پچھلے ہفتے دو تجربے ہوئے جنہوں نے میری سوچ کے زاویے بدل دیے۔انسان کے سیکھنے اور متاثر ہونے کا عمل کبھی نہیں رکتا۔ایک مہربان دوست سے ملا جس کے مجھ پر کافی احسانات تھے۔اس نیک انسان سے پہلی ملاقات2011ء میں ہوئی تھی۔ان بارہ برسوں میں انہوں نے دو تین دفعہ مشکل وقت میں مدد کی بلکہ یوں کہیں اللہ نے اس شخص کی شکل میں غیبی امداد بھیجی تھی۔جب مجھے لگا کہ شاید سب راستے بند ہورہے ہیں‘انہوں نے ایک شاندار راستہ دکھایا اور میں پھر سے اپنے کام سے جڑ گیا۔برسوں بعد پھر مشکل پیش آئی تو بھی اس بندے نے آگے بڑھ کر مدد کی۔
ان بارہ برسوں میں ان سے کبھی کبھار ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مجھے کبھی ان کی باتوں سے نہ لگا کہ انہوں نے مجھ پراحسانات کیے ہیں۔اب بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے کہا:ایک بات آپ سے کہوں؟ برسوں گزر گئے‘ ان برسوں میں مجھے آپ نے کبھی کوئی کام نہیں کہا‘مجھ سے کوئی توقع نہیں رکھی‘کبھی باتوں باتوں میں اشارتا ًبھی ذکر نہیں کیا کہ آپ نے کبھی میری مشکل میں مدد کی تھی حالانکہ میں انتظار کرتا رہا کہ کبھی نہ کبھی آپ مجھ سے اپنی کی ہوئی فیور کا بدلہ لیں گے‘ مجھے کوئی کام کہیں گے تاکہ چیک کر سکیں کہ کیا میں بھی آپ کے لیے کچھ بوجھ اٹھا سکتا ہوں۔ کوئی بندہ بھیجیں گے کہ اس کا کام کرا دو۔میں نے کہا: زندگی میں ہم لوگوں کو ایک دوسرے سے کام پڑتا رہتا ہے۔ ذاتی تجربہ ہوا ہے کہ اگر کسی نے کبھی میرا کوئی کام کیا تو کچھ دنوں بعد اپنا بڑا کام لے کر میرے پاس ضرور آیا اور سود سمیت اپنی فیور واپس لی‘ بلکہ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ۔میں نے کہا :ہم انسان ہیں فطرتاً جس بندے کا بھلا کرتے ہیں اس سے توقعات رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوپاتیں تو ہم ہرٹ ہوتے ہیں اور دوسرے کو احسان فراموش سمجھتے ہیں اور ساری زندگی اس دکھ میں گزاردیتے ہیں اور آنے جانے والوں کو بتا بتا کر نہیں تھکتے کہ ہم نے فلاں سے بھلائی کی لیکن ہمیں بھلائی کا صلہ نہیں ملا۔ ہم حضرت علیؓ کا قول سب کو سناتے ہیں کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو۔میں نے کہا: شاید میرے اندر بھی یہ سب خامیاں موجود ہیں کہ میں بھی توقعات رکھتا ہوں۔ اکثر پوری نہیں ہوتیں تو میں بھی یہی رویہ رکھتا ہوں کہ اچھائی کا صلہ نہیں ملا۔میں نے کہا: میری زندگی میں آپ پہلے بندے ہیں جس بارے مجھے ذاتی تجربے کے علاوہ بھی علم ہے کہ آپ نے بہت سے لوگوں کو مشکل سے نکالا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو مجھے خود بتایا ہے‘ لیکن آپ کے منہ سے کبھی نہ سنا کہ یار فلاں سے بھلائی کی‘اُس پر احسان کیا لیکن اس بندے نے اچھا صلہ نہیں دیا۔ آپ کو کبھی کسی کی برائی کرتے نہ سنا کہ فلاں بندے کو مجھ سے کام پڑا تھا تو میں نے تو اس کی مدد کی لیکن جب میں نے اسے کچھ کام کہا تو اس نے لفٹ ہی نہیں کرائی۔ دیکھو دنیا کتنی کم ظرف ہوگئی ہے۔
وہ مجھے کچھ دیر دیکھتے رہے اور مسکرا کر بولے: آپ نے عجیب بات کہہ دی ہے۔ آپ کو ایمان سے بتائوں کہ لوگ تو محض ڈائیلاگ بولتے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ میں نے کسی کا بھلا بھی کیا تو یقین کریں میں نے اس بندے سے واپسی کی کوئی امید نہیں رکھی۔ کبھی سوچا تک نہیں کہ میں نے اس کا بھلا کیا تھا لہٰذااب وہ سود سمیت واپس کرے۔ہاں میں نے دوسروں کے ساتھ کی گئی اچھائی کے صلے کی امید صرف اللہ سے رکھی ہے۔براہ راست اس سے رابطہ رکھا ہے اور یقین کریں کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ میرے ایسے کئی کام ہوئے ہیں کہ میں آج حیران ہوتا ہوں۔انسانوں سے توقعات نہ باندھیں ‘اس لیے کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔جس خدا سے توقعات ہیں وہ سب پوری کرتا ہے۔مجھے لگا ان چند الفاظ نے میری اپنی سوچ بدل دی۔اپنے چھوٹے ہونے کا احساس ہوا کہ کسی کا بھلا بھی کر دیا تو توقعات کا پہاڑ اٹھا کر اس کے کندھے پر رکھ دیا کہ اب ساری عمر مجھے اپنا اَن داتا مان کر رہو ورنہ تم کم ظرف ہو۔
دوسرا تجربہ دوست وقار چوہان کے والد رفیق چوہان صاحب کے سوئم پر جا کر ہوا۔قاری صاحب نے دعا سے پہلے اچھی تقریر کی۔ عموماً لوگ سوئم پر اتنی لمبی گفتگو سن کر بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن قاری صاحب نے اتنے سادہ انداز میں گفتگو کی کہ سب لوگوں نے غور سے سنی۔لگ رہا تھا کہ قاری صاحب نے نہ صرف دینی علم حاصل کررکھا ہے بلکہ دنیاوی نالج پر بھی کمانڈ ہے۔ان کے سامنے بیٹھے لوگ بھی سنجیدہ تھے لیکن قاری صاحب نے سب کی توجہ اپنی گفتگو کی طرف مبذول کرائے رکھی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اگر قاری صاحب کے پاس دینی اور دنیاوی اچھا نالج ہو تو لوگ غور سے سنتے ہیں اور شاید ان کی چند باتوں پر عمل بھی کر گزرتے ہوں۔لیکن جس بات نے وہاں بیٹھے سب لوگوں کو متاثر کیا وہ وقار چوہان کی اپنے والدِ مرحوم بارے گفتگو تھی۔ یقینا سب کا خیال ہوگا کہ ایک بیٹا اپنے باپ بارے روایتی گفتگو کرے گا لیکن ایک بیٹے کی گفتگو نے سب کو متاثر کیا۔ وقار چوہان بتانے لگے کہ کیسے اُن کاباپ ہی ساری عمر اُن کا ہیرو رہا ہے‘ جنہوں نے اپنی باتوں سے نہیں بلکہ کردار اور عمل سے بچوں کو متاثر کیا۔
1964-65ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے رول آف آنر لینے والے نوجوان رفیق چوہان نے کالج کاکون سا ایسا شعبہ ہوگا جہاں اپنی کارکردگی اور قابلیت سے سب کو متاثر نہ کیا ہو۔ ہر جگہ تقریری اور دیگر مقابلے جیتے۔ ان کے اکثر دوست جی سی لاہور سے فارغ ہونے کے بعد سول سروس کا امتحان دے کر بیوروکریسی میں چلے گئے اور فیڈرل سیکرٹری تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ محکمہ تعلیم میں جائیں گے‘وہ افسر نہیں بنیں گے‘ وہ بچوں کو پڑھائیں گے۔ انہیں پڑھانا اچھا لگتا تھا لہٰذا وہی کام کیا جو پسند تھا۔بچے بڑے ہوئے تو کسی کو کبھی نہ کہا کہ تم نے کیا کرنا ہے۔اگر بچوں نے پوچھ لیا تو جواب ملا جو دل کرتا ہے وہی کرو۔اپنے فیصلے خود کرو۔ وقار چوہان بتانے لگے کہ میں نے کہا :انجینئرنگ کرنی ہے تو بولے کر لو۔انجینئرنگ کر لی تو کہا: اب مقابلے کا امتحان دینا ہے‘ بولے: دے دو۔ میں نے کہا: فلاں کام کرنا ہے تو بولے: کر لو۔ ہاں ‘یہ ضرور کہا کہ ایک کام کرنا‘ کبھی حرام کی کمائی نہ کرنا۔وقار چوہان کی آواز بھرا گئی۔ میں نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وقار چوہان کے باپ رفیق چوہان کی کتنی عمر ہوگی۔ میرا اندازہ تھا کہ ان کی عمر 75‘80 سال ہوگی کیونکہ اگر 1964ء میں وہ گریجوایشن کررہے تھے تو اتنی عمر ہونی چاہیے۔ وقار چوہان نے گفتگو میں کہا: کہ ان کی عمر اَسی برس تھی۔ آخر دم تک کام کرتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی فلاح ِعامہ کے کاموں میں جُتے رہے۔کبھی ہسپتال نہ جانا پڑا۔اب بھی جس دن ہسپتال گئے اس دن بارہ بجے تک دفتر میں کام کرتے رہے۔ ڈھائی بجے آپریشن تھا لیکن آپریشن کے بعد ریکور نہ ہوسکے۔اکثر ایسے لوگ جو عمر بھر صحت مند رہے ہوں وہ ایک ہی دن ہسپتال جاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے۔وقار چوہان بتانے لگے: جتنی تکلیف میں تھے کسی سے کوئی گلہ نہیں۔ تکلیف میں تھے تو بھی چہرے پر اطمینان اور مسکراہٹ تھی۔بار بار پوچھا کوئی بات ہو تو بتائیں۔مسکرا کر کہا: کچھ نہیں۔
اَسی سالہ باپ جس نے ایک بھرپور زندگی گزاری اس کی وفات پر ایک بیٹے کو روتا دیکھ کر‘ جس کے اب اپنے جوان بیٹے کالج‘ یونیورسٹی پہنچ چکے ہیں‘ ایک عجیب سا خیال آیا۔ کتنے ایسے خوش نصیب باپ ہوں گے کہ اَسی سال کی عمر میں فوت ہونے پر ان کا پچاس پچپن برس کا بیٹا اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے باپ کی محبت میں رو رہا ہو۔ اپنے بیٹے کے یہ قیمتی آنسو کمانے کے لیے عمربھر کتنی محنت کی ہو گی رفیق چوہان صاحب نے۔ ویسے ہی ایک خیال آیا۔ ہم میں سے کتنے ہوں گے جن کے جوان بچے باپ کے جانے بعد ایسے رو رہے ہوں گے۔