تاریخ کے ہر دور میں دیکھا ہے کہ فرد اور معاشرے کی زندگی کا تعلق معاشی نظامِ پیداوار سے رہا ہے۔ ہمارا مزاج ‘ رسم و رواج ایک دوسرے سے تعلقات اور اجتماعی سماجی رویوں میں تبدیلی خارجی عوامل سے وابستہ رہی ہے۔ سب کچھ مکمل طور پر نہ کبھی ختم ہوا اور نہ ایسا ممکن ہے مگر آہستہ آہستہ نسل در نسل صنعتی معیشت کے پھیلاؤ کی ہمہ گیری نے ساری دنیا کو اپنے احاطے میں لے لیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو اس کی دسترس سے باہرہو۔ ہمارے ہاں زیادہ تر بڑی انقلابی اور معاشرتی اُلٹ پلٹ سامراجی طور پر پیدا ہوئی اور اس کا سلسلہ آ زادی کے بعد نئے معاشی خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں وسیع تر ہو تا چلا گیا۔ پنجاب کے جن علاقوں کی ابتدا نہری نظام اور نئی بستیاں بسانے سے ہوئی تھی‘ اب وہ صنعتوں کے مراکز بن چکے ہیں۔ شہر‘ جن کی بنیاد انتظامی بنیادوں پر رکھی گئی تھی‘ اب کئی گنا پھیل چکے ہیں ۔ آبادی میں بے پناہ اضافہ‘ زرعی ترقی اور متوسط طبقے کی بڑھتی ہوئی مالی سکت نے ہمارے پرانے شہروں کی جغرافیائی شناخت مکمل طور پر بدل ڈالی ہے۔ اس میں مبالغہ نہیں کہ زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر دیہی علاقوں کو شہری علاقوں میں تبدیل کیا جارہا ہے اور رہن سہن کے پرانے معاشرتی طور طریقوں کو کئی نئے رنگ دیے جا رہے ہیں۔ ہم پرانی نسلوں کے لوگ اسے تباہی سمجھتے ہیں۔ نئی نسلوں کے نزدیک یہ آبادیاں ان کے لیے نئی خوشحالی‘ کشادگی اور نئی زندگی کی علامات ہیں۔یہ تبدیلی چونکہ ہماری زندگیوں میں انتہائی تیزی سے رونما ہوئی ہے اور برق رفتاری سے ہر تاریخی شہر کا پھیلاؤ ہر سمت میں جاری ہے‘ ہم صرف نوحہ خوانی ہی کر سکتے ہیں ۔ ان صفحات پر فطرت سے محبت کرنے والے اس کی تباہی پر دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں اربنائزیشن معیشت اور معاشرے کو ایک نیا رُخ دے رہی ہے۔ پسند تو ہمیں بھی نہیں ہے مگر طاقت اور معیشت کے تمام عناصر اس سے مزید توانا ہو رہے ہیں تو ہماری کمزور سی آواز کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے۔
یہ مثال اس لیے آپ کی نذر کی ہے کہ معاشی پیداوار کے طور طریقے ہماری زندگیوں اور سماجی ڈھانچوں کو بے حد متاثر کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ صنعتی اقتصادیات نے جہاں جہاں قدم مضبوطی سے گاڑے ہیں‘ معاشرے اور انسانی رشتوں کو نئی ترتیب دی ہے ۔ یہ بات اچھی لگے یا بری‘یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ گزشتہ 30 برسوں سے تو سرمایہ کاری اور صنعتی نظام کو ایک نظریاتی فتح کی علامت اور انسانی ترقی کی معراج کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک اب تو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ دنیا کی غالب مالی اور صنعتی کارپوریشنز اپنے سرمائے اور انتظامی و تکنیکی صلاحیتوں کے ساتھ ان کے ہاں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ وہ خوش ہوتے ہیں کہ اس کی وجہ سے خوشحالی کی لہر ان کے دروازوں پر بھی دستک دے گی۔سب ترقی پذیر ممالک اس دوڑ میں لگے ہیں کہ ان کی سہولتیں اور ترغیبات دوسروں سے کہیں زیادہ پُرکشش دکھائی دیں تاکہ سرمایہ کاروں کو اپنی جانب متوجہ کر سکیں۔ اب نظریاتی تصورات بدل چکے ہیں۔ 1984ء میں مَیں بھارت پہلی بار گیا ‘ تب یہ ملک نظریاتی اور معاشی طور پر بالکل مختلف تھا۔ وہاں دہلی میں کئی نامور سیاستدانوں‘ صحافیوں اور دانشوروں سے ملاقات کی اور نہ جانے کتنے سفر بعد میں بھی کیے۔ اس زمانے میں بھارتی سینہ تان کر کہتے تھے کہ دیکھیں ہم نے کولا کے عالمی برانڈز تک کو ملک سے نکال باہر کیا ہے۔ سڑکوں پر سب کاریں مورس ساخت کی نظر آتی تھیں۔ آج کا بھارت بالکل ایک نیا ملک بن چکا ہے۔ معاشی نظریہ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں تبدیل کر کے بھارت نے اپنا قبلہ مغرب کی طرف موڑ دیا۔ ہم نے تو مغرب کی طرف منہ کر کے اور زبانیں بند کر کے دہائیاں گزار دیں مگر رفتار کا ایکسیلیٹر جن موروثی خاندانوں اور اربابِ اختیار کے پاس رہا ہے ‘ وہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ ہم کیوں زیادہ آگے نہیں چل سکے۔ بہرحال سست رفتاری ہی سہی‘ نظریاتی سمت اور منزل کے بارے میں تو کوئی غلط فہمی نہیں ۔
ہماری کیفیت دوسرے علاقائی ممالک سے یکسر مختلف ہے ۔ صنعتی اور سماجی ترقی کی شماریات میں تو ہم ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ‘ ہمارا صنعتی دور یہ ہے کہ ہم صرف صارفین بن کر رہ گئے ہیں ۔ اس کا تعین بچت سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنے ضروری اخراجات پورے کرنے کے بعد کچھ بچاتے بھی ہیں یا سب کچھ خرچ کر ڈالتے ہیں۔ ہماری قوم میں بچت کا تناسب علاقائی ممالک سے بہت کم ہے۔ آسان سی بات ہے کہ کہیں سرمایہ اکٹھا ہوتا ہو تو سرمایہ کاری ہو سکتی ہے‘ اگر نہیں تو پھر بیرونی قرضوں سے آپ سڑکیں اور دیگر ترقیاتی اور غیر ترقیاتی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے‘ جو ہم کر رہے ہیں ۔ایک طرف تو ہم ہر لحاظ سے صارف معیشت کا روپ دھار چکے ہیں تو دوسری طرف ہماری صنعتی پیداوار صرف چند شعبوں تک محدود ہے۔ یہ صنعتیں بھی وہ نہیں جن سے صنعت کاری ہوتی ہے ۔ وہ صنعتیں جو ہم نے پہلے 25 سال میں بڑی محنت سے لگائی تھیں‘ وہ ہماری بے وقت اور بے مغز اشتراکی تصورات اور عوامی مقبولیت کے شغف کی نذر ہو گئیں۔ ابھی تک اس کی راکھ سے کوئی نیا شعلہ پیدا نہیں کر سکے۔ جو کاوشیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہیں‘ انہیں موروثی سیاست کی کرپشن اور اس کے نتیجے میں ریاستی استطاعت کے زوال نے آگے بڑھنے نہیں دیا ۔خود سوچیں‘ صنعتیں اپنا وجود عالمی مسابقت کے کھلے میدان میں کیسے برقرار رکھ سکتی تھیں جب موروثی حکمرانوں نے بجلی کی پیداوار کے معاہدے ایسی شرائط پر کیے کہ کارخانے فقط خسارے میں ہی چل سکتے تھے۔ چنانچہ کارخانے آہستہ آہستہ بند ہونا شروع ہو گئے۔ وہ وقت تو ہمیں یاد ہے کہ چینی کے بہترین برتن‘ سرامک ٹائلز اور گھروں کی تعمیر کا سب سامان گجرات اور گجرانوالہ میں بنتا تھا ۔ اب کہیں جائیں تو دکاندارباہر کے ملکوں سے برآمدی سینٹری کا سامان بیچ رہے ہوتے ہیں۔ قیمتی ہونے کے باوجود خریداروں کی کمی نہیں ۔
صارف معاشرے کی بنیاد سرمایہ دارانہ صنعتی معاشرے میں ہے‘ اور یہ ایک ایسی معیشت کو جنم دیتا ہے جو ہمیں مشینی مصنوعات کی محبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔مغرب میں تو صارفیت ذہنی بیچارگی کی صورت اختیار کر چکی ہے کہ اکثر لوگ نئی اشیا کی چمک دمک کو دیکھ کر اُدھار پر لینا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ بوجھ بڑھتا رہتا ہے۔ ہمارا المیہ دگنا ہے کہ ہم خود پیدا بھی نہیں کر سکتے مگر وہ ہر شے بازار میں دستیاب ہے جو صنعتی معاشروں میں عام صارف کی دسترس میں ہے۔ اس کا اندازہ آپ درآمدات اور برآمدات میں کھربوں روپے کے فرق سے دیکھ سکتے ہیں۔ میری بات کا ثبوت پاکستان کے ہر گھر میں کسی نہ کسی صورت دیواروں پر لگے برقی قمقموں سے لے کر ٹیلی ویژن‘ ٹیلی فون اور دیگر سب کچھ متوسط طبقے کی آرائش کی میزوں پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے رویے بدل چکے ہیں۔ ہم پرانے زمانے کے لوگ ہاتھ سے بنی دستکاریاں‘ تانبے‘ پیتل اور لکڑی کی خوبصورت اشیا استعمال کرتے تھے اور ہر دفعہ کسی چیزکی ضرورت ہو تو پوچھتے ہیں کہ کوئی دیسی بنی ہوئی ہے تو دکاندار منہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ولائت کا سامراجی رعب ہمارے ذہنوں سے کب نکلے گا؟ کب دیسی رویوں کی طرف آئیں گے؟ زمانہ شاید آگے نکل گیا ہے۔ ہم دیسی‘ اپنے دیس کی تلاش کے مسافر تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے ۔