ورجینیا ‘امریکہ سے ناصر محمود کا فون تھا۔ وہ کسی دور میں لاہور میں ہمارے صحافی کولیگ رہے ہیں‘ اب امریکہ میں سیٹل ہیں اور اپنا بزنس کرتے ہیں۔ صحافت چھوٹ گئی لیکن ان کے اندر کا صحافی ابھی موجود ہے۔ وہ ان چند پاکستانیوں میں سے ہیں جو امریکہ میں رہ کر سمجھتے ہیں کہ انہیں پاکستانی سیاست اور سیاسی پارٹیوں کو اپنے سر پر سوار نہیں کرنا چاہیے‘ جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کی سیاست اور معاشرے میں دلچسپی لیں۔ خیر یہ الگ بحث ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی سیاست میں کتنا حصہ لینا چاہئے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ امریکہ ہو یا لندن ‘بھارتی ہمارے مقابلے میں سیاسی طور پر زیادہ کامیاب ہیں۔ امریکہ میں بھارتی نژاد خاتون نائب صدر بن گئی تو برطانیہ میں ایک بھارتی نژاد وزیراعظم بن گیا اور ہمارے پاکستانی امریکن سینیٹر یا کانگریس مین کو گھر بلا کر دس بیس ہزار ڈالرز کاعطیہ دے کر چند تصویریں فیس بک پر لگا کر خوش ہو لیتے ہیں۔ خود کوشش نہیں کرتے کہ سینیٹر بنیں یا کانگریس میں جائیں۔ خیر اوورسیز پاکستانیوں کا اپنا نقطہ نظر ہے کہ پاکستان ان کا ملک ہے‘ وہ کہیں بھی رہیں ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور جب وہ پاکستان کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے کہ حکمرانوں نے اس کا کیا حشر کر دیا ہے۔ خیر ناصر صاحب نے میرا پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ وی لاگ دیکھا تو اس پر تبصرہ کررہے تھے۔ اس وی لاگ میں سابق سینیٹر طارق چوہدری کا ذکر تھا۔ طارق چوہدری فیصل آباد میں رہتے ہیں۔ ایک بہترین انسان‘ گفتگو کرنے پر پورا ملکہ حاصل ہے۔ ناصر محمود کہنے لگے کہ ایک دور تھا طارق چوہدری جیسے سیاستدان تھے جنہیں سنتے ہوئے مزہ آتا تھا‘ اب کی نسل کو سنیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو کیا ہوگیا ہے۔ ہر کوئی ڈریگن کی طرح منہ سے آگ کے شعلے نکال رہا ہے۔ خاصی دیر تک طارق چوہدری اور ان کے سیاسی ادوار کی بات ہوتی رہی کہ وہ سیاسی نسل تیزی سے معدوم ہوگئی ۔ لوگ بھی ایسے نفیس انسانوں کو ووٹ دینے کو تیار نہیں۔ اب سیاست اور سیاستدان بدل چکے ہیں۔ اب تو سیاست اور سیاستدانوں کا ایک ہی اصول ہے کہ روز کسی کو سرعام بے عزت کر لو یا کسی سے بے عزت ہو لو۔ اس سے کم پر پبلک آپ کو لیڈر نہیں مانے گی۔ اب اس حال میں بھلا کوئی شریف النفس بندہ کہاں سیاست میں فٹ ہوتا ہے۔ پروفیسر غنی جاوید کہتے ہیں کہ ان کی نوے سالہ زندگی میں طارق چوہدری پہلے اور شاید آخری انسان ہیں جنہوں نے اپنے معدے کو شکست دی ہے۔ وہ اکثر روزے کی حالت میں رہتے ہیں اور اتنا کم کھاتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔
دوسری طرف ایک اور دوست کا میسج تھا۔ وہ عمران خان کے سائفر کیس اور توشہ خان کیس میں بیوروکریسی کے رول پر خفا تھے۔ کہنے لگے‘ بیوروکریسی بھی اب عینک والا جن بن چکی ہے جو صرف کھاتی پیتی اور عیاشی کرتی ہے‘ کام ٹکے کا نہیں۔ انہیں مراعات اور سہولتوں کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خان کو ان افسران نے سائفر میں مروا دیا۔میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ نے سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ پڑھا ہے؟ کہنے لگے: نہیں پڑھا لیکن جو کچھ رپورٹ ہوا وہ سنا اور دیکھا ہے۔ اس سے لگ رہا ہے افسران نے اپنا کام پورا نہیں کیا۔ میں نے کہا :آپ اگر ججمنٹ پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے بیوروکریٹس نے اپنے تئیں خان کو پورا پورا بچانے کی کوشش کی لیکن خان اس وقت کسی اور دنیا میں رہ رہے تھے۔ اس ججمنٹ سے لگتا ہے کہ خان اس وقت شاہ محمود قریشی کے ساتھ مل کر امریکہ سے ٹکر لے کر اپنی حکومت بچانے کا سوچ رہے تھے۔ جو بات ان کے قریبی افسران سمجھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے وہ سب باتیں خان کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔ وہ اس وقت کسی کی بات سننے کے موڈ میں نہیں تھے۔اُس وقت کے فارن سیکرٹری سہیل محمود انہیں بار بار منع کررہے تھے کہ سائفر کو سیاسی ایشو نہ بنائیں۔ اس معاملے کوفارن آفس کو ہینڈل کرنے دیں۔ آپ وزیراعظم ہیں آپ خاموش رہیں ورنہ پاکستان کو نقصان ہوگا‘لیکن وزیراعظم ذہن بنا چکے تھے کہ وہ اس معاملے میں کسی کی نہیں سنیں گے۔ انہیں کابینہ سیکرٹری احمد نواز سکھیرا بھی کابینہ اجلاس میں سائفر کی بابت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا حوالہ دے چکے تھے کہ اس سے مسائل ہوں گے۔ اگر اسد مجید کا بیان اس ججمنٹ میں پڑھیں تو آپ حیرت سے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ خان کس ڈگر پر چل نکلا تھا۔ اسد مجید نے اپنی گواہی میں کہا ہے کہ وہ سائفر انہوں نے امریکہ کے ایک سفارت کار ڈونلڈ لُو سے لنچ پر ملاقات کے بعد لکھا تھا۔ اس ملاقات میں پاکستانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی اور دیگر سفارت کار بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اس سائفر میں کہیں نہیں لکھا کہ امریکہ نے دھمکی دی یا یہ کوئی سازش ہو رہی ہے۔ انہوں نے اپنے تاثرات فارن سیکرٹری کو بھیجے تھے جبکہ عمران خان جلسوں میں دہراتے رہے کہ انہیں دھمکی دی گئی اور سازش کی گئی۔ اس ججمنٹ میں ایک اور اہم بیان وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ عمران خان اس سائفر کو دیکھ کر جذباتی ہوگئے اور کہا کہ اب امریکن پھنس گئے ہیں۔ یوں سب پلاننگ کی گئی کہ سائفر پر کیسے کھیلنا ہے۔ اعظم خان کی گواہی بہت اہم تھی کیونکہ سائفر کی کاپی اُن کو بھیجی گئی تھی جو واپس فارن آفس کو نہیں بھیجی گئی‘ جس پر سارا مقدمہ چل رہا تھا کہ وہ سائفر کدھر گیا۔ اعظم خان کے بقول انہوں نے سائفر کی کاپی عمران خان کو دی تھی۔ چند دن بعد ان سے کاپی کا پوچھا تاہم انہوں نے بتایا کہ سائفر کی کاپی گم ہوگئی ہے۔ اعظم خان نے کہا کہ وہ گیارہ اپریل تک وزیراعظم کیساتھ رہے‘اُس وقت تک سائفر کی کاپی نہیں ملی تھی۔ فارن آفس کے اہلکاروں نے بھی یہی بیان دیا۔ فارن سیکرٹری کا کہنا تھا کہ انہیں وزیراعظم ہاؤس نے کاپی واپس نہیں کی۔ عمران خان پر الزام یہ تھا کہ سائفر گم کر دیا جو بعد میں ایک امریکن ویب اخبار نے چھاپ دیا جس پر اداروں کو یقین ہوگیا کہ خان نے اس سائفر کا سیاسی استعمال کیا ۔
امریکہ سے تعلقات خراب کرنے پر بھی خان کو سمجھایا گیا لیکن انہوں نے کسی کی نہیں سنی۔ عمران خان سیکرٹری خارجہ کی بات سیریس نہیں لے رہے تھے کہ ان کا کوئی کیا بگاڑ لے گا۔ یہ خان کی پہاڑ جتنی انا کے خلاف تھا کہ وہ وزیراعظم تھے اور فارن آفس کا ایک افسر انہیں منع کررہا تھا۔ خان کی انا ان پر حاوی ہوگئی اور انہوں نے فارن سیکرٹری کی باتوں اور مشوروں کو سیریس نہیں لیا۔ دوسری طرف شاہ محمود قریشی کا رویہ اس پورے معاملے میں نہ صرف پُراسرار بلکہ حیران کن تھا۔ جو کام سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کررہا تھا‘ یہ کام دراصل شاہ محمود قریشی کا تھا کہ وہ وزیراعظم کو روکتے کہ یہ کام مت کریں۔ الٹا شاہ محمود قریشی سائفر کے بعد اسلام آباد جلسے سے خطاب میں نعرے مار رہے تھے کہ انہوں نے خان کو سب سے بڑا راز دے دیا ہے۔ اب خان جانے اور عوام۔ خان بھی شاہ محمود قریشی کی توقعات پر پورا اترا اور سرعام سارے راز کھول دیے۔ شاید شاہ محمود کو اندازہ تھا کہ سائفر پبلک کرنے کے نتائج کا سارا ملبہ عمران خان پر گرے گا ۔ شاہ محمود قریشی کی ایک توقع تو خان نے پوری کی جب سائفر بارے عوام کو جلسے میں بتایا‘ حالانکہ ان کا کام وزیراعظم کو گائیڈ کرنا تھا کہ یہ چیز اُن کے گلے پڑ سکتی ہے۔ خان نے امریکہ اورجنرل باجوہ کو برا بھلا کہا‘ اس وقت شاہ محمود قریشی بہت خوش تھے لیکن وہ جذبات میں اندازہ نہ کرسکے کہ عمران خان کا سائفر ملبہ اُن پر بھی گرے گا۔ اب دو سال بعد نہ امریکہ کا کچھ بگڑا نہ ڈونلڈ لُو کو کچھ ہوا۔ وہ دونوں اپنی جگہ موجود ہیں بلکہ ڈونلڈ لُو سفارتی وزٹ پر انڈیا پہنچا ہوا ہے۔ اگر فارن سیکرٹری سہیل محمود کی بات سُن اور سمجھ لی جاتی تو آج عمران خان اور شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل میں قید نہ ہوتے۔