اپنے کلاس فیلو کی موت کا صدمہ کتنا بڑا ہوتا ہے مجھے اس کا تجربہ 1986/87 ء میں پہلی دفعہ اس وقت ہوا جب کروڑ ہائی سکول میں میرے میٹرک کے دو کلاس فیلوز اوپر تلے انتقال کر گئے۔ موت کو میں نے پہلی دفعہ قریب سے محسوس کیا تھا۔افتخار تو میرا دوست بھی تھا اور اکثر میرے ساتھ بینچ پر بیٹھتا تھا۔ بلا کا ذہین‘ حسِ مزاح اور بہت پیاری پنجابی بولتا تھا۔ ہنستا‘مسکراتا‘ جگتیں مارتا ‘آتے جاتے میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہتا: تو فیر کلاسرے‘ کی نویں تازی اے؟ اور میری نئی تازی کا انتظار کیے بغیر وہ پنجابی میں گپیں سنانے لگ جاتا‘ لیکن کلاس کے ہمیشہ ٹاپ سٹوڈنس میں شمار ہوتا۔ ہمارے کلاس ماسٹر چوہدری غلام حسن صاحب کے گائوں سے تھا ‘لہٰذا وہ اس کا دھیان رکھتے اور دیگر طالبعلموں کی نسبت افتخار کچھ لبرٹی لے لیتا اور کبھی کبھار چوہدری غلام حسن صاحب سے ڈانٹ بھی کھا لیتا۔ بات بڑھ جاتی تو چوہدری صاحب سے ہمارے ساتھ ہاتھوں پر ڈنڈے بھی کھا تا اور بینچ پر واپس آتے وقت مجھے مذاق میں آنکھ مار کر پھر سنجیدہ منہ بنا کر میرے ساتھ بیٹھ جاتا تاکہ استاد صاحب نہ دیکھ لیں۔ جونہی چوہدری حسن صاحب کی کلاس ختم ہوتی افتخار پر وہی شرارتیں سوار ہو جاتیں۔ افتخار کے والد محکمہ تعلیم میں افسر تھے۔ ایک اچھی پنجابی فیملی کا پیارا نوجوان لڑکا۔ ایک دن خبر آئی کہ افتخار اچانک بیمار ہوگیا ہے۔ اسے ملتان لے جایا گیا۔ کچھ دن بعد ہم سب کلاس فیلوز پربم گرا کہ افتخار فوت ہوگیا ہے۔ ہم سب سُن ہوکر رہ گئے۔ ہنستے مسکراتے ہمارے دوست کو موت لے اڑی تھی۔ ہم سب کلاس فیلوز اس کے گائوں اگلے دن سوئم پر پہنچے۔ وہاں سے قبرستان اسکی قبر پر گئے۔ وہ افسردگی اور ڈپریشن آج تک نہیں بھولا۔ میری آنکھوں سے آنسو نکلے۔ تو فیر کلاسرے سنا کی نویں تازی اے... افتخار کی موت کے برسوں بعد جب میں زندگی کا طویل سفر کر کے اسلام آباد سیٹل ہو کر ٹی وی پر آنا شروع ہوگیا تھا ‘ ایک فون کال آئی ‘ دوسری طرف سے ٹھہری آواز میں کسی نے کہا :رئوف صاحب میں آپ کے کروڑ سکول میں میٹرک کے کلاس فیلو افتخار کا والد بول رہا ہوں جو فوت ہوگیا تھا۔ افتخار یاد ہے؟بھلا کیسے بھلا سکتا تھا۔ میرا ماضی اچانک میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔ کہنے لگے: مشکل سے آپ کا نمبر ملا ہے۔ بس اتنا کہنا تھا کہ جب آپ کو ٹی وی پر دیکھتا ہوں تو افتخار یاد آتا ہے۔ وہ آج ہوتا تو آپ جتنا بڑا ہوتا۔ آپ سے باتیں کرنے کو دل کرتا ہے۔ ان کی فون پر سسکیاں سُن کر میری اپنی آنکھیں بھیگ گئیں کہ ایک باپ کی اذیت کا اندازہ اب میں بہتر کرسکتا ہوں کہ اب میں خود بچوں کا باپ ہوں۔ شاید1986/87 ء میں وہ تکلیف‘ وہ دکھ درد میں نہ سمجھ پایا تھا جو اب محسوس کرسکتا ہوں۔ کتنی دیر تک میں اُن سے افتخار بن کر باتیں کرتا رہا۔ کہنے لگے: پورے گھر کو مجھے ٹی وی پر دیکھ کر اپنا افتخار یاد آجاتاہے کہ یہ ان کے بیٹے کا کلاس فیلو اور دوست ہے۔ وہ سب مجھے سننے اور دیکھنے بیٹھ جاتے۔ابھی مزید دکھ دیکھنے باقی تھے۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں کہ کروڑ شہر سے چند دوست فتح پور کروڑ روڈ پر واقع نہر پر نہانے نکل گئے۔ وہیں پانی کی لہریں ہمارے ایک اور کلاس فیلو ضیاکو نگل گئیں۔ ضیاکی موت نے بھی ایک عجیب طرح کا ڈپریشن سب پر طاری کر دیا۔ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس طرح ایک اور کلاس فیلو کھو بیٹھیں گے۔
وقت گزر گیا تھا۔ سوچا تھا موت نے ہم سے کلاس فیلوز اور دوست چھین کر اپنا کوٹہ پورا کر لیا ‘ لیکن ابھی کچھ دکھ باقی تھے۔ پچھلے ماہ کروڑ سے ہی میرے ایک اور کلاس فیلو دوست شفیق غزالی کا میسج آیا کہ تمہارے ملتان یونیورسٹی کے کلاس فیلو عمران ظفر گیلانی کا شدید ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ وہ اس وقت ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ مجھے ایک عجیب سے خوف نے گرفت میں لے لیا۔ میرے سامنے افتخار اور ضیاآن کھڑے ہوئے۔ اپنے پورے بدن میں سنسنی سی پھیلتی محسوس ہوئی۔ فورا ًآنکھیں بند کیں اور دعا مانگنے کی کوشش کی۔ تمام تر کوشش کے بعد مجھ سے دعا نہ مانگی گئی۔ مجھے پتہ چل گیا دعا قبول نہیں ہوگی۔ وہی رات یاد آئی جب میرے کزن شبیر کی نعیم بھائی کو ایمرجنسی میں لے جانے کی فون کال آئی تھی تو میں نے اُس وقت بھی دعا مانگنے کی کوشش کی تھی لیکن ہونٹ جیسے سل گئے ہوں۔ مجھے اس وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ دعا کا وقت گزر گیا ہے۔ابھی عمران ظفر گیلانی کیلئے دعا کرنے لگا تو یوں لگا جیسے وقت گزر گیا ہے۔وہی ہوا تھوڑی دیر بعد شفیق غزالی کا میسج آیا کہ عمران فوت ہوگیا ہے۔
عمران ظفر گیلانی سے ملاقات 1991ء میں ملتان یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی جب ہم کلاس فیلوز بنے۔ ہوسٹل لائف‘ کالج اور پھر یونیورسٹی کا مزہ یہ ہے کہ ہر قسم کے لوگ آپ کے دوست بنتے ہیں۔ مختلف علاقوں‘ زبانوں‘ کلچر اور روایات کے حامل لوگ جن سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ عموما ًہوسٹل میں رہنے والے لڑکوں کی روزانہ شہر سے کالج یا یونیورسٹی آنے والوں سے کم ہی بنتی تھی۔ بننے سے مراد ہے دعا سلام تو اچھی رہتی تھی بطور کلاس فیلو لیکن وہ ذاتی دوستی میں تبدیل نہ ہو پاتی جیسے ہوسٹل فیلوز ساتھ تعلقات بنتے تھے‘ شاید ہم لوگ زیادہ وقت ہوسٹل اکٹھے گزارتے تھے جبکہ شہری دوست کلاس کے بعد واپس گھروں کو لوٹ جاتے ۔
عمران ظفر گیلانی سے یونیورسٹی کلاس میں گپ شپ تو ہوتی تھی لیکن اس سے دوستی یونیورسٹی کے آخری دنوں میں جا کر ہوئی ۔ عمران کی مونچھیں مجھے پسند تھیں۔ میں خود کلین شیو کرتا تھا کیونکہ میری مونچھیں بہت پتلی تھیں۔ مجھے گہری سٹالن سٹائل مونچھیں بہت اچھی لگتی تھیں جو کسی دور میں لیفٹ کی طالبعلم پالیٹکس کا سمبل سمجھی جاتی تھیں۔ بچپن سے نعیم بھائی کی سٹالن سٹائل مونچھوں سے کھیلتے جوان ہوئے تھے۔ وہ بہاولپور میڈیکل کالج میں لیفٹ کی سٹوڈنٹس پارٹی''The Eagles‘‘ کے کئی برس چیف رہے تھے اور وہی سٹالن سٹائل کی مونچھیں رکھتے تھے۔ ان کے بعد ڈاکٹرارشد شہانی چیف بنے تو ان کی بھی وہی سٹالن سٹائل مونچھیں تھیں۔ عمران ظفر کی مونچھوں کا بھی وہ انداز تھا‘ لہٰذا میں اکثر اس کی مونچھوں کو'' وٹ‘‘ دیتا رہتا تھا۔ وہ مسکراتا رہتا‘ سرائیکی زبان میں کہتا: اوئے شودے بس کر ڈے۔ چھوڑ ڈے اناں دی جان۔اپنڑی مونچھیں رکھ گھن۔ میں کہتا: عمران اگر میری اس طرح مونچھیں ہوتیں تو کسی دوسرے کی مونچھ پر کیوں ہاتھ صاف کر رہا ہوتا؟اسلام آباد سے روانہ ہوا اور ملتان چل پڑا کہ عمران ظفر گیلانی کے قُل میں شرکت کروں۔ پاک موسیٰ دربار پہنچا۔ مجھے اندازہ تھا کہ دیگر کلاس فیلوز بھی موجود ہوں گے۔ عمران گیلانی کے بھائی نے بڑا زور لگایا کہ سٹیج پر اوپر بیٹھ جائوں۔ میں نے کہا: نہیں مجھے اپنے یونیورسٹی کلاس فیلوز کے ساتھ نیچے زمین پر بیٹھنے دیں۔بورے والا سے کلاس فیلو مقصود اور میاں شاہد آئے ہوئے تھے۔ ملتان سے خرم اور محمد اکرم تو کبیروالا سے ہمارا دوست ریاض شاہد آیا ہوا تھا۔ کروڑ سے شفیق غزالی آیا ہوا تھا‘ عمران جس کا یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن میں باس تھا۔ جب لیہ کے دورے پر آئے تو عمران گیلانی کو شفیق نے بتایا کہ وہ میرا میٹرک میں کلاس فیلو تھا تو عمران گیلانی نے اسے گلے لگا کر مجھے فون پر بتایا تھا کہ یار زندگی کیا عجیب چیز ہے‘جو لڑکا تمہارا 1985ء میں کلاس فیلو تھا وہ مجھے ملا تو لگا تم سے ملاقات ہوگئی‘ حالانکہ ہم 1991ء میں کلاس فیلو بنے تھے۔عمران اس وجہ سے شفیق کا خیال رکھتا تھا۔عمران کے نوجوان خوبصورت بیٹے کو حامد سعید کاظمی صاحب کے ہاتھوں باپ کی جگہ پگ پہنتے دیکھ کر وہی اداسی طاری ہوئی جو افتخار اور ضیاکی موت پر برسوں پہلے طاری ہوئی تھی۔
عمران گیلانی کے نوجوان بیٹے کو کچھ دیر گلے سے لگایا‘ جس کی آنکھوں میں دور دور تک پھیلی اداسی اور تنہائی مجھے مزید افسردہ کرگئی۔ دل کچھ ڈوب سا گیا کہ دل کے قبرستان میں قبروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔