پاکستانی سیاستدانوں کی ایک خوبی کا میں بڑا معترف ہوں۔ وہ جب چاہیں کوئی بھی منجن بیچ سکتے ہیں اور ان کی خوش قسمتی دیکھیں کہ انہیں اپنے اس منجن کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑں خریدار بھی مل جاتے ہیں۔کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہباز شریف جنہوں نے اقتدار میں آکر آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنا تھا‘ وہ انہی زرداری کے ووٹوں سے آج وزیراعظم بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے جبکہ پرویز الٰہی اگلے روز ایک انٹرویو میں عمران خان کو قائداعظم کے بعد پاکستان سب سے بڑا لیڈر کہہ رہے تھے۔ایک لمبی فہرست ہے جو ان سیاستدانوں کے بارے میں بتائی جاسکتی ہے۔ عمران خان بھی آصف زرداری کو سب سے بڑی بیماری کہتے تھے اور پھر وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ان دونوں کا اتحاد ہوا تھا اور سینیٹ کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے پی پی پی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئر مین بنانے کے لیے ووٹ ڈالے۔
ہمارے سیاستدانوں نے ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ وہ کوئی بھی قسم اٹھا سکتے ہیں‘ وعدہ کرسکتے ہیں‘ مخالفین پر ہر طرح کا الزام لگا سکتے ہیں‘ پورے معاشرے کوایک دوسرے کے خلاف لڑنے اور تقسیم کرنے کے بعداچانک پلٹی کھا کر ان کو گلے بھی لگا سکتے ہیں اور اسے وہ سیاست اور جمہوریت کی خوبصورتی کہتے ہیں۔اور یہ وارداتیں ڈالنے کے بعد وہ اپنے حامیوں سے داد بھی مانگتے ہیں کہ دیکھا کیسا کرتب کیا اور عوام انہیں مایوس نہیں کرتے اور انہیں داد ملتی بھی ہے۔ ویسے آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کوئی عام انسان چودھری صاحب یا زرداری صاحب کے بارے نازیبا الفاظ بولتا تو اس کا انہوں نے کیا حشر نشر کر دینا تھا؟لیکن یہاں دیکھیں ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے بعدملاقاتیں ہورہی ہیں‘ لنچ ڈنر ہورہے ہیں‘ حکومتیں بن رہی ہیں اور کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نواز شریف‘ شہباز شریف اور زرداری کے حامیوں کو بھی اپنے لیڈروں کی باتوں اور پلٹنے پر کوئی اعتراض نہیں تو‘ یہی حال عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے حامیوں کا بھی ہے۔
مجھے تو کبھی کبھار لگتا ہے کہ یہ سب سیاسی لیڈروں کی ایک دوسرے کو بلیک میلنگ ہے یا عوام کو چونا لگانے کے لیے جان بوجھ کر ایک دوسرے کے جعلی دشمن بنے ہوئے ہیں۔جو اپنے مخالف کو زیادہ ڈرا سکتا ہے‘ اسے اونچی آواز میں بڑی گالی دے سکتا ہے وہی مخالف کو صلح پر مجبور کرسکتا ہے کہ تم نے اب میری شرائط پر صلح کرنی ہے۔ شروع میں تو دونوں ایک دوسرے کو خوب سناتے ہیں‘ ان کی کرپشن کی کہانیاں جلسے جلوسوں میں مزے لے کر تقریروں میں بیان کرتے ہیں‘ ان کے خلاف ٹویٹر پر ٹرینڈز چلواتے ہیں‘ اپنے حواریوں اور حامیوں سے انہیں گالیاں دلواتے ہیں۔ کچھ دن یا کچھ ماہ یا کچھ سال یہ مقابلہ چلتا رہتا ہے اور پھر وہ جیت جاتا ہے جس کی آواز زیادہ اونچی تھی یا جو زیادہ گالیاں اپنے حامیوں سے نکلوا سکتا تھا۔پھر آپ کو اچانک محسوس ہوتا ہے کہ وہ آپ کو بڑا فائدہ دے سکتا تھا‘ اقتدار کی راہ میں مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ پھر آپ فوراً اس کے پائوں پکڑ لیتے ہیں اور جسے کبھی شیطان کہتے تھے اسے مہاتما کا درجہ دے کر اس کی وفاداری کا حلف اٹھا لیتے ہیں اور اسے آپ اپنی سمجھداری‘ چالاکی اور سیاست کہہ کر اپنے حامیوں‘ اپنی فیملی اور دوستوں سے داد بھی وصول کرتے ہیں کہ دیکھا کیسا کھیلا۔پورا خاندان جس نے اس لیڈر سے گالیاں کھائی تھیں وہ بھی اس کارنامے پر پھولا نہیں سماتا اور واہ واہ کے ڈونگرے برساتا ہے کہ کیا کمال دائو کھیلا ہے‘ کیا اعلیٰ پائے کی سیاست کی ہے۔ آپ کا کوئی جوڑ نہیں۔
جب چودھری پرویز الٰہی اپنے انٹرویو میں قائداعظم کے بعد عمران خان کو بڑا لیڈر کہہ رہے تھے کہ ان کی قدر کرو تو مجھے عمران خان کی وہ پریس کانفرنس یاد آئی جو انہوں نے 2003 ء میں پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں کی تھی جس میں انہوں نے چودھری خاندان کے حوالے سے بینکوں کی دستاویزات کی کاپیاں ہم صحافیوں میں تقسیم کی تھیں۔ ان دستاویزات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کیسے چودھری خاندان نے مختلف بینکوں سے کروڑوں روپے قرض معاف کرایا تھا۔ بعد میں یہ سب دستاویزات آنے والے برسوں میں قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں بھی پیش ہوئی تھیں جس میں سب بینکوں کی تفصیل دی گئی تھی( میرے پاس وہ سرکاری دستاویزات محفوظ ہیں)۔ اسی قومی اسمبلی میں ہی فہمیدہ مرزا کی وہ تفصیلات پیش کی گئیں کہ انہوں نے سندھ میں واقع مرزا شوگر ملز کے ذمے بینکوں کے 84 کروڑ روپے معاف کرائے تھے۔عمران خان کا اُن دنوں میں نعرہ تھا کہ وہ بینکوں سے لوٹ مار کرنے والوں سے سب پیسہ نکلوائیں گے اور اس لیے تحریک کا نام انصاف رکھا گیا تھا کہ اب تک جو انصاف نہیں ہوا تھا وہ اب یہ جماعت کرے گی۔باقی چھوڑ دیں جو انصاف خان صاحب نے چودھری صاحب اور فہمیدہ مرزا کے ساتھ کیا وہ تاریخی ہے۔ فہمیدہ مرزا کو تو وزیراعظم بنتے ہی خان صاحب نے اپنی کابینہ میں وفاقی وزیر بنا دیا جبکہ پرویز الٰہی کو پہلے پنجاب اسمبلی میں سپیکر اور اب وزیراعلیٰ بنا دیا۔تحریک انصاف کے دوست اسے وقت کی ضرورت اور خان کی اعلیٰ حکمت عملی اور سیاست کہہ کر روز تالیاں بجاتے ہیں۔
اب زرداری اور شریف خاندان کا حال سن لیں۔ مجھے یاد ہے نواز شریف وزیراعظم تھے توایک دن میں وزارتِ قانون میں گیا ہوا تھا تو وہاں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ پتا چلا جینوا سے ایک وکیل نے پاکستانی حکومت کو ایک خط لکھا تھا۔ وہ وکیل پہلے بھی بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف حکومت پاکستان کے مقدمات میں پیش ہوتا رہا تھا۔ اس نے نواز شریف حکومت کو لکھا کہ اس کے نوٹس میں آیا ہے کہ زرداری صاحب نے سوئس حکومت اور عدالت کو اپروچ کیا تھا کہ بینظیر بھٹو کے وہاں ضبط شدہ نیکلس اور دیگر قیمتی اشیا اور پیسہ انہیں واپس کیا جائے اور ان کی اولاد اب اس اثاثے کی جائز وارث ہے۔ زرداری کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف والے این آر او کے بعد اب وہ مقدمہ ختم ہوچکا ہے لہٰذا اب بینظیر بھٹو کے منجمد اثاثے انہیں واپس کریں۔ جب یہ بات وزیراعظم نواز شریف کے نوٹس میں لائی گئی تو انہوں نے اپنے سیکرٹری قانون کو بلا کر کہا کہ زرداری کو یہ پیسہ نہ لینے دیں۔ یہ سارا پیسہ پاکستانی عوام کا تھا جو لوٹ کر منی لانڈرنگ کے ذریعے جینوا منتقل کیا گیا۔ سیکرٹری لاء کو کہا گیا کہ فوراً جینوا میں وکیل کی خدمات حاصل کریں اور اس مقدمے میں فریق بن کر بینظیر بھٹو کے منجمد اثاثے پاکستان واپس لائیں۔ ذرا ذہن میں رکھیں کہ 2014ء میں جب یہ خط آیا تھا اُس سے پہلے 2008ء میں نواز شریف کے وزیر زرداری حکومت میں پرویز مشرف سے حلف لے کر گیلانی کی کابینہ میں کام کرچکے تھے۔ بینظیر بھٹو اور زرداری کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ1997 ء میں شروع ہوا جب نواز شریف وزیراعظم تھے۔ اس دوران 2006/7 ء میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کا لندن میں چارٹر ہوا‘ ملاقاتیں ہوئیں اور پھر 2008ء میں مشترکہ حکومت بنائی گئی۔ اور پھر ایک دن 2014ء میں سوئس وکیل کا خط ملتا ہے تو اچانک نواز شریف کو یاد آجاتا ہے کہ بینظیر اور زرداری تو ملک لوٹ کر دولت سوئٹزر لینڈ لے گئے تھے جسے زرداری اب چپکے سے نکلوانا چاہ رہے ہیں لیکن ہم نہیں نکلوانے دیں گے۔
آج 2022 ء میں اسی زرداری اور بینظیر بھٹو کا بیٹا اسی شہباز شریف کی حکومت کا وزیرخارجہ ہے اور دنیا کو ان کی خوبیاں بتا رہا ہے۔ آج اسی عمران خان‘ چودھری پرویز الٰہی‘ آصف زرداری اور شریفوں کے حامی ڈھول کی تھاپ پر ناچ رہے ہیں کہ دیکھا ہمارا لیڈرکتنا بڑا کھلاڑی ہے یا ہمارے والا تو سب پر بھاری ہے!