وزیراعظم نواز شریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وفد کے دیگر افراد خاموش تھے۔ چینی کمپنی کی بریفنگ نے انہیں لاجواب کر دیا تھا۔ اب کیا کہتے‘ کیا سوال کرتے؟ میرے ذہن میں سوال ابھرا کہ وزیراعظم کو اس کمپنی سے کم از کم یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پاکستان میں بھی ایسا سسٹم متعارف کروا سکتی ہے جس سے بجلی چوری نہ ہو‘ لوگ اپنے سارے بلز ادا کریں اور وہ اتنی ہی سستی بجلی لوگوں کو فراہم کرے جیسے وہ چین میں کر رہی ہے؟ ایک ہی چینی کمپنی پورے پاکستان کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی تھی اور ہمارے ہاں درجنوں آئی پی پیز مال بٹور رہی تھیں اور ہم انہیں اس بجلی کے پیسے بھی دے رہے تھے جو استعمال نہیں ہورہی تھی۔
میں نے حسین نواز کو پہلی دفعہ اُس وفد میں دیکھا‘ جو آنے والے برسوں میں اہم دوروں میں اپنے والد کے ہمراہ ہوتے تھے۔ اس کا مقصد اس کے علاوہ کیا ہو سکتا تھا کہ وہ چینی حکام اور کمپنیوں سے راہ و رسم بڑھائیں جو بعد میں ان کے کاروبار کی ترقی کیلئے کام آسکے۔ شاید اسی لیے وزیراعظم کے جہاز میں سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی تک کو ساتھ نہیں لے جایا گیا کیونکہ شریف فیملی کے افراد ہمراہ تھے۔ ان سرکاری افسران کو دور رکھا جاتا تھا جو قابلِ اعتماد نہیں تھے۔ میں اس دورے میں گریڈ اٹھارہ یا انیس کے افسر احد چیمہ سے پہلی دفعہ ملا تھا۔ شہباز شریف اور نواز شریف انہیں بڑا پروٹوکول دے رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ان کے منصوبوں میں احد چیمہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے‘ بلکہ نواز شریف نے کہا تھا کہ انہیں Go getter افسران درکار ہیں جو انہیں قانون نہ سمجھائیں بلکہ کام کرکے دکھائیں ‘اور احد چیمہ ایسے ہی افسر تھے جو بعد میں شریفوں کا ہر کام بغیر سوال پوچھے کرنے کے چکر میں نیب کی حراست میں بھی گئے۔
چینی حکام بتا رہے تھے کہ اگر آپ نے لائن لاسز کم کرنے ہیں تو اپنا ٹرانسمیشن سسٹم درست کریں‘ کیونکہ بہت سی بجلی ہمارے بوگس ترسیلی سسٹم میں ضائع ہو رہی تھی۔ بجلی چوری اور بل نہ دینا بھی اپنی جگہ اہم عناصر ہیں لیکن ہمارا ٹرانسمیشن سسٹم بہت پرانا ہو چکا ہے جو لائن لاسز کا سبب بنتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس موضوع پر چینیوں اور واٹر اینڈ پاور کے وزیر خواجہ آصف کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے تھے۔ چین ٹرانسمیشن لائنز بدلنے میں مالی اور ٹیکنیکل مدد دینے کو تیار تھا۔ بات چیت کچھ آگے بڑھی لیکن پھر کچھ عرصہ بعد یہ منصوبہ غائب ہو گیا اور نواز شریف دور کے اگلے پانچ برسوں میں کبھی ٹرانسمیشن سسٹم کو اَپ گریڈ کرنے کی بات نہیں سنی۔ یوں لائن لاسز کو ہم کنٹرول نہ کرسکے اور ان یونٹس کا بل جو اس پورے سسٹم میں ضائع ہورہے ہیں وہ آج بھی سب لوگوں کے بلوں میں شامل کر کے وصول کیے جاتے ہیں۔ اگر ٹرانسمیشن لائنز منصوبے پر دس سال پہلے کام شروع ہوجاتا تو اس سے بڑی بچت ہو سکتی تھی۔ اس کے بعد کنڈا اور بجلی چوری یا بلوں کی عدم ادائیگی کا ایشو بھی ایڈریس ہوسکتا تھا‘ لیکن ہم ایسے نالائق ہیں کہ ان ایشوز میں سے کسی ایک پر بھی قابو نہیں پا سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بڑے بڑے صنعت کار اور تاجر بھی ہیں۔ اکثر بڑے بڑے لوگوں کی فیکٹریز چوری کی بجلی اور گیس سے چلتی ہیں‘ لہٰذا جو لوگ خود بجلی چوری میں ملوث ہوں وہ فطری طور پر ایسے جدید اقدامات سے لاپروا ہوتے ہیں۔اور ہمارے حکمرانوں نے پرانے مسائل حل کرنے کی بجائے نئی ڈیلیں مار کران میں اپنے کمیشن کھرے کیے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کوئلے کے پلانٹس ساہیوال میں لگائیں اور ڈالروں میں کوئلہ امپورٹ کریں۔ نواز شریف دور میں دھڑا دھڑا انرجی کے منصوبے شروع کیے گئے اور بعض ایسے پلانٹس بھی لگے بلکہ سولر منصوبے جن کا ریٹ عالمی مارکیٹ سے کئی گنا زیادہ تھا۔ دبئی میں جن ریٹس پر سولر پلانٹس لگے پاکستان میں ان کا ریٹ ڈبل لگایا گیا۔ جب حکمران اپنی ہی حکومت کے ساتھ خود کاروبار شروع کردیں تو وہ اپنا گھاٹا یا نقصان کریں گے؟شہباز شریف نے ان دنوں چینی اور ترک کمپنیوں ساتھ سب معاملات اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھے۔ تھے تو وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ لیکن اسلام آباد کی وزارت پانی و بجلی کے کنٹریکٹس وہ کلیئر کرتے تھے۔ خواجہ آصف اگرچہ تگڑے وزیر سمجھے جاتے تھے لیکن شہباز شریف کے آگے ان کی بھی نہیں چلتی تھی۔ اُن دنوں اسلام آباد میں مشہور تھا کہ وزیر پانی و بجلی تو خواجہ آصف ہیں لیکن ان کی وزارت ایک باپ اوربیٹا چلاتے ہیں۔ خواجہ آصف اس لیے بھی شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کے آگے بے بس تھے کیونکہ خواجہ صاحب کو علم تھا کہ سیالکوٹ میں اگر اپنی مرضی کی ضلعی انتظامیہ تعینات کرانی ہے توشہباز شریف کی ناراضی مول نہیں لینی چاہیے اور نہ ہی حمزہ شہباز کی جو اُن دنوں ضلعی بیوروکریسی کے آرڈرز ہونے سے پہلے ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کا انٹرویو کرتے تھے۔ لیکن نواز لیگ میں چند ایسے لیڈرز تھے جن کے پسندیدہ افسران کو حمزہ شہباز یا شہباز شریف کے سامنے پیش نہیں ہونا پڑتاتھا‘ان میں چوہدری نثار علی خان اور خواجہ آصف شامل تھے۔کچھ بھی ہو شہباز شریف وزیراعظم نواز شریف کا لاڈلا بھائی تھا۔حمزہ اور سلیمان شہباز بھتیجے تھے۔ سلمان بارے تو مشہور تھا کہ وہ اپنے تایا وزیراعظم نواز شریف کا بہت ہی لاڈلا ہے۔ جو بات منوانی ہوتی تھی سلیمان شہباز اپنے تایا سے منوا لیتا۔ خواجہ آصف صورتحال سے آگاہ تھے اور انہیں چوہدری نثار علی خان کی طرح سیاسی شہید ہونے کا بھی شوق نہیں تھا‘ لہٰذا انہوں نے باپ بیٹے کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا اور خود سائیڈ پر رہے اور قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات میں کبھی کبھار دل کرتا تو جواب دینے پہنچ جاتے تھے۔
انہی دنوں بڑے عرصے بعد نواز شریف نے کابینہ اجلاس بلایا۔ نواز شریف وزیراعظم بننے کیلئے بے چین تو ہر دفعہ بہت ہوتے ہیں اور نیا انقلاب لانے کی باتیں بڑی سنجیدگی سے کرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ وہ اس وقت جاتے ہیں جب وزیراعظم کا ووٹ لینا ہو۔ اس کے بعد بھول کر بھی پارلیمنٹ کا رخ نہیں کرتے۔ 2013ء میں جب وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بنے تو اس کے بعد آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ نہیں گئے۔ ایک سال وہ سینیٹ اجلاس میں نہیں گئے اور چھ ماہ تک کابینہ اجلاس نہیں بلایا۔ سینیٹ میں تو رضا ربانی صاحب نے آخر ایک بل متعارف کرایا جس میں وزیراعظم کو قانونی طور پر پابند کیا گیا تھاکہ وہ کچھ ماہ بعد سینیٹ تشریف لایا کریں گے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد نواز شریف صرف ایک دفعہ سینیٹ گئے اور جاتے ہی معذرت کرنے کے بجائے سینیٹرز پر جگت لگائی اور قہقہہ لگا کر کہا :سنا ہے آپ لوگ مجھے بہت مس کررہے تھے۔اس کے بعد پھر لمبے عرصے تک سینیٹ نہیں گئے ‘بلکہ برطرفی تک نہیں گئے۔اس دوران انہوں نے دنیا کے سوا سو ملکوں کا دورہ کیا اور چار سو دن تک پاکستان سے باہر رہے‘ دوسرے لفظوں میں ساڑھے تین‘ چار سال کے عرصے میں وہ ایک سال پینتیس دن تک ملک میں نہیں رہے‘ باہر کے سیر سپاٹے کرتے رہے جس میں لندن کے بائیس دورے بھی شامل تھے جہاں ان کے بچے اور فیملی رہتی تھی۔
خیر اب بڑے عرصے بعد کابینہ کا اجلاس ہورہا تھا۔ بجلی کا ایشو وہاں زیربحث تھا۔ خواجہ آصف پانی و بجلی کے وزیر تھے لہٰذا سب کی نظریں ان پر مرکوز تھیں۔ جب وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنا رُخ خواجہ آصف کی طرف کیا تو خواجہ آصف جیسا بندہ کب تک خاموش رہتا۔ خواجہ صاحب نے گفتگو شروع کی تو کابینہ اجلاس میں پن ڈراپ خاموشی تھی جو یقینا ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ جو خواجہ آصف کو جانتے تھے انہیں علم تھا کہ اب فائر ورک ہی ہوگا اور وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔خواجہ آصف کی سخت باتیں سن کر وزیراعظم نواز شریف نے وہ جواب دیا جسکی خواجہ آصف کو توقع نہ تھی۔ خواجہ بھی نواز شریف کے اس غیرمتوقع جواب پر ہکا بکا رہ گئے۔ (جاری )