حسد اور رقابت انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ آپ کو ہر شعبے میں لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ملیں گے۔ ہم کسی دوسرے کو اپنے سے بہتر جگہ پر برداشت نہیں کر پاتے‘ اس لیے اس کے زوال کی دعائیں مانگیں گے یا اسے نیچے گرتے دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوں گے۔ یہ سب باتیں مجھے اسحاق ڈار کی موجودہ حالت دیکھ کر یاد آرہی ہیں۔
ڈار صاحب لندن میں اچھی خاصی زندگی گزار رہے تھے اور ساری تنقید کا رخ مفتاح اسماعیل کی طرف تھا‘ جن سے ڈالر ہینڈل نہیں ہورہا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو وہ اتنے دبائو میں تھے کہ ایک دفعہ تو وہ کوئی واقعہ سناتے ہوئے دورانِ پریس کانفرنس رونے لگ گئے تھے۔ یہ ان کا نروس بریک ڈاؤن ہونے کی پہلی نشانی تھی۔ ان کے دور کا بڑا سکینڈل‘ جو اب اسحاق ڈار کی وجہ سے دب گیا ہے‘ وہ یہ تھا کہ انہوں نے بینکوں کو مبینہ طور پر یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ کھل کر مال بنائیں‘ جس سے ڈالر کا وہ کھیل شروع ہوا جو اب تک قابو میں نہیں آیا۔ انہوں نے ایک جونیئر کو گورنر سٹیٹ بینک کا ایکٹنگ چارج دے کر کام چلایا اور بینکوں نے امپورٹرز سے ڈالر کا ریٹ بیس روپے زیادہ لے کر ایل سیز کھولیں۔ اس کام میں چند ماہ میں بینکوں نے ستر‘ اسّی ارب روپے کما لیے۔ یوں اس کام سے پاکستان میں ڈالر کی ایک نئی مارکیٹ نے جنم لیا۔ ایک مارکیٹ بینک ریٹ تھا‘ دوسرا اوپن مارکیٹ تو ان بینکوں نے بیس روپے زیادہ ریٹ لگا کر ایک تیسری‘ گرے مارکیٹ بھی تخلیق کر لی۔
خیر مفتاح اسماعیل کی کہانی اپنی جگہ لیکن ڈار صاحب سے بھی مفتاح اسماعیل برداشت نہ ہوئے اور انہوں نے لندن سے ہی اپنی پروفیشنل رقابت کی بنیاد پر بیانات جاری کرنا شروع کر دیے۔ مفتاح صاحب کے تمام اقدامات کو انہوں نے غلط قرار دے کر نواز شریف کے کان بھرنا شروع کیے کہ وہ معیشت کو برباد کردیں گے۔ ڈار صاحب کا کہنا تھا کہ وہ تیس برسوں سے وزارتیں چلاتے آئے ہیں۔ انہیں سب پتا ہے۔ اگر یاد ہو تو ڈار صاحب کو حفیظ پاشا اور سرتاج عزیز سے بھی یہی مسائل تھے اور آخر انہیں ہٹا کر ہی دم لیا تھا۔ اسحاق ڈار کو دیگر پارٹی اراکین پر جو برتری حاصل ہے‘ وہ ان کا نواز شریف کا سمدھی ہونا ہے۔ ان کی بات پارٹی میں وزن رکھتی ہے۔ جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو اصل حکومت اسحاق ڈار چلا رہے تھے جبکہ نواز شریف بیرونی دورے کرنے میں مصروف تھے۔ ڈار صاحب کا خیال تھا کہ مشکلیں انہوں نے دیکھیں اور وزارتِ خزانہ کے مزے اب مفتاح اسماعیل اور ان کے یار دوست لوٹ رہے ہیں۔ لہٰذا مفتاح صاحب کو ہٹا کر انہوں نے خود ان کی جگہ لے لی۔
ڈار صاحب کی ورکنگ کو میں نے 2013-18ء کے درمیان دیکھا تھا۔ ان کے پاس ایک ہی حل ہے کہ جہاں سے قرضہ ملتا ہے‘ لے لو۔ کتنا مہنگا ملتا ہے‘ اس کی پروا نہیں۔ انہوں نے تاریخ کے مہنگے ترین بانڈز اس وقت مارکیٹ میں فلوٹ کر دیے جب دنیا کا کوئی ملک اس ریٹ پر لینے کو تیار نہ تھا۔ قرض 8.25فیصد شرحِ سود پر لیا گیا۔ انہی دنوں ایک بھارتی کمپنی نے اپنے بانڈز مارکیٹ میں فلوٹ کیے اور سات سو ملین ڈالرز اکٹھے کر لیے۔ یعنی ایک پرائیویٹ کمپنی پر انویسٹرز کو زیادہ اعتماد تھا جبکہ ایک ریاست پر نہیں تھا۔ بعد میں جب ڈار صاحب سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اتنا مہنگا قرضہ کیوں لے لیا تو بولے ہم عالمی مارکیٹ میں اپنی ساکھ چیک کررہے تھے۔ یوں ساکھ چیک کرنے کے چکر میں مہنگا ترین قرضہ لے لیا گیا۔
سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے انکوائری شروع کی تو ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ مہنگے بانڈز خریدنے کیلئے ڈالرز پاکستان سے بھیجے گئے تھے اور ان مہنگے بانڈز کا فائدہ پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے دوستوں کو ہوا تھا۔ سلیم مانڈوی والا نے اس حوالے سے تفصیلات مانگیں تو اسحاق ڈار کی وزارت نے دینے سے انکار کیا کہ کن لوگوں نے پاکستان سے بینکوں کے ذریعے ڈالرز باہر بھیج کر وہ مہنگے بانڈ خریدے کہ منافع بہت مل رہا تھا۔ ڈار صاحب نے اب 2023ء میں جو کھیل کھیلا‘ وہ بھی اسی طرح کا ہے جو 2014ء میں مہنگے بانڈز مارکیٹ میں فلوٹ کرکے ساکھ چیک کرنے کیلئے کھیلا تھا۔ اب کی دفعہ وزارت سنبھالتے ہی پھر سے فیصلہ کیا گیا کہ ملک کی ساکھ چیک کر لی جائے۔ مفتاح اسماعیل جو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تقریباً فائنل سٹیج پر لے آئے تھے‘ انہیں ڈار صاحب نے بریک لگا دی۔ انہوں نے کہا کہ مفتاح کو غلط ثابت کرنا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ملکی حالات ٹھیک کرنے ہیں۔ لہٰذا جو کام پچھلے سال وزارت سنبھالتے ہی کرنے تھے تاکہ آئی ایم ایف اپنی قسط ریلیز کرتا‘ انہوں نے نہیں کیے۔ ان کا خیال تھا کہ آنے والے دنوں میں وہ سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارات سے پانچ چھ ارب ڈالرز مانگ کر ریزروز کو اوپر لے جائیں گے۔ ڈالر مستحکم ہو جائے گا اور انہیں بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی ضرورت نہیں رہے گی؛ تاہم جب سعودی عرب اور دیگر ملکوں کے پاس گئے تو ان سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ آپ لوگ کیا ہمارے پیچھے پڑ گئے ہیں، اپنا گھر خود ٹھیک کریں۔ آپ لوگوں کی بجلی‘ گیس اور پٹرول پر سبسڈی ہم کیوں دیں اور آپ ہمارے اربوں ڈالر اس مد میں جھونک کر اپنی قوم کو مہنگی چیزیں خرید کر سستی بیچتے رہیں۔ ان سب ملکوں نے اب کی دفعہ فیصلہ کیا کہ پاکستان ان کے کہنے پر تو سخت اقدامات نہیں کرے گا جب تک آئی ایم ایف اس کے کڑاکے نہیں نکالے گا۔ یوں جنوری میں انکار کے بعد ڈار صاحب دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس گئے کیونکہ ریزرو مسلسل گر رہے تھے۔ جو ڈالر ڈار صاحب نے دو سو روپے سے نیچے لانا تھا‘ وہ پونے تین سو روپے تک پہنچ گیا۔ دوائیاں تک منگوانے کے ڈالرز نہیں رہے۔ اگر ڈار صاحب اُس وقت رقابت یا حسد کا شکار نہ ہوتے یا اُن پر مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں کو غلط ثابت کرنے کا جنون طاری نہ ہوتا تو سب کام ستمبر میں ہو چکے ہوتے۔ آئی ایم ایف سے بھی قسط مل جاتی اور دوست ممالک بھی چھ‘ سات ارب ڈالرز دیدیتے۔ نہ صرف ریزروز بہتر ہوتے بلکہ ڈالر اوپر جانے کے بجائے نیچے آتا اور مارکیٹ میں Panic نہ ہوتا۔ لیکن ڈار صاحب کی ضد ان کے آڑے آگئی کہ اگر میں نے مفتاح اسماعیل کی یہ پالیسی جاری رکھی تو مجھے ڈار کون کہے گا۔
اب جب سب دوست ممالک کا چکر لگا لیا اور سب نے کہا کہ بھائی ڈالرز اُس وقت ملیں گے جب آئی ایم ایف کلیئرنس دے گا تو ڈار صاحب دوبارہ اسی پالیسی پر واپس آگئے ہیں۔ اس دوران ڈالر نے جو تباہی مچائی‘ روپیہ ٹکے ٹوکری ہوگیا‘ معیشت مزید نیچے گر گئی اور مہنگائی نے لوگوں کا حشر نشر کر دیا‘ اس کی ڈار صاحب کو نہ فکر ہے‘ نہ ان کی یہ ترجیح ہے۔ ہاں‘ اس دوران ڈار صاحب نے اپنی ذاتی اکانومی ضرور ٹھیک کر لی۔ اپنا لاہور والا گھر نیب سے بازیاب کرا لیا‘ بینک میں جو پچاس کروڑ روپے نیب نے فریز کر رکھے تھے‘ وہ ریلیز کرا لیے‘ منی لانڈرنگ کا مقدمہ واپس ہو گیا‘ سینیٹ کی نشست کا حلف اٹھا لیا‘ ملک کے وزیرخزانہ بھی بن گئے‘ مفتاح اسماعیل سے بدلہ بھی لے لیا۔ انہیں اور کیا چاہیے تھا۔ اب ایک سو ستر ارب روپے ٹیکس کا بوجھ عوام اٹھائیں گے۔ پہلے 2014ء میں ساکھ چیک کرتے کرتے قوم کو اربوں کا ٹیکا لگا بیٹھے تھے تو اب 2023ء میں بھی دوبارہ اپنی ساکھ چیک کرتے کرتے 170ارب کا نیا ٹیکا لگا بیٹھے ہیں۔ ان دس برسوں میں نہ ڈار صاحب بدلے‘ نہ ان کی ساکھ بدلی۔ ڈار صاحب کی یہ مستقل مزاجی دیکھ کر اپنا دوست شفیق لغاری یاد آیا‘ جو یہ شعر سناتا تھا:
چائے پیتا ہے‘ شعر کہتا ہے
شاعر میں اور کیا برائی ہے