انسان دھیرے دھیرے سیکھتا ہے اور بعض دفعہ تو سیکھنے میں بہت دیر کر دیتا ہے۔ ہر وہ فیصلہ یا عمل‘ جسے کبھی آپ اپنا کارنامہ سمجھ رہے ہوتے ہیں‘ ایک دن پتہ چلتا ہے وہ تو آپ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ انسانی مزاج لیکن یہ ہے کہ جب وہ کوئی فیصلے کر رہا ہوتا ہے تو اسے سب کچھ ٹھیک اور اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ اس وقت دماغ کے کسی کونے میں یہ بات نہیں ہوتی کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ اگر ذہن میں یہ بات آ بھی جائے تو بھی انسان ان خدشات کو قریب نہیں آنے دیتا۔
میں نے زرداری صاحب سے 2003ء میں‘ پرویز مشرف دور میں‘ دورانِ قید پوچھا تھا کہ آپ نے جیل سے کیا سبق سیکھا ہے؟ انہوں نے ایک ہی لفظ میں اپنے برسوں کی قید کا سبق بتا دیا۔ کہنے لگے کہ جیل سے ایک ہی سبق سیکھا ہے اور وہ ہے صبر۔ اس کے علاوہ آپ جیل میں کچھ نہیں کر سکتے۔ میں نے پوچھا کہ صبر کیسے کرتے ہیں؟ آخر آپ ایک سابق وزیراعظم کے شوہر ہیں۔ خود وزیر رہے ہیں۔ پی پی پی کے دوسرے دورِ حکومت میں آپ کا اپنا نام‘ رعب اور دبدبہ تھا۔ وہ بولے: آپ چند دن تو اس ہوا میں رہتے ہیں کہ آپ بڑی توپ چیز ہیں لیکن پھر آپ کا حال اس منہ زور گھوڑے جیسا ہوجاتا ہے جو رینچ پر کچھ عرصہ تو کسی کو قریب نہیں آنے دیتا مگر پھر ایک ماہر گھڑ سوار بالآخر اسے سدھا ہی لیتا ہے۔ وہ اسے روز رینچ میں گھنٹوں دوڑاتا رہتا ہے۔ چابک مارتا رہتا ہے اور آخرکار ایک دن وہی وحشی گھوڑا تھک ہار کر ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ اپنی ہار مان لیتا ہے اور سر جھکائے وہ سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے جس کا اس نے اس رینچ پر آنے سے پہلے سوچا تک نہیں تھا۔
یہی سب ان لیڈروں کے ساتھ ہوتا ہے جو جیل میں اُس سپاہی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو وہاں رات کی ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔ وہ اکیلا سپاہی ان کی اَنا توڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس کا دل کرے تو آپ کو سونے دے‘ دل کرے تو سونے ہی نہ دے۔ جب چاہے آپ کو گہری نیند سے اٹھا دے۔ جب چاہے لائٹ جلا دے۔ لہٰذا آپ کو اس سپاہی سے بنا کر رکھنا پڑتی ہے۔ اس کا احترام کرنا پڑتا ہے اور یہیں سے آپ کا پہلا سبق شروع ہوتا ہے کہ اب آپ نے حالات بہتر ہونے تک یہیں رہنا ہے۔ اب آپ کا سلاخوں سے سر ٹکرانے یا بڑی بڑی دھمکیاں دینے یا بڑھکیں مارنے سے کچھ نہیں بنے گا۔ اب آپ کو صبر کرنا ہے۔ جو کچھ کھانے پینے کو مل رہا ہے اس پر گزارہ کرنا ہے۔ اب اس چھوٹے سے کمرے میں دل لگانا ہے۔ یوں آپ صبر کرنا سیکھتے ہیں اور یہ صبر کا سبق پوری عمر آپ کے کام آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زراری صاحب نے گیارہ سال صبر کے ساتھ جیل کاٹنے کے بعد پانچ سال صدر کی کرسی بھی سنبھال لی۔ نواز شریف کو دیکھ لیں کیسے انہوں نے پرویز مشرف کے دور میں دس سال کی جلاوطنی قبول کر لی کہ چلیں صبر اور انتظار کرتے ہیں‘ کبھی تو اپنا وقت بھی آئے گا۔ اور وہ وقت آیا جب وہ چودہ برس بعد 2013ء میں تیسری دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کے تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے پیچھے یہ کہانی تھی کہ برے دنوں میں صبر کرنا ہے۔ صبر کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔
یوسف رضا گیلانی بھی پرویز مشرف دور میں چار پانچ سال قید رہے۔ انہوں نے بھی یہی روٹ لیا کہ صبر کرکے جیل کاٹو اور پانچ سال بعد وہی پرویز مشرف ان سے حلف لے رہا تھا جس نے انہیں قید میں رکھا تھا۔ یقینا عمران خان کیلئے جیل کا تجربہ نیا ہے۔ وہ صدمے کا شکار ہوں گے۔ ان کی پہاڑ جتنی بلند اَنا کو چوٹ لگی ہوگی۔ انہوں نے تو کبھی سوچا تک نہیں ہوگا کہ جولائی‘ اگست کی گرمیوں میں انہیں اٹک جیل میں رہنا پڑے گا۔ انہوں نے ایک ہیرو کی زندگی گزاری۔ ان کا درجہ سیاستدان اور سیاسی حکمرانوں سے آگے کا تھا۔ اس احساس نے انہیں سپر ہیومین کا درجہ دے دیا۔ اب خبریں آرہی ہیں کہ ان کو جیل میں سہولتیں نہیں دی جا رہیں۔ ان کے ساتھ برا سلوک ہورہا ہے۔ اس قسم کے رویے کی شکایت ماضی میں دیگر سیاستدان بھی کرتے رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کے حوالے سے تو کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کے آخری دنوں کی تفصیلات تو خاصی ڈسٹرب کرنے والی ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم کیساتھ ایسا برا سلوک ہوا۔ نواز شریف بھی اس برے سلوک کا شکار ہوئے۔ وہ بارہا شکایت کر چکے ہیں کہ ان کے ہاتھ جہاز کی سیٹ کیساتھ باندھ کر انہیں کراچی کا سفر کرایا گیا تھا۔ مریم نواز بھی شکایت کرتی رہی ہیں کہ جیل میں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ شہباز شریف بھی یہی گلہ کرتے رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ جیل میں بدسلوکی یا سہولتیں دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کون کرتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں جب عمران خان وزیراعظم تھے تو امریکہ میں ہجوم سے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ واپس جا کر قیدی نواز شریف کا ایئرکنڈیشنر اتروائیں گے۔ اس طرح خان صاحب یہ بھی کہتے پائے جاتے تھے کہ اگر جیل میں سب گھر والی سہولتیں ہی ملنی ہیں تو پھر یہ جیل تو نہ ہوئی۔ اگر جیل میں اتنی عیاشی ہے تو پھر ہر کوئی کہے گا کہ گھر سے جیل بہتر ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں نئے رولز بھی بنے تھے جس کے تحت جیل کی سہولتیں کم کی گئی تھیں کہ سیاستدانوں کے لیے الگ سے کوئی سہولت نہیں ہوگی۔
اب خان صاحب نے اپنے دورِ حکومت میں غلط کیا یا صحیح‘ وہ اپنی جگہ لیکن اگر انہیں جیل میں سہولتیں نہیں دی جا رہیں‘ تو یہ بھی بہت غلط ہو رہا ہے۔ میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ ایک وزیراعظم کے لیے اس سے بڑی سزا نہیں ہو سکتی کہ اسے گھر بھیج دیا جائے۔ یہ احساس ہی اسے ڈسٹرب اور نیند خراب کرنے کے لیے کافی ہے کہ اب وہ وزیراعظم نہیں رہا۔ وہ وی وی آئی پی نہیں رہا۔ اب ہٹو بچو کا زمانہ ختم ہوا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی بندے کو دنیا کے خوبصورت محل میں تمام تر سہولتیں دے کر صرف اتنا کہا جائے کہ وہ اس محل سے باہر نہیں جا سکتا تو وہ کچھ دن بعد مرجھا جائے گا۔ اگر یاد ہو کہ کورونا کے دنوں میں پندرہ دن لوگوں کو گھروں کے اندر رہنا پڑ گیا تھا تو سب کا کیا حشر ہوا تھا حالانکہ گھر پر تو ماں باپ‘ بہن بھائی اور سب سہولتیں موجود تھیں لیکن ایک پابندی تھی کہ آپ اپنی مرضی سے باہر نہیں جا سکتے۔ یہ احساس ہی کافی ہوتا ہے کہ آپ اس کمرے یا اس محل سے باہر نہیں جا سکتے۔ اکیلا بندہ بے شک ایک ماہ مزے سے محل کے اندر رہ سکتا ہے کہ اسے علم ہے اس پر کوئی پابندی نہیں۔ وہ جب چاہے آ جا سکتا ہے لیکن اگر اس محل میں اسے یہ احساس ہو کہ وہ باہر نہیں جا سکتا تو وہی محل اس کیلئے بدترین قید خانہ ہے۔
اس لیے اگر سابق وزیراعظم عمران خان کو اٹک جیل میں سہولتیں نہیں دی جارہیں تو یہ غلط ہے۔ انہیں سب سہولتیں ملنی چاہئیں۔ وقت گزر جاتا ہے۔ سیاستدان جیلوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ آج عمران خان جیل میں ہیں تو کل نواز شریف جیل میں تھے۔ نواز شریف‘ زرداری کی طرح اب تو لگتا ہے عمران خان کا بھی جیل میں آنا جانا لگا رہے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سیاستدان اور سابق وزیراعظم ایک دوسرے کو جیل سے باہر بخشتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو جیل میں ڈال کر ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ خیر اقتدار چیز ہی ایسی ہے جس کیلئے ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں انسانوں پر حکمرانی کے خواہشمند جانیں لیتے بھی آئے ہیں اور جانیں دیتے بھی آئے ہیں۔