لاہور ہائی کورٹ نے بیوروکریسی کے سموگ ایشو کو سیریس نہ لینے پر جو کمنٹس دیے ہیں‘ کیا آپ کو ان پر کوئی حیرانی ہے؟ رپورٹ کے مطابق جج صاحب نے چند اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان اور لاہور کے کمشنر صاحب بہادر بارے جو ریمارکس دیے وہ کسی بھی افسر کیلئے پریشان کن ہونے چاہئیں‘ لیکن کیا ان افسران کو کوئی فرق پڑے گا؟ مجھ سے پوچھیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ دور گیا جب کسی افسر کے بارے کوئی خبر چھپتی تھی تو وہ کئی دن تک اپنے بیچ میٹس یا کولیگز سے چھپتا پھرتا تھا کہ انہیں کیا وضاحتیں دے گا۔ کچھ برس پہلے تک‘ مجھے یاد ہے‘ اگر کوئی خبر اخبار میں چھپتی تو کس حد تک کھلبلی مچ جاتی تھی۔ افسران اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کرتے تھے۔ اخباری رپورٹر سے رابطہ کر کے مصنوعی غصہ کر کے آخر منت ترلوں پر اپنی وضاحت چھپوانے کی کوشش کی جاتی تھی‘ لیکن ایک چیز میں نے ان برسوں میں نوٹ کی ہے کہ ٹی وی چینلز آنے کے بعد لوگ دھیرے دھیرے کرپشن اور نالائقی کو روٹین سمجھ کر ڈیل کرتے ہیں۔ شروع شروع میں جب ٹی وی پر خبر چلتی تھی تو کچھ دن زلزلہ محسوس ہوتا تھا‘ لیکن جوں جوں ٹی وی چینل زیادہ ہوتے گئے اس کے ساتھ ہی خبروں کی تعداد بڑھتی گئی‘ سکینڈلز سامنے آنا شروع ہو گئے۔ ان سکینڈلز کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ پھر کسی کو سکینڈل سکینڈل ہی نہیں لگا۔ میرا ذاتی طور پر خیال ہے کہ پرویز مشرف سے پہلے اخبار میں لگنے والی خبر پر اثر ہوتا تھا‘ وزیر ڈرتے تھے‘ حکومتیں ڈرتی تھیں‘ لیکن مشرف نے نیب بنا کر سیاستدانوں اور افسران کو ایک نیا موقع فراہم کیا کہ اگر ایک ارب روپے کی کرپشن میں پکڑے گئے تو چند کروڑ روپے دے کر گھر جائیں اور کوشش کریں کہ اگلی دفعہ پکڑے نہ جائیں۔ یوں پلی بارگین کلچر نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ اس لوٹ مار کو قانونی شکل دی گئی‘ لہٰذا جب کسی کو سزا ہی نہ ملی‘ نہ اس کی جائیداد ضبط کی گئی تو عوام اور میڈیا کو یہی میسج گیا کہ یہ سب کچھ قانونی اور جائز تھا۔ یوں ملزمان کلین چٹ لے کر بری ہوتے گئے اور معاشرہ دھیرے دھیرے اس حقیقت کو تسلیم کرتا گیا کہ کرپٹ اور کرپشن ہمارے لیے ضروری ہیں۔ رہی سہی کسر مشرف نے اُس وقت پوری کر دی جب انہوں نے نیب کے تمام سیاستدان ملزمان کو اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ باقی چھوڑیں‘ آفتاب شیر پائو پاکستان سے فرار ہوگئے تھے۔ اُن پر نیب کا مقدمہ تھا۔ نیب کو براڈ شیٹ کمپنی نے نیوجرسی میں ان کا ایک بینک اکاؤنٹ ڈھونڈ کر دیا تھا جس میں اُن کے پاکستان سے لائے گئے ڈالرز رکھے تھے۔ براڈشیٹ کمپنی نے کئی خط نیب کو لکھے کہ ہمیں لکھ کر بھجیں تاکہ آفتاب شیرپائو کا اکاؤنٹ فریز کرا کے اس میں موجود لاکھوں ڈالرز پاکستان کو واپس بھجوائیں۔ نیب نے نہیں بھیجا۔ آفتاب شیر پائو وہ پیسہ وہاں سے نکال کر لے گئے۔ کچھ عرصہ بعد شیرپائو کے ایک عزیز رشتہ دار جو فیڈرل سیکرٹری اور جنرل مشرف کے قریب تھے‘ انہیں ڈیل دلوا کر واپس لائے اور نہ صرف انہیں ایم این اے بنوایا بلکہ ایک دن نیب کا ملزم‘ جس کے ورانٹ جاری تھے اور مفرور تھا وہ اس ملک کا وزیرداخلہ بنا دیا گیا۔ اب اندازہ کریں جس وزارتِ داخلہ اور ایف آئی اے نے شیر پائو کے وارنٹ جاری کیے تھے اب شیرپائو اُن سب کا باس بن چکا تھا۔ جنہوں نے ہتھکڑیاں لگانی تھیں وہ اب انہیں سلوٹ کر رہے تھے۔ اسی طرح بینظیر بھٹو ‘زرداری اور ایم کیو ایم کو این آر او پرویز مشرف نے دیا جس سے زرداری کی ساٹھ ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ اور دیگر کیسز ڈراپ کر دیے گئے اور ایم کیو ایم کے کراچی میں پکڑے گئے ہزاروں ملزمان بھی چھوٹے۔ بدنامی بینظیر بھٹو کے گلے پڑی کہ مشرف سے این آر او لیا‘ فائدہ زرداری اور ایم کیو ایم نے اٹھایا۔
یہ صرف ایک دو پارٹیوں یا لیڈروں کی بات نہیں‘ سب پارٹیوں کیساتھ یہی کچھ ہوا۔ سب کو مشرف کلین چٹ دیتے گئے۔ تاہم جنہوں نے یہ ڈیل لینے سے انکار کیا وہ یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی کی طرح جیلوں میں پڑے رہے اور پارٹیوں سے وفاداری نبھائی۔ نواز شریف خود ڈیل کر کے جدہ نکل گئے لیکن اپنے ساتھیوں کا کبھی نہ سوچا‘ جنہیں پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ الٹا ان پر ناراض رہے کہ وہ مشرف سے مل گئے تھے۔ خود مشرف کیساتھ ڈیل کر لی‘ لیکن دوسروں پر اعتراض تھا کہ وہ کیوں مشرف کیساتھ مل گئے۔ جیلوں میں پڑے رہتے۔ چلیں جاوید ہاشمی‘ جو جیل میں پڑا رہا‘ اُس کو کیا انعام دیا ؟ ہاشمی صاحب کو پارٹی کے اندر نوجوان رشتہ داروں کے ہاتھوں ذلیل کرایا تاکہ پارٹی چھوڑ جائیں۔ شاید نواز شریف سامنا نہ کر پاتے ہوں کہ انہوں نے مشرف سے ڈیل کر لی لیکن ہاشمی ڈٹا رہا۔
معذرت کیساتھ‘ خود جاوید ہاشمی صاحب کو بھی جلدی تھی۔ وہ مشرف کی جیل بہادری اور صبر سے کاٹ گئے لیکن نواز شریف کی پاکستان واپسی پر تین سال بھی انتظار نہ کرسکے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جاوید ہاشمی بہت جلدی میں تھے اور تحریک انصاف جوائن کرنے کا غلط فیصلہ کیا۔ میں نے اُس وقت بھی لکھا تھا کہ پہلے تو نواز شریف کی پارٹی نہ چھوڑتے‘ چھوڑتے تو سیاست ہی چھوڑ دیتے۔ مجھے اسلام آباد کلب میں ملے تو ان کیساتھ عثمان ڈار اور ہمارے دوست توفیق بٹ بھی تھے۔ جاوید ہاشمی میرا کالم پڑھ چکے تھے۔ کہنے لگے: نواز شریف نے مجھے منانے کیلئے کلثوم نواز کو بھیجا تھا۔ اُن کے ساتھ سعد رفیق تھے۔ نواز شریف کو خود آنا چاہئے تھا پھر میں مانتا۔ میں نے کہا: سر جی جس نے اپنے بچوں کی ماں کو بھیج دیا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی تھی۔ کلثوم نواز کا آنا نواز شریف کے آنے سے بڑی بات تھی‘ لیکن جاوید ہاشمی کا اپنا انداز اور سٹائل ہے۔ پھر جب وہ دوبارہ نواز لیگ میں گئے تو دیر ہو چکی تھی۔
بات کہاں سے چلی اور کہاں نکل گئی۔اب سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹ انہیں کسی خبر یا عدالت کے ریمارکس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت سب شہروں کے بلدیاتی ادارے ڈی ایم جی افسران کے پاس ہیں۔ آپ کسی شہر میں چلے جائیں وہاں گندگی کی حالت دیکھ لیں۔ ان سب افسران نے بڑی بڑی گاڑیاں لے لی ہیں۔ دفتری ملازم گھر پر رکھ لیے۔ میں اکثر پنڈی شہر جاتا ہوں ‘وہاں ہر طرف پھیلی گندگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری بیوروکریسی اور افسران نے کیسے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اب سروس کو ایک Privilege سمجھتے ہیں‘ عوامی خدمت نہیں۔ وہ اب لوٹ مار اور نالائقی کو اپنا حق سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اُن کے نزدیک سروس کا مطلب عام لوگوں کی زندگیاں بہتر کرنا نہیں بلکہ اپنی حالتِ زار بدلنا ہے۔ اس لیے اب آپ دیکھیں کہ ہمارے بیوروکریٹس نے بیرونِ ملک شہریت لے رکھی ہے۔ کماتے یہاں ہیں‘ خرچ باہر کرتے ہیں۔ بچے تک سیٹل کر دیے ہیں۔ اگرچہ سب افسران ایسے نہیں‘ اچھے بھی ہیں لیکن ان اچھے لوگوں کا کام باقی بیوروکریٹس کی نالائقیوں میں چھپ گیا ہے۔ سموگ کے معاملے پر جس نالائقی کا مظاہرہ کیا گیا اس پر آپ حیران ہوتے ہیں تو ہوں‘ میں نہیں۔ کوئی ایک آدھ ڈپٹی کمشنر ‘ کمشنر یا دوسرے افسران ڈیوٹی کو ایمان کاحصہ سمجھتے ہیں یا تنخواہ حلال کرتے ہیں؟ ان کی ترجیح اچھی جگہ ٹرانسفر اور پروموشن ہے۔ عوامی خدمت ان کے دماغ میں اگر کبھی تھی بھی تو کب کی غائب ہو چکی۔
ہو سکتا ہے میری باتوں میں کچھ تعصب جھلک رہا ہو لیکن کیا کریں پچھلے دنوں ایک بڑے بیوروکریٹ‘ جو گریڈ 22سے ریٹائر ہوئے‘ مجھے کہنے لگے: وہ جو کبھی کلاس تھی جو کام کرتی تھی‘ جو کلاس کے افسران تھے‘جو انکا calibre تھا‘ وہ کب کا ختم ہوچکا۔ اب کوئی افسر کام کرنے کو تیار نہیں۔اگر یہ افسران کام کرتے تو برسوں سے سموگ ہر سال خطرناک نہ ہورہی ہوتی اور عدالت میں ان افسران کو گھر بھیجنے کی باتیں نہ ہورہی ہوتیں۔ لگتا ہے ان سرکاری بابوز نے ہماری سرائیکی کی مثال سُن رکھی ہے...کم جوان دی موت اے۔