یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں کوئی جنگجو لشکر اکٹھا کرتا اور جس زمین کی زرخیزی اور امارت کا چرچا ہوتا اُس طرف گھوڑے دوڑا تا ہوا پہنچ جاتا۔ اس کا مطالبہ ہوتا کہ سب کچھ ہمارے حوالے کر کے اطاعت قبول کرو‘ اور ہم جو اتنی مسافت کی صعوبتیں برداشت کرکے حاضر ہوئے ہیں‘ اس کا معاوضہ ادا کرو۔ کمزور مقامی راجے‘ مہاراجے جنگلوں میں دور بھاگ جاتے‘ کچھ سامنے کھڑے ہو جاتے‘ لڑتے مرتے اور ایک دو دن میں جنگ کا فیصلہ کسی نہ کسی کے حق میں ہو جاتا۔ تب جنگیں فوجیں لڑا کرتی تھیں‘ اگرچہ اُن کی اعانت عوام کرتے اور ان کی طرف سے وسائل کی فراہمی ضروری ہوتی۔ شہروں اور آبادیوں میں نہیں‘ کہیں دور میدانِ جنگ میں معرکہ آرائی ہوتی‘ ہتھیاروں کی استعداد محدود اور طاقت کا انحصار زورِ بازو‘ حکمت عملی اور تعداد پر منحصر ہوتا۔ تاریخ کی کتابیں ہزاروں جنگی واقعات سے بھری پڑی ہیں‘ یونان کے دور سے لے کر مغلیہ سلطنت کے زوال تک‘ جنگوں کے اسباب پر قدیم مفکرین اور مؤرخین نے کمال کا علمی ورثہ چھوڑا ہے۔ جدید دور کے ماہرینِ نفسیات‘ سماجیات اور دفاعی امور نے اس ورثے میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔
آج کی جنگیں جدید ہتھیاروں‘ ٹیکنالوجی اور معاشی طاقت وصنعتی پیداوار کے بل بوتے پر لڑی جاتی ہیں۔ ان جنگوں کی تباہی کی طرف جب دھیان جاتا ہے تو ہمارے کمزور سے دل میں خوف اپنا ڈیرہ جما لیتا ہے کہ انسان کس طرح وحشیوں کی صورت اپنے مخالفوں پر حملے کرتے ہیں اور سب کچھ تباہ کر دیتے ہیں۔ ہماری نسل تو دوسری عالمی جنگ کے بعد پیدا ہوئی‘ مگر ہم نے اپنے ملک کے ساتھ بھارت کی دو تین جنگیں دیکھی ہیں جو ہر لحاظ سے محدود نوعیت کی تھیں۔ ویتنام کی طویل جنگ کے بارے میں خیال تھا کہ شاید یہ آخری جنگ ہو اور دنیا کی بڑی طاقتیں کچھ سبق سیکھ لیں گی‘ مگر پھر افغانستان اور روس کی جنگیں اور اُسی زمانے میں ایران اور عراق کی تقریباً دس سالہ لڑائی نے ہمیشہ ہمیں اپنی نوعیت کی کشمکش میں مصروف رکھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جدید دور کی ریاستیں امن کو مشکل اور جنگ کو آسان راستہ خیال کرتی ہیں۔ بات دراصل ریاستوں کے منفرد کردار‘ ساخت اور ان سے وجود میں آنے والے عالمی نظام کی ہے‘ جسے انارکی کہا جاتا ہے۔ انارکی وہ کیفیت ہے جب ریاستیں یا افراد کسی طاقت کے تابع نہیں ہوتے اور اپنے محدود مفادات کی خاطر ہر نوع کے اقدامات اس توقع سے اٹھاتے ہیں کہ وہ کسی اور کو تو زک یا نقصان پہنچائیں گے مگر وہ خود محفوظ رہیں گے۔
نتائج ہمیشہ ان کی توقعات کے مطابق نہیں ہوتے‘ اور تاریخ میں ایسا بارہا ہوا ہے۔ نپولین اور ہٹلر کے حشر سے کون واقف نہیں؟ افغانستان سے اپنے وقت کی دو بڑی طاقتوں کے جان چھڑا کر بھاگنے کی کہانی تو بالکل تازہ ہے۔ افغانستان اور روس کی جنگ کے بارے میں میرا مؤقف یہ رہا ہے کہ وہ جنگ کسی نے نہیں جیتی‘ سب ہارے اور یہی خیال امریکہ کی افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے بارے میں ہے کہ اس غریب ملک کو بھی برباد کیا اور خود بھی برباد ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کتنے لوگ مارے گئے‘ کتنے گھر تباہ ہوئے۔ جو اتنے بڑے پیمانے پر خونریزی برپا کرے اور نسل کشی کے مرتکب حکمران طبقات اور ریاستیں اس کے نفسیاتی اور سماجی اثرات سے خود کبھی محفوظ نہیں رہتیں‘ جیسا کہ ہم فلسطینیوں کی غزہ میں اسرائیل کی طرف سے بربادی میں دیکھ رہے ہیں۔ جنگ تو دور کی بات ہے‘ ہمارے نزدیک تو ہر قسم کا تشدد‘ زبان وکلام سے جسمانی اذیت تک انسانیت کی نفی ہے۔ جہاں جہاں جنگیں ہوئیں‘ دوبارہ تعمیر اور معاشروں کو سنبھلنے میں کئی دہائیاں لگ گئیں‘ اور کچھ تو آج بھی اپنا داخلی توازن بحال نہیں کر سکے۔ ان میں ہمارے قریب افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘ یمن‘ شام اور سوڈان شامل ہیں۔
تمام جنگیں بڑی بڑی غلط فہمیوں اور اندیشوں کے جذبے اور اکثر توسیع پسندی کی حرص کی وجہ سے شروع ہوتی ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک دفعہ جنگ کمزوروں کے خلاف شروع ہو گئی تو فتح کے اعلانات کے باوجود اس کا سلسلہ نہ رک سکا۔ وجہ یہ ہے کہ جنگوں کے اتنے محرکات ہوتے ہیں اور لڑائی کی کیفیت میں کسی کی طرف سے کوئی رکاوٹ یا اس کی کوشش فوراً کوئی اثر پیدا کرتی ہے۔ جنگ کا سوچنا یا محدود جنگ کا کسی طور شروع کرنا‘ خصوصاً دو ہمسایہ اور ایٹمی طاقتوں کے درمیان مکمل تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کا مقصد جنگ کے امکانات کو محدود یا حتمی الامکان ختم کرنا تھا‘ اور اب بھی ہے‘ مگر دونوں جانب سوچ کے دھارے کچھ مختلف رہے ہیں۔ یہاں امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ اور اس دوران ہتھیاروں کی دوڑ کے ساتھ امریکہ میں ایک تزویراتی سوچ کا ذکر ضروری ہے۔ وہاں کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ سوویت یونین کے خلاف ایٹمی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ ایک وقت تک صدر ریگن سٹار وار‘ یعنی آسمانوں میں دفاعی نظام معلق کرکے سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں‘ میزائلوں اور بمبار طیاروں کو نشانے پر رکھنے کی راہ پر چل پڑے تھے۔ اچھاہوا کہ وہ جلد ہی سمجھ گئے کہ ایک دوسرے کی جوہری طاقت کو تسلیم کرنے اور باہمی امن قائم کرنے کی خاطر لڑائی میں نہ پڑیں تو ہی بہتر ہے کہ کہیں بات ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک نہ پہنچ جائے۔
کچھ معروضات ایک لمبی تمہید کی صورت آپ کے سامنے اس لیے رکھی ہیں کہ جنگ کے خطرات کے بادل جو ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں‘ کہیں گھنگھور گھٹا بن کر برس نہ پڑیں۔ پہل بھارت نے کی ہے اور نشانے پر شہری آبادیوں کے کچھ حصوں کو رکھا ہے۔ اس کا نہ کوئی جواز ہے‘ اور نہ پہلے ہمارے ملکوں کے درمیان کشیدگی کو یکطرفہ طور پر اس نہج پر لانے کی کوئی مثال موجود ہے۔ ہماری فضائیہ نے اُس شب کارروائی کی اور بھارت کے کچھ جنگی جہاز گرائے‘ جن میں سے کم از کم تین کی تصدیق مغربی میڈیا کر چکا ہے۔ میرے خیال میں بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ہم جوابی کارروائی کا حق رکھتے ہیں‘ مگر اس حق کو صرف محفوظ کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ آپ بے شک ہمیں بزدل کہیں یا کچھ اور نام دیں‘ ہم جنگ کے خلاف ہیں۔ کچھ ہمارے ٹی وی دانشور تو گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں ہم پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اور بھارت کو بھی‘ کچھ دور کی فکر کرنا چاہیے۔ اگر وہ نہ بھی کریں تب بھی یک طرفہ برداشت کا مظاہرہ کرنا موجودہ قومی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہمارے مفاد میں ہو گا۔ جدید جنگوں کی لغت میں جیت کا لفظ مکمل طور پر نکال باہر کرنا ضروری ہے۔ جو ہم سمجھ پائے ہیں‘ جنگیں سب ہارتے ہیں‘ اور سب برباد ہوتے ہیں‘ کچھ کم اور کچھ زیادہ۔ ہمارے دونوں ملکوں میں جنونیوں کی کمی نہیں‘ اور نہ ہی نفرت پھیلانے والوں کی‘ اورشور اتنا زیادہ ہے کہ برداشت کی بات عجیب سے لگتی ہے۔ مگر اس کی بات کرنا یہ درویش ایک فرض سمجھتا ہے‘ کوئی سنے یا نہ سنے۔ جنگ شروع ہو گئی تو تباہی سب کی ہو گی۔