سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (ن) لیگ تقریباً چھوڑ چکے ہیں۔ ان کا نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم بننا کسی معجزے سے کم نہ تھا کیونکہ شریف خاندان اپنے سے باہر کسی کو کوئی بڑا عہدہ دینے کو کبھی تیار نہیں ہوتا۔ نواز شریف کی نااہلی کے وقت پہلے سوچا گیا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے لیکن پھر خیال آیا کہ پنجاب تو سونے کی کان ہے‘وہاں سینکڑوں پراجیکٹس چل رہے تھے جن پر اربوں خرچ ہورہے تھے اور اتنا بڑا پیسہ کسی اور کے ہاتھ میں دینے کا خطرہ کون مول لے؟ اسحاق ڈار بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے کیونکہ وہ سینیٹر تھے ورنہ اپنا رشتہ دار ہی وزیراعظم بنتا۔یوں قرعہ شاہد خاقان عباسی کے نام نکلا‘ اگرچہ اس وقت کچھ اور نام بھی چل رہے تھے جن میں احسن اقبال‘ خواجہ آصف اور ایاز صادق شامل تھے۔
اب شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم تو تھے لیکن پاورز اُن کے پاس نہیں تھیں۔ 2022ء میں وہ نواز شریف سے اُس وقت ناراض ہوگئے تھے جب ان کے قریبی دوست مفتاح اسماعیل کو اسحاق ڈار نے وزارتِ خزانہ سے ہٹوایا۔ اگرچہ شاہد خاقان عباسی عمران خان کو ہٹا نے کے خلاف تھے اور اب اُن کی رائے ٹھیک لگتی ہے کہ (ن) لیگ اس فیصلے سے نہیں سنبھل سکی اور پنجاب میں اپنا ووٹ بینک بڑی حد تک گنوا بیٹھی ہے۔ تاہم شاہد خاقان عباسی اس فرمائش پر راضی ہوگئے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہی بنے گا۔ مفتاح اور عباسی کی پرانی دوستی ہے اور دونوں نے مل کر بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے ہیں جس وجہ سے دونوں نیب کی جیل بھی بھگت چکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم کے عہدے سے زیادہ اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی پسند رہی ہے۔ وہ نجی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ اگر انہیں دوبارہ کوئی عہدہ قبول کرنا ہوا تو وہ اس کمیٹی کے چیئرمین لگیں گے۔ اس کمیٹی کا چیئرمین وزیرخزانہ ہوتا ہے اور اس کمیٹی میں اربوں روپے کے فیصلے اور لمبے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ اسحاق ڈار جب وزیر خزانہ تھے اور شاہد خاقان عباسی پٹرولیم اور گیس کے وزیر تھے تو شاہد خاقان عباسی کی بہت سی سمریاں اسحاق ڈار اس کمیٹی میں روک لیتے یا منظوری نہ دیتے یا وہ فیصلے نہ کرتے جو شاہد خاقان ان سے کرانا چاہتے تھے۔ اسلئے شاہد خاقان عباسی اور اسحاق ڈار کے تعلقات کبھی آئیڈیل نہیں رہے۔ اسلئے شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف سے مفتاح اسماعیل کو وزیر لگوایا اور وہ خود بھی سپیشل انتظامات کے تحت اس کمیٹی میں کبھی کبھار شریک ہوتے اور دونوں پرانے دوست خوب کارنامے سر انجام دیتے تھے۔ ڈار لندن بیٹھ کر سب کچھ دیکھ رہے تھے اور انہوں نے آخر مفتاح کو ہٹوادیا جس پر شاہد خاقان عباسی ناراض ہوئے اور بات مریم نواز پر اعتراض سے ہوتی ہوئی پارٹی چھوڑنے تک پہنچ گئی۔اب کی دفعہ شاہد خاقان عباسی الیکشن لڑنے سے دستبردار ہوگئے اور آج کل کھل کر تقریریں کرتے ہیں اور اپنی ناراضی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا عہدہ نہیں ایک ملازمت تھی جس میں انکے پاس اختیارات نہ تھے۔ دوسری طرف بتایا جاتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود دوبارہ وزیراعظم بننے کے امیدوار تھے جبکہ نواز شریف خود چوتھی دفعہ کا کھیل کھیل رہے تھے۔مقتدرہ بھی چاہتی تھی کہ شاہد خاقان عباسی کو دوبارہ وزیر اعظم بنایا جائے کیونکہ ان کی صلاحیت نواز شریف اور شہباز شریف سے زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کا بیک گراونڈ زیادہ بہتر ہے بلکہ کچھ افسران نے شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ کے دنوں کی میرے سامنے کارکردگی کی تعریف کی تھی کہ جلدی اور بہتر فیصلے کرتے تھے‘ لیکن وہی بات کہ شریف خاندان دوبارہ یہ عہدہ کسی اور کو نہیں دینا چاہ رہا تھا خصوصاً اگر مقتدرہ بھی اس بندے پرہاتھ رکھنا چاہتی ہو۔ یوں شاہد خاقان عباسی کے نام پر شریف خاندان نے کانٹا لگا دیا۔اگرچہ میں شاہد خاقان عباسی صاحب کا کچھ اور معاملات کی وجہ سے ناقد ہوں لیکن جب مقابلہ نواز شریف‘ شہباز شریف اور شاہد خاقان میں ملک چلانے کی صلاحیت کا ہو تو شاہد خاقان عباسی بہتر چوائس ہوسکتے تھے۔ لیکن کیا کریں شاہد خاقان عباسی صاحب بھی شریفوں کے زیادہ دیر تک شکر گزار نہ رہ سکے جیسے یوسف رضاگیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنے پارٹی لیڈر آصف زرداری کے رہے ہیں۔ شریف خاندان جیسا بھی ہے‘انہوں نے ایک دفعہ تو شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا۔ وہ عہدہ جس کا خواب ہر سیاستدان دیکھتا ہے۔ اس کے بعد ان سے لڑائی زیب نہیں دیتی تھی۔ کوئی اعتراض تھا تو چپکے سے الگ ہوجاتے اور چپ رہتے۔اب عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ تو بس ملازمت تھی جس میں ان کے پاس پاورز نہ تھیں۔ وہ شاید نواز شریف اور مریم کی طرف اشارہ کررہے ہیں کیونکہ مریم نواز وزیراعظم ہاؤس میں رہتیں اور حکومت چلاتی تھیں جبکہ شاہد خاقان عباسی ایف ایٹ سیکٹر گھر میں۔ پھرجنرل باجوہ اور جنرل فیض کا کردار بھی تھا‘ اگرچہ ان کے بیٹے کی شادی ہوئی تو دولہا دلہن کا فوٹو شوٹ وزیراعظم ہاؤس میں ہوا جس کی تصویریں سامنے آنے پر بڑا شور بھی مچا۔
ویسے کوئی وزیراعظم کمزور نہیں ہوتا۔ وہی بات کہ بندوق سے زیادہ اہمیت اس بندے کی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہے کہ وہ اسکا استعمال کیسے کرتا ہے۔ اگر اب شاہد خاقان عباسی اس کا استعمال نہیں کرسکے یا کرنے کا حوصلہ نہیں تھا تو پھر عہدے کو ملازمت کہہ کر اپنی اور وزیراعظم کے عہدے کی انسلٹ تو نہ کریں۔ ورنہ محمد خان جونیجو کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جب وہ وزیراعظم بنے تو شاید ہی کوئی انہیں جانتا ہو۔مگر سیاسی طور پر کمزور وزیراعظم ایسا طاقتور بنا کہ جرنیلوں کو بی ایم ڈبلیو سے سوزوکی گاڑی پر لے آیا۔ جنرل ضیااور جنرل اختر عبدالرحمن تک کو ٹکر گیا۔ جو عہدہ شاہد خاقان عباسی کیلئے کمزور ملازمت تھی وہ محمد خان جونیجو کیلئے ایک عہدہ اور طاقت تھی۔جہاں تک ملازمت کی بات ہے تو شاہد خاقان عباسی نے اس ''ملازمت ‘‘ کے دوران جو فائدے اٹھائے وہ ذرا پڑھ لیں کہ توشہ خانے میں سے وہ کیا کچھ لے کر گئے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی اہلیہ کو 10 کروڑ روپے مالیت کے سیٹ( نیکلس‘ ٹاپس‘انگوٹھی اور بریسلٹ) کا تحفہ ملا تھا جسے وہ ساتھ لے گئے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ڈھائی کروڑ روپے مالیت کی رولیکس گھڑی ‘ دو لاکھ کے کف لنکس‘ڈیڑھ لاکھ کا پین‘سوا لاکھ کی گھڑی اور ساڑھے نو لاکھ روپے کی تسبیح بھی لے گئے۔دو کروڑ 30لاکھ روپے مالیت کی گھڑی‘کف لنکس‘ پین‘ انگوٹھی اور تسبیح شاہد خاقان عباسی ساتھ لے گئے تھے۔ایک دفعہ پھر انہیں ڈیڑھ کروڑ روپے کی گھڑی ‘ 12 لاکھ کے کف لنکس‘15 لاکھ روپے مالیت کا پین‘30 لاکھ روپے مالیت کی انگوٹھی اورساڑھے 18 لاکھ روپے کی تسبیح کا تحفہ ملا‘ جسے وہ ساتھ لے گئے۔ وہ تحفے میں ملنے والا نو لاکھ روپے کا ٹیبل کلاک بھی ساتھ لے گئے۔ شاہد خاقان تین لاکھ روپے مالیت کا پستول اور ڈھائی لاکھ روپے کا ایک کارپٹ بھی ساتھ لے گئے۔ شاہد خاقان عباسی کے بیٹے نادر خاقان عباسی کو ایک کروڑ 70 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی کا تحفہ ملا جسے وہ ساتھ لے گئے۔ شاہد خاقان عباسی کے بیٹے عبداللہ خاقان عباسی کو 55 لاکھ روپے کی گھڑی کا تحفہ ملا جسے وہ ساتھ لے گئے‘حیدر خاقان عباسی کو 80 لاکھ مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی جسے وہ ساتھ لے گئے‘نادر خاقان عباسی کو 45 لاکھ روپے مالیت کی گھڑی تحفے میں ملی جسے وہ ساتھ لے گئے ‘ جس کی بقول اُن کے قانون اجازت دیتا تھا۔ اُس وقت یہ ملازمت معمولی نہ لگی۔
وزیراعظم کے عہدے پر بیٹھ کر بقول اُن کے یہ وہ معمولی ''ملازمت‘‘ تھی جس پر آج شاہد خاقان عباسی صاحب ناخوش ہیں اور ہر جگہ اس'' ملازمت‘‘ کا گلہ کرتے پائے جاتے ہیں۔