا لیا۔ مجھے فرنٹیئر پوسٹ کی خبر دکھانی تھی جس میں چھپا تھا کہ جنرل طارق پرویز کو اس لیے فارغ کردیا گیا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اس خبر میں بین السطور یہ کہا گیا تھا کہ جو جرنیل بھی وزیراعظم سے ملے گا اسے فارغ کردیا جائے گا اور وزیراعظم کا ان معاملات میں بالکل بس نہیں چلتا ۔ یہ بہت ہی غلط تاثر دینے والا پیغام تھا۔ مجھے چونکہ وزیراعظم کو اس خبر کے مضمرات پر بریف کرنا تھا اس لیے میں جلدی سے گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ گاڑی چل پڑی تو وزیر اعظم مجھ سے مخاطب ہوئے ’’ رائے صاحب آپ دوسری گاڑی میں آجائیں مجھے جنرل صاحب سے بات کرنی ہے‘‘۔ میں نے جلدی جلدی وزیراعظم کو خبر کی کاپی دی ، گاڑی رکی اور میں اتر کر اپنی کار میں آگیا۔ اس کے بعد وزیراعظم ہائوس کے واقعات اور معاملات بڑے تنائو والے ماحول میں وقوع پذیر ہوئے ۔ جنرل ضیاء الدین کو آرمی چیف بنایا گیا اور ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید ملک نے اپنے بیج (رینک) اتار کر جرنیلی بیج (رینک) پورے کئے اور پھر نئے آرمی چیف کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی گئی‘ جس کی کوریج کے وقت اس وقت کے چیئر مین پی ٹی وی اور موجودہ وزیراطلاعات جناب پرویز رشید موجود تھے۔ وہ بڑی مستعدی سے خود کیسٹ لے کر ٹی وی سٹیشن گئے اور یہ بریکنگ نیوز پانچ بجے کے خبر نامے میں چلوائی ۔ خبر چلی تو کچھ فوجی حکام حرکت میں آ گئے۔ اس میٹنگ کے بعد پر اسرار ماحول تھا۔ ہم نے وزیراعظم کے ساتھ عصر کی نماز لائبریری میں ادا کی ۔ یہ آخری نماز تھی جو ہم نے اکٹھے پڑھی۔ اس کے بعد 2009ء میں‘ جب میں تیسری دفعہ پریس سیکرٹری مقرر ہوا تو جاتی عمرہ رائے ونڈ میں (10 سال بعد) میاں صاحب کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ خیر میاں صاحب نماز کے بعد اندر چلے گئے۔ ہم نے اس کے بعد چار گھنٹے کے آرمی چیف ضیاء الدین کو فوج کی کمان کرتے ہوئے دیکھا جو ٹیلی فون پر احکامات دے رہے تھے ۔ لگتا یہ تھا کہ کوئی بھی سینئر افسران کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہ تھا ۔ وہ سٹاف افسروں سے کہتے ہوئے سنے گئے ’’ بیٹا میری بات سنو‘ جنرل صاحب سے میری بات کرائوفوراً‘‘ مگر دوسری طرف تیزی سے کام ہو رہا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایسا معاملہ ہے جو سب کے ذہنوں میں ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ 12اکتوبر کیوں اور کیسے ہوا؟ میرے خیال میں یہ آناً فاناً نہیں ہوگیا۔ 26 ستمبر کو روزنامہ اوصاف نے فرنٹ پیج پر خبر دی کہ وزیراعظم ہائوس کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ وزیراعظم ہائوس کی سکیورٹی فوج کے ذمہ ہوتی ہے۔ جہاں صوبیدار کو ہونا تھا‘ وہاں کپتان کھڑا کردیا گیا‘ جہاں دو سپاہی تھے وہاں پر چھ سپاہی مقرر کردیے گئے۔ میں نے یہ خبرسکیورٹی انچارج جنرل رحمت اللہ کو دکھائی۔ جنرل صاحب فوراً یہ خبر لے کر وزیراعظم ہائوس سے باہر ’’اُوپر گئے‘‘ اور وہاں سے واپس آ کر کہا‘ پارٹنر چپ ہو جائو۔ 26 ستمبراور 12اکتوبر کے درمیانی دنوں میں میرے دیرینہ ساتھی کرنل ارشدعلوی نے مجھے صاف لفظوں میں بتایا کہ جنرل کرامت کی رخصتی کے بعد اگر وزیراعظم نے فوج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ کرنل ارشد چاہتے تھے کہ ان کی اس رائے کو وزیراعظم تک پہنچا دی جائے مگر میں نے یہ کام اپنے عہدے سے بالا تر سمجھا اور یہ بات وزیراعظم تک نہ پہنچا سکا ۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ انہی دنوں وزیراعظم دو اہم اور مخلص ساتھیوں سے محروم ہوگئے جو صائب مشورہ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے اور ان کی بات سنی بھی جاتی تھی ۔ وہ تھے جناب انور زاہد اور جناب حسن پیرزادہ جو یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کے بعد وزیراعظم کے قریب تجربہ کار بیوروکریٹ اور پرنسپل سیکرٹری جناب سعید مہدی تھے مگر لگتا تھا کہ جنرل ضیاء الدین کے معاملے میں کچھ اور لوگ آگے تھے۔ پانچ بجے کے خبر نامہ کے بعد ہلچل مچ گئی۔ ٹیلی فون آنے شروع ہوگئے کہ فوج حرکت میں آگئی ہے ۔ میں وزیراعظم ہائوس سے نکل کر ریڈیو پاکستان تک گیا مگر فوج نظر نہ آئی۔ اس کے بعد میں ایف سکس فور میں واقع اپنے گھر گیا اور اس سے پہلے کہ میں بیگم کو کچھ بتاتا اس نے فوراً سوال کیا ’’ کیا فوج آگئی؟‘‘ میں نے کہا ابھی نہیں مگر شاید آجائے ، مگر تم تسلی رکھو‘ میں جلد واپس آجائوں گا ۔ میری بیوی نے بڑی کوشش کی کہ میں واپس وزیراعظم ہائوس نہ جائوں ۔ میں نے کہا کہ آج نواز شریف کو چھوڑنا بزدلی اور راجپوتوں کی روایات کے منافی ہے۔ میں وزیراعظم کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا اور یہ کہہ کر میں پھر واپس وزیراعظم ہائوس آگیا۔ اس وقت وزیراعظم ہائوس سے بہت سی اہم اور غیر اہم شخصیات نکل رہی تھیں۔ فوج نے آنے جانے والوں کو کچھ نہ کہا۔ اس دوران آرمی چیف ضیاء الدین بٹ موبائل ٹیلی فون پر وزیراعظم ہائوس کے پورچ سے حالات کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ راجہ نادر پرویز اپنے کزن جنرل طارق پرویز کو مبارک دے رہے تھے کہ دیکھا سب ٹھیک ہوگیا‘ لیکن اس کے بعد خاموشی سے چلے گئے۔ اس دوران ملٹری سیکرٹری جاوید ملک اور چیف سکیورٹی افسر پرویز راٹھور ٹیلی ویژن سٹیشن پہنچے۔ بریگیڈیئر جاوید ملک نے‘ جو اعلیٰ پائے کے افسر تھے‘ انتہائی دلیری اور جرأت کا مظاہرہ کیا۔ وہ نواز شریف کے وفادار اور ان کی محبت میں گرفتار تھے۔ بریگیڈیئر جاوید اسی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر حد سے آگے چلے گئے۔ وہ افسر جو یقینی طور پر جرنیل بننے والا تھا، برسوں جیلوں میں رہا‘ چھوٹے چھوٹے بچے دربدر ہوگئے مگر بعد میں محلاتی سازشوں نے انہیں میاں صاحب سے دور کردیا۔ آج بریگیڈیئر جاوید دل گرفتگی کے عالم میں گمنامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ انہیں 12 اکتوبر کو وفاداری دکھانے پر پنشن سے بھی محروم کردیا گیا۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں