انور بیگ نے جب مجھ سے پوچھا‘ تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں جاب چھوڑنے والا ہوں؟ میں نے کہا: آپ کو برسوں سے جانتا ہوں‘ اگر آپ کا کوئی باس ہوسکتا ہے یا جس کے نیچے آپ لگ کر کام کرسکتے ہوں تو وہ ایک ہی بندہ ہے۔ آپ اس بندے کے علاوہ کسی اور کے نیچے کام نہیں کرسکتے۔ وہی بندہ آپ کو کنٹرول کرسکتا ہے۔بیگ صاحب نے تجسس سے پوچھا: وہ کون ہے؟ میں نے ہنس کر کہا: اس کا نام انور بیگ ہے۔ آپ صرف انور بیگ کو ہی اپنا باس مانتے ہیں۔ آپ کا وہی مزاج ہے۔ مائی وے یا ہائی وے لہٰذا زرداری ہوں یا نواز شریف ‘آپ کیلئے ان کے نیچے لگنا یا دربار میں ایک خوشامدی بن کر لطیفے سنانا یا ہر بات پر واہ واہ کرنا ممکن نہیں تھا اور کوئی بھی حکمران یا سیاستدان کسی ایسے بندے کو پسند نہیں کرتا جو اس کی خوشامد نہ کرے۔ ارشد شریف مسکرا دیا اور بولا: بات توٹھیک ہے کہ بیگ صاحب کا باس انور بیگ ہی ہوسکتا ہے۔میں نے کہا: ایک اور مسئلہ بھی ہے جس وجہ سے آپ زرداری اور شریف کے ساتھ کام نہیں کر پائے۔
میں نے ایک دفعہ اپنے دوست ڈاکٹر ظفر الطاف سے پوچھا تھا کہ آپ نے37 سال سول سروس میں کئی حکمرانوں کے ساتھ کام کیا جن میں بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور پرویز مشرف اہم تھے۔ آپ کو دوبارہ موقع ملے تو ان میں سے کس کے ساتھ کام کرنا پسند کریں گے؟ڈاکٹر ظفر الطاف نے ایک لمحہ سوچے بغیر کہا: اگر دوبارہ موقع ملتا تو وہ بینظیر بھٹو کو نواز اور مشرف پر ترجیح دیتے۔میں نے وجہ پوچھی تو بولے: بینظیر بھٹو کی اپنی کلاس تھی‘ وہ کتاب پڑھنے والی حکمران تھیں‘ان سے آپ کھل کر بحث کرسکتے تھے‘کابینہ اجلاس میں لڑ سکتے تھے‘انہیں آپ قائل کرسکتے تھے۔وہ آپ سے لڑتی رہتی تھیں لیکن وہ آپ سے انتقام نہیں لیتی تھیں کہ وہ وزیراعظم ہیں اور آپ نے سیکرٹری ہو کر کیوں کابینہ اجلاس میں بحث کی۔ تین سال وہ وفاقی سیکرٹری رہے اور ہر دفعہ ہر اجلاس میں بینظیر بھٹو اور ڈاکٹر ظفر الطاف کے درمیان سرد گرم بحث ہوئی لیکن انہیں معطل نہیں کیا گیا۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کے ادوار میں چند ہفتوں بعد وہ او ایس ڈی بن چکے تھے‘ وجہ وہی تھی کہ وہ کابینہ اجلاس میں اپنی بات کرتے تو اکثر انہیں پسند نہ آتی اور وہ گھر بھیج دیے جاتے۔میں نے بیگ صاحب سے کہا: اس طرح بینظیر بھٹو کے ساتھ برسوں کام کرنے کے بعدآپ کیلئے زرداری‘ شریف یا اسحاق ڈار کے نیچے کام کرنا آسان نہیں تھا۔ آپ ایک ذہین انسان ہیں‘آپ ambitious بندے ہیں جو زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہے‘ آپ کے پاس ذہن ہے‘ خیالات ہیں‘لیکن جو لوگ آپ کے باس ہیں ان کے پاس انسانوں پر حکومت کرنے کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں اور کہا جاتا ہے کہ انسانوں پرحکومت کرنے سے بڑا نشہ آج تک پیدا نہیں ہوا‘ لہٰذا آپ ان لوگوں کے نیچے کام نہیں کرسکتے تھے۔میں تو حیران ہوں آپ ایک سال کیسے نکال گئے؟
بیگ صاحب نے ایک گہری سانس لی اور کرسی میں دھنس گئے اور بولے: RK ٹھیک کہتے ہو۔ یہاں تو اصل وزیراعظم اسحاق ڈار ہے۔ وہی حکومت چلا رہا ہے۔اس کی مرضی کے بغیر پتا نہیں ہلتا۔میں نے کہا: آپ کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات نہیں ہوئی؟ آپ ان سے بات کرتے جو آپ کو ایشوز آرہے ہیں۔کہنے لگے: ان کے کان بھی بھر دیے گئے ہیں۔ دراصل وہ کوئٹہ گئے تھے جہاں ان کی اس وقت کے کور کمانڈر سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ بینظیرانکم سپورٹ پروگرام پر ان کی کچھ علاقوں میں مدد چاہتے تھے اور کچھ کام بھی وہاں کرنا چاہتے تھے۔یہ بات شاید نواز شریف کو بتائی گئی تھی کہ بیگ صاحب پرپرزے نکال رہے ہیں ‘ سیاسی حکمران ان معاملات پر فوراً اَن سکیور ہوجاتے ہیں۔میں نے ذرا لائٹ انداز میں کہا: بیگ صاحب دراصل کوئٹہ سے ان کی کچھ تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ جب جنرل مشرف کارگل کے بعد وزیرا عظم نواز شریف پر ملبہ ڈال رہے تھے تو وہ انہیں ہٹانے کا سوچ رہے تھے تو نواز شریف نے کورکمانڈر کوئٹہ جنرل طارق پرویز کو بلا کر خفیہ ملاقات کی تھی۔ طارق پرویز نے آرمی چیف سے چھپ کر ملاقات کی تھی جس پر جنرل مشرف نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ برطرفی کے حکم نامے پر مہر بھی رولز کے تحت وزیراعظم نواز شریف سے لگوائی گئی۔ نواز شریف نے جس جنرل سے خفیہ ملاقات کی‘ اسی کی برطرفی کی منظوری جنرل مشرف کے دبائو میں دی‘لہٰذا جب نواز شریف کو بتایا ہوگا کہ آپ کور کمانڈر کوئٹہ سے بحیثیت چیئرمین BISP ملے ہیں تو انہیں لگا ہوگا جیسے وہ کور کمانڈر طارق پرویزکے ساتھ خفیہ ملاقات کر کے جنرل مشرف کے خلاف کوئی پروگرام بنارہے تھے تو ایسے ہی آپ کوئی منصوبہ لے کر نہ گئے ہوں؟بیگ صاحب بولے: یار RK تُو بھی بات کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔میں نے کہا :آپ نے خود تو بتایا ہے کہ آپ کی اس ملاقات کے بعد نواز شریف کے رویے میں سردمہری آنا شروع ہوئی‘ ورنہ وزیراعظم کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ یا شاید وہ توقع رکھتے ہوں گے کہ آپ کسی فوجی کمانڈر سے ان سے پوچھ کر ملتے۔ بیگ صاحب کہنے لگے: ہمارے ادارے کو مدد درکار تھی لہٰذا مل کر ان سے ریکویسٹ کی تھی۔میں نے کہا :سر جی یہاں اس طرح کی ملاقاتوں کے کچھ اور مطلب نکالے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اکثر یہ خفیہ ملاقاتیں خود آرمی افسران سے کرتے ہیں ‘ شہباز شریف تو ہر ہفتے کررہے ہوتے ہیں لہٰذا انہیں خدشہ ہوگا کہ بیگ صاحب بھی اس طرح کی ملاقاتیں نہ کررہے ہوں۔
بیگ صاحب بتانے لگے: انہیں کہا گیا ہے کہ وہ کسی اور ادارے میں (جس کا نام ارشد شریف اور میں نے سنا بھی نہیں تھا) چلیں جائیں ‘مگر میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟ ان کا پیغام بڑا واضح ہے کہ میں گھر جائوں ‘لہٰذا بہتر ہے کہ چھوڑ دوں۔میں نے کہا: بیگ صاحب آپ نئے ادارے میں چلے جائیں۔ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ اگروہ نیا ادارہ کچھ نہیں کررہا ‘جس کا نام ہم نے بھی نہیں سنا تو آپ جا کر اس ادارے کو اٹھا دیں‘ بلکہ آپ کیلئے بہترین موقع ہے اپنی صلاحتیوں کو اجاگر کرنے کا۔ اچھا ہے اس ادارے میں اسحاق ڈار کی مداخلت بھی نہیں ہوگی۔ آپ کھل کر جو کام کرنا چاہتے ہیں کرسکیں گے۔ یہی تو موقع ہے اس ادارے کو کھڑا کرنے کا۔بیگ صاحب مجھے چپ چاپ دیکھتے رہے‘لیکن میں نے کہا: بیگ صاحب آپ یہ کام کریں گے نہیں۔ وہ مسکرا کر بولے کیوں نہیں کروں گا؟میں نے کہا: کیونکہ آپ کے ذہن میں جو سیاست اور عہدوں پر کام کرنے کا تصور ہے وہ یہاں نہیں چلتا۔ آپ کے پاس بہت آئیڈیاز ہیں‘بہت تعلقات ہیں۔ آپ اس ملک کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن جو آپ کے اوپر بیٹھے ہیں ان کی ترجیحات یہ نہیں ہیں جو آپ کی ہیں۔
وہی ہوا۔ بیگ صاحب نے سب کچھ چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے بعد ان کے ٹویٹس پڑھے جو شریفوں کے خلاف تھے۔ایک دن دفتر لنچ پر ملے تو میں نے کہا: بیگ صاحب میں شریفوں کا بڑا ناقد ہوں‘ ان کے خلاف لکھتا بھی رہتا ہوں‘ بولتا بھی رہتا ہوں‘ لیکن آپ کا ان پر یہ حملے کرنا بنتا نہیں۔ جیسے بھی تھے آپ کو عزت دی‘ بڑا عہدہ دیا۔ چلیں آپ زیادہ دیر تک نہ چل سکے‘ لیکن کچھ ذاتی مروتیں رہنی چاہئیں۔ روز ہزاروں لوگ ٹویٹس کرتے ہیں ان کے خلاف لیکن آپ کے ٹویٹس اسحاق ڈار نواز شریف کو دکھا کر فخر سے کہتے ہوں گے کہ دیکھا! میں نا کہتا تھا بیگ صاحب ساڈے بندے نئیں۔ آپ خاموشی سے سائیڈ پر ہوجاتے تو شاید انہیں احساس ہوتا کہ آپ جیسے قابل اور اچھے انسان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ہر جگہ لڑنا اچھا نہیں ہوتا۔
بیگ صاحب مجھے دیر تک خاموش نظروں سے دیکھتے رہے... اور پھر اس رمضان کے آخری روزے والے دن اسلام آباد کی ایک اُداس دوپہر میں خاموشی کی طویل چادر اوڑھ کر قبر میں جا سوئے۔